... loading ...
ریاض احمدچودھری
جماعت اسلامی پاکستان نے جمعرات کو آئندہ پانچ سال کے لیے حافظ نعیم الرحمان کو نئے امیر کے طور پر منتخب کر لیا ہے۔ان کی بطور امیر جماعت اسلامی مدت 2024 تا اپریل 2029 تک ہو گی۔حافظ نعیم الرحمان حال ہی میں میئر کراچی کے لیے بھی الیکشن لڑ چکے ہیں۔تین ماہ کے عرصہ میں مختلف مراحل کے دوران جماعت اسلامی کی مجلس شوری کے تجویز کردہ تین امیدواروں کو ملک بھر سے جماعت کے اراکین نے اپنے ووٹ بیلٹ پر کاسٹ کر کے بھجوائے تھے اور گنتی کے بعد چار اپریل کو نئے امیر کا اعلان کیا گیا۔ ملک بھر سے 46 ہزار اراکین نے اپنا ووٹ خفیہ بیلٹ کے ذریعے کاسٹ کیا۔
اس سے قبل آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے فوراً بعد ہی جماعت اسلامی کے سینئر رہنما سراج الحق نے جماعت اسلامی کی امارات سے استعفیٰ دے دیا تھا۔جناب سراج الحق اپنی دوسری مدت امارات آٹھ اپریل کو پوری کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ خود حافظ نعیم الرحمان بھی انتخابات 2024 میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر سندھ اسمبلی کی جیتی ہوئی سیٹ چھوڑ چکے ہیں۔حافظ نعیم الرحمن سماجی کارکن، سیاست دان اور جماعت اسلامی پاکستان کے موجودہ مرکزی امیر ہیں۔ اس سے قبل وہ 2013 سے 2024 تک جماعت اسلامی کراچی کے امیر رہ چکے ہیں۔انھوں نے این ای ڈی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ اور جامعہ کراچی سے اسلامی تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1995ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ دو سال تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظمِ اعلیٰ بھی رہے۔ 2000ء میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ انھوں نے اسسٹنٹ سیکرٹری ، جنرل سیکرٹری اور نائب امیر کراچی کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ 2013ء میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر بنے۔حافظ نعیم الرحمٰن الخدمت کراچی کے صدر کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔چونکہ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک انجینئر ہے، اور انہیں رہائشی منصوبوں میں واٹر ٹریٹمنٹ انجینئر کی حیثیت سے 20 سال کا تجربہ ہے۔
حافظ نعیم ایک طویل عرصے سے کراچی کی سیاست کی توانا آواز ہیں، شہر کے مسائل اور عوام کے حقوق کے حصول کے لیے بیک وقت کے الیکٹرک، واٹر بورڈ، نادرا، سوئی سدرن گیس سمیت مختلف عوامی مسائل کے لیے دھرنوں، مظاہروں، حقوق کراچی مارچ کی صورت میں کراچی کے مظلوم عوام کا مقدمہ ایک تسلسل سے لڑ رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی پر تاریخی کامیاب دھرنا ،کراچی کی مردم شماری ،بااختیار شہری حکومت کے قیام، گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ، پر حافظ نعیم الرحمن آواز اٹھاتے ہیں۔ جس کی وجہ حکومت کی جانب سے یوٹیلی ٹی کمپنی کے ساتھ مبینہ تعصب اور کراچی کے لوگوں کو کمپنی پر لاگو ہونے والی شق کے تحت اپنے صارفین کو ان کے پیسے واپس نہ کرنے کے معاملے میں اس کی خدمات سے انکار ہے۔ رحمان نے دعوی کیا کہ 2020 میں کمپنی کا 9 ارب روپے کا منافع حکومت کی طرف سے موصول ہونے والی بڑی سبسڈی کی قیمت پر تھا، جس کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کے پیسے یوٹیلیٹی کمپنی کے مالکان کو فائدہ پہنچا رہے تھے۔کراچی کی بارشوں اور کورونا کے دنوں میں ان کی امدادی سرگرمیاں بھی قابل تعریف ہیں۔وہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات 2023ء کے لیے جماعت اسلامی کے نامزد کردہ امیدوار برائے مئیر ہیں۔جنہیں نظامت کراچی کے لیے پسندیدہ ترین امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔ حافظ صاحب کی قیادت میں جے آئی پی 2023 کے کراچی بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ جے آئی پی نے 24 جنوری 2023 تک کے نتائج کے مطابق مقبول ووٹوں کے 30% سے زیادہ اور 85 یو سی نشستیں حاصل کیں۔ 2023 کے انتخابات میں، مرتضی وہاب اور حافظ نعیم اور رحمان نے کراچی کے میئر بننے کے لیے مقابلہ کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے مرتضیٰ وہابنے 173 ووٹوں کے ساتھ الیکشن جیتا، جبکہ جماعت اسلامی سے تعلق کرنے والے حافظ نعیم رحمان نے غیر سرکاری نتائج کے مطابق 160 ووٹ حاصل کیے۔ جے آئی نے حکومت سندھ پر پاکستان تحریک انصاف کے 29 ارکان کو اغوا کرنے کا الزام لگایا جنہیں رحمان کو ووٹ دینا تھا کیونکہ پی ٹی آئی نے جے آئی کی باضابطہ حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا۔
قیام پاکستان سے قبل 26 اگست1941 کو جماعت اسلامی قیام پزیر ہوئی اور بعد میں یکم جون 1957 کو اس کا دستور نافذ العمل ہوا۔ اس جماعت کی شاخیں بھارت، بنگلہ دیش اور کشمیر میں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں گلبدین حکمت یار اس کے سربراہ تھے۔پاکستان کی سیاست میں جماعت اسلامی شروع سے اپنی سیاست کا تعین کرنے کی کوشش میں رہی ہے۔مولانا مودودی کی موجودگی میں بھی جماعت کے پاس نظریہ تھا، وہ اپوزیشن کی ایک توانا آواز تھے مرکزی دہارے میں بھی شامل تھے۔مگر جب 1970 میں انتخابات ہوئے تو جماعت کے نتائج مایوس کن تھے جس پر مولانا مودودی پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہوگئے۔ قاضی حسین کی قیادت میں جماعت اسلامی نے ایک اور شکل اختیار کی اس کے بعد جو بحران پیدا ہوا جماعت اسلامی کو ایک اور چہرے کی تلاش تھی جو منور حسن کی شکل میں آیا۔اس کے بعد جماعت اسلامی بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر سراج الحق کی صورت میں ایک ماڈریٹ چہرہ لے کر آئی۔ وہ دس سال امیر رہے ۔
جماعت اسلامی کو ایک نئے چہرے کی تلاش تھی اور حافظ نعیم الرحمان بہت بہتر چوائس لگ رہے ہیں کیونکہ انھوں نے کراچی میں تنظیم کو منظم کیا ہے۔ اگرچہ تاریخی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جماعت ہمیشہ سے کراچی میں مضبوط پارٹی کے طور پر رہی ہے۔ پاکستان کے دونوں ساحلی بندرگاہوں والے شہروں کراچی اور گودار میں شہری مسائل کے بیانیے پر عوام میں جماعت اسلامی کو پزیرائی ملی۔ چونکہ جماعت اسلامی اپنے آپ کو ایک مذہبی و سیاسی جماعت گردانتی ہے، اس لیے انتخابی میدان میں انھیں بھرپور محنت کی اشد ضرورت ہے۔نئے سیاسی منظرنامے میں توجہ حاصل کرنے کے لیے نئے امیر کو کئی طرح کے چیلنجرز کا سامنا ہو گا۔