... loading ...
زریں اختر
آج کا کالم غزل نما،کالم غزل نہیں ہوسکتا غزل نما تو ہوسکتاہے ،اوروہ ایسے کہ جس طرح غزل کے اشعار میں ہر شعر منفرد ہی نہیں بلکہ متضاد خیال پر مبنی بھی ہو سکتا ہے ، پہلے شعر میںشاعر عشق ِ حقیقی میں فنا تو دوسرے ہی شعر میں عشق ِ مجازی سے بے حال یا پہلے شعر میں فرقت کی دہائی تو دوسرے شعر میں وصل سے دل بھر اہوا؛شاعرقدرت کی وہ منتخب ہستی ہے جو اضطرابی و اضطراری روح دے کر بھیجی گئی ہے ۔ ہمیں کبھی غزل پڑھتے ہوئے جسے ہم نثر میں ‘جھٹکا’ لگناکہتے ہیں نہیں لگتے ۔ نثر میں خیال کے بیان میں تسلسل نہ ہوتو اسے جھٹکا لگنا کہتے ہیں، قاری کو لگتاہے کہ ابھی تو کچھ اور بات ہورہی تھی اور اچانک کوئی اور ہی بات چل پڑی ہے ۔ اس جھٹکے کا احساس غزل پڑھتے یا سنتے ہوئے بالکل نہیں ہوتا۔ نثر میں جو کوتاہی قابلِ گرفت ہے وہی غزل میں قابل ِ قبول ہی نہیں قابل تحسین ہے،سامع یا قاری کی بے اختیار و بیک زبان و دل صدا نکلتی ہے کہ واہ ! شاعر نے کیسا انوکھا خیال اگلے ہی شعر میں باندھا ہے،اعلیٰ بہت اعلیٰ، میاں یہ تو شاعر ہی کرسکتاہے عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔
عام آدمی کے بس کی بات کیسے ہو ؟عام گفتگو میں اسے خبط سمجھا جاتاہے جب کوئی ایک موضوع پر بات کرتے کرتے کوئی دوسرا موضوع چھیڑ دے ۔اس کا تعلق دماغی عمل سے ہے ۔ جب بات چیت شروع ہوتی ہے تو ذہن اس سمت میں سوچنا اور خیال کی رسد بہم پہنچانے کا کام شروع کردیتاہے ، ایک بات سے دوسری بات ،ایک خیال سے دوسرا خیال ، خیالات کا ایک سلسلہ ترتیب پانے لگتاہے اب اگر اچانک مصنف یا مقرر کسی دوسرے موضوع پر چھلانگ لگادے جس کاقاری یا سامع تصور بھی نہیں کررہا ہوتا ، توخیالات جو ترتیب پا رہے تھے قلابازیاں کھانے لگتے ہیں ،آپس میں گتھم گتھا ہوجاتے ہیں ،ایسے میں سامع یا قاری مصنف یا مقرر کو شک بھری نظروں سے دیکھتا اور دل میں سوچتا ہے کہ اس کی طبیعت یا دماغ میں کوئی خلل تو نہیں۔ لیکچر کے دوران بھی ایسا ہوتاہے۔اگر استاد ایک موضوع پر لیکچر دیتے دیتے دائیں بائیں ہوجائے تو شاگردبھی آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں، اور سچی بات یہ کہ اب ان کابھی حق بنتاہے،استاد دائیں بائیں تو شاگرد آئیں بائیں۔
جو میدان غزل گو شاعر کو حاصل ہے ،نثر نگار اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا۔ کالم نگاروں نے ایک تکنیک ضرور تراشی اور وہ یہ کہ کچھ منتخب خبروں پر مبنی مختصر تبصروں کے ساتھ کالم ترتیب دے لیا، نثری کولاژکہہ لیں ۔لیکن جو آزادی شاعر کو غزل دیتی ہے وہ نثار کو نثر بہرحال نہیں دیتی۔ہمارے دماغ میں کوئی خلل ہے نہ ہم خبطی ہیں بس غز ل سے حسد میں مبتلاکالم سرائی فرمانے کی کوشش کر رہے ہیں:میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا۔
خواب دیکھا تھا کہ ‘میرے رستے میرے لوگ’کے عنوان سے کوئی پروگرام کرتے ۔عوام کے مختلف پیشے،ان کی حالت اور رستوں سے تعلق وغیرہ ۔اب رستے محفوظ نہیں ہیں۔ روزانہ سرراہ وارداتوں کی خبریں ضرور آتی ہیں ،مزاحمت ،ہلاکتیں زخمی ۔ ہم کہتے ہیںکہ مزاحمت نہ کریں تو کوئی پولیس یا ڈاکوئوں سے تھوڑی ملے ہوئے ہیںنہ یہ دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔جب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے ، خبریں لگتی رہیں گی ،ہم بھی اس شہر کا قرض اتارتے رہیں گے کہ یہیں پیدا ہوئے ،یہیں پلے بڑھے ،یہیں عمر گزری تو کیا بس دل میں افسوس کرتے ہی چلے جائیں؟ اپنے لیے ہی تھوڑی جینا تھا۔ ہم وہ نسل ہیں جس نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے عہد میں آنکھ کھولی، کبھی خیال کی مناسبت سے لاشعور کوئی نغمہ چلادیتاہے جیسے ابھی ناہید اخترکا گایا یہ گانا چلادیا:
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
آئے تو مشکل ہمت سے کام لینا
گرنے لگے جو کوئی تم بڑھ کے تھام لینا
انسان وہی بڑا ہے جس نے یہ راز جانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
لاشعور کا ریکارڈ اتنا ہی بجا۔لو دوبارہ بجا
کرتاہے جیسے مالی اپنے چمن کی خدمت
کرنا اسی طرح سے تم بھی وطن کی خدمت
محنت سے زندگی میں ہرگز نہ جی چرانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ،اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں
ترکی کی خبر ہے ،اخباری سرخی کے مطابق ”ترکیہ بلدیاتی انتخابات،ریپبلکن پارٹی کی 70سال بعد تاریخی کامیابی،صدر اردوان کی جماعت کو بدترین شکست،اپنا احتساب کریں گے ، ترک صدر۔
”اپنا احتساب کریں گے ”بس یہی سرخی کاوہ حصہ ،ترکیہ صدر کا بیان،سوچ ،نیت ،ارادے کااظہار تھا جو قابلِ ستائش ہی نہیں بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ حزب ِ اختلاف کی کامیابی پراپنے بیان میں ترک صدر اردوان نے کہاکہ 31مارچ ہمارے لیے اختتام نہیں ٹرننگ پوائنٹ ہے،ترک عوام نے ووٹ کے ذریعے سیاست دانوں کو اپنا پیغام پہنچا دیا ہے،نتائج کا پارٹی میں جائز ہ لیں گے اور اپنا احتساب کریں گے۔
یہ جمہوری رویے ہیں جن سے ملکو ں میں جمہوری اقدار پنپتی اور فروغ پاتی ہیں۔ اگر صدر اردوان کو شاہی بخار چڑھا ہوتا تو یہ
شکست زوال کے سفر کے لیے کافی تھی لیکن اس دانش مندانہ اظہار سے یہ امید کی جاسکتی ہے اور یہ پیش گوئی ممکن ہے کہ صدر اردوان کی جماعت ترکیہ میں دوبارہ بر سرِ اقتدار آئے گی۔ناکامی کے بعد احتجاجی اور الزامی سیاست نہیں بلکہ خود احتسابی اور خود شناسی کاعندیہ ترکیہ کے جمہوری مستقبل کے روشن ہونے کی دلیل اورنوید ہے۔
ہم تو وہاں کھڑے ہیں کہ مخالف کا وجود تو کیا برداشت کریں گے آواز ہی برداشت نہیں۔پتا نہیں یہ ہمارے سیاست دان کن گودوں میں کھیلے اور کس زعم میں پلے بڑھے ہیں۔آواز خاموش کرادی جاتی ہے ، نشان عبرت بنادیاجاتا ہے ،ہماری سیاسی تاریخ مخالفین کو دھمکانے، ٹھکانے لگانے،لٹکانے ، اڑادینے ،بند کردینے کی ہے ۔ہم نے تو یہی دیکھا کہ اقتدار میں آئے تومخالف جماعت کے مقدمات کھل گئے ،جب مخالف جماعت اقتدار میں آئی تو اس نے اسی عمل کو سنت مبارک سمجھتے ہوئے دہرایا ،اب مقدمات کا سامنا کرنے کی باری دوسری جماعت کی تھی ۔ یعنی ایک جماعت جب اقتدار میں ہوتی ہے تو دوسری عدالت میں اور جب دوسری جماعت اقتدار میں آتی ہے تو پہلی عدالت میں ۔ باریاں لگ رہی ہیں ۔ایوان سے عدالت اورعدالت سے ایوان تک کے فاصلے انہوں نے بھی کم نہیں ناپے۔ عدالت مقدمات سنتی نبٹاتی ہے کہ شاید یہی چھلنی کام کرے ۔اپنے حق میں فیصلہ آیا تو عدالتیں درست ، مخالف کے حق میں فیصلہ آیا تو وڈیو وائرل ،منصفین بد نام ،ابھی عدالت میں مقدمات کا سامنا کررہے تھے اقتدار میں آگئے تو مقدمات خارج اور دوسری جماعت کے مقدمات کھل گئے۔ یہی دائرے ہیں جس میں قیام کے ازل سے پوری قوم کی تاریخ اور قسمت چکر کھارہی ہے۔صحافیوں کو لفافوں میں گولیاں ملتی تھیں اب اعلیٰ عدلیہ کے منصفین کو لفافوں میں پائوڈر ملا ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ ۔۔جوراسک پارک ایک منظر۔۔۔جنگل کا خوں خوار جانور بپھرا ہواحلق تک منہ پھاڑے کہ کوے سے آگے کا اندھیرا بھی دکھائی دے، ناک پھلائے ، دانت نکالے چنگھاڑ رہا ہے ،خو وووو خووووووو خوووووو۔
٭٭٭