... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
دہلی کے اندر ‘انڈیا ‘ محاذ کی زبردست ریلی اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سپریم کورٹ کی الیکٹورل بانڈ والی کارپیٹ بامبنگ سے بچنے کے لیے مودی سرکار نے کیجریوال کو گرفتار کرنے کا جو ماسٹر اسٹروک مارا تھا وہ بوم رینگ ہوگیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے ماسٹر اسٹروک کے لیے مشہور ہیں اس لیے فی الحال ان کے ماضی میں مارے جانے والے ماسٹر اسٹروکس کا سرسری جائزہ لینا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ مودی کے دس سالہ دور یعنی 2014 کی انتخابی مہم سے 2024 تک کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پہلے نصف میں ان کے زیادہ تر ماسٹر اسٹروکس نشانے پر بیٹھے مگر دوسرے نصف میں معاملہ الٹ گیا۔ ابتدا میں چائے بیچنے والی توہین کو چائے پر چرچا میں بدل دیا گیا لیکن اب شہری نوجوانوں کو متوجہ کرنے کے لیے چائے کو کافی سے تبدیل کیا گیا جو ٹھنڈی ہورہی ہے مگر کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں ہے ۔ مودی کی آمد کے ساتھ ‘بہت ہوا ٠٠٠٠٠ مار،اب کی بار مودی سرکار ‘والے نعروں میں مہنگائی ، خواتین اور بیروزگاری وغیرہ سے خالی جگہ پُر کرکے ماحول سازی کی گئی جو ‘اچھے دن آنے والے ہیں ‘پر منتج ہوگئی۔
انتخابی کامیابی کے بعد عوام کے تو نہیں مگر مودی جی کے اچھے دن آگئے ۔ اس کے بعد ایک ماسٹر اسٹروک میں انہوں نے اپنے سارے بزرگوں کو ٹھکانے لگاکر کمال محسن کشی کا ثبوت دیا لیکن اب اگلے سال وہی 75 سال میں سبکدوشی کی تلوار خود ان کے سر لٹک رہی ہے مگراب 2047 کے بہانے اقتدار سے چپکے رہنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے اس وقت مودی جی 97 سال کے ہوجائیں گے ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی نے پہلا ماسٹر اسٹروک اپنے بہی خواہ سرمایہ داروں کی خوشنودی کے لیے کسانوں کی زمین کو سرکاری اختیار میں لینے والا قانون بناکرمارا۔ اتفاق سے وہ بوم رینگ ہوگیا اور سوٹ بوٹ والی سرکار کو اسے واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔سوچھ ّ(صفائی) بھارت یوجنا کے نام پر نوٹنکی تو بہت ہوئی مگر نہ تو اندر پاکی اور نہ باہر صفائی ہوئی ۔ خواتین پر مظالم ختم کرنے میں مودی جی ناکام ہوئے تو تین طلاق کا ناٹک لے آئے جومسلم عورتوں کے ساتھ پورے خاندان پر ظلم کی علامت بن گیا۔
نوٹ بندی مودی جی کا بہت بڑا ماسٹر اسٹروک تھا جوپوری طرح فلاپ ہوگیا ۔ اس سے جان چھڑانے کے لیے انہیں رو دھو کر کہنا پڑا کہ نوے دن کے بعد اگر مثبت نتائج نہیں نکلے تو جس چوراہے پر چاہیں پھانسی دے دیں۔ اس سے کالا دھن ختم ہونے کے بجائے سفید ہوگیا اوریہ سازش بری طرح ناکام رہی ۔ مودی سرکار کی دوہزار والی نوٹ اب گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہوچکی ہے ۔ اس سے دہشت گردی تو ختم نہیں ہوئی بلکہ پلوامہ میں سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ خود سرکاری آشیرواد سے ہوگیا۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کیونکہ بدعنوانی کا خاتمہ کرنے والا وزیر اعظم رافیل کے سودے میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا ۔ پلوامہ اور سرجیکل اسٹرائیک کی آڑ میں عوام کے آنکھوں میں دھول جھونک بی جے پی نے پھر سے الیکشن جیت لیا ۔ مجموعی اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ پہلا نصف بخیر و خوبی گزر گیا اور وہ دوبارہ اقتدار پر فائز ہوگئے ۔
دوسرے دورِ اقتدار میں مودی جی کا پہلا ماسٹر اسٹروک آئین کی شق 370 کا خاتمہ تھا۔ اس سے یہ خواب بیچا گیا تھا کہ جموں کشمیر میں امن و امان قائم ہوجائے گااور حالات معمول پر آجائیں گے ۔ اس مقصد میں کامیابی ہوئی ہوتی تو جموں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال ہوچکا ہوتا اور وہاں عوام کی منتخبہ حکومت بر سرِ اقتدار ہوتی بلکہ کمل چھاپ وزیر اعلیٰ براجمان ہوتا۔ یہ سارے خواب بکھر گئے ۔ اب لداخ میں کھلے عام 370 کی بحالی کا مطالبہ ہورہا ہے بلکہ تحریک چل رہی ہے ۔ جموں کے ہندو بھی 370 کے خاتمہ سے پریشان ہیں وادی تو خیر اس سے پوری طرح بے حال ہے ۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کو واپس لانے والی سرکار گلوان میں چینی حملہ نہیں روک سکی ۔ چین نے اروناچل اور بھوٹان میں بھی اپنے پیر پھیلائے مگر موجودہ سرکار شتر مرغ کی مانند اپنا چہرہ ریت میں چھپائے بیٹھی رہی۔ وزیر اعظم نے کمال بے حیائی سے چینی پیش رفت کے اعتراف سے انکار کردیا اور جگ ہنسائی کی وجہ بنے ۔
دوسرا ماسٹر اسٹروک سی جی آئی رنجن گوگوئی کو بلیک میل کرکے رام مندر کا فیصلہ کروانا تھا۔ مودی چاہتے تھے اگلا انتخاب رام مندر دکھا کر جیتیں مگر اس کی تعمیر ادھوری رہ گئی۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کو ناکام کرنے کے لیے وقت سے پہلے اس کا افتتاح کرکے ہندو دھرم گرووں کی ناراضی مول لے لی اور پھر یہ بھی ہوا کہ الیکشن سے قبل لوگ اسے بھول بھال گئے ۔ اب تو سرکار نے بھی اس کا نام لینا چھوڑ دیا۔ اس طرح دوسرا ماسٹر اسٹروک بھی اوندھے منہ گرگیا۔ اس دوران مودی سرکار نے اپنے ہندو مسلم کارڈ کو کھیلنے کی خاطر سی اے اے کا قانون لے آئی مگر اس کی مسلمانوں کی جانب ایسی مخالفت ہوئی کہ اس کے ہوش ٹھکانے آگئے ۔ مجبورا مرکزی حکومت نے اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا کیونکہ ملک کے گیارہ صوبوں نے این آر سی تیار کرنے سے انکار کردیا ۔ ان میں بی جے پی کی شمولیت والی بہار سرکار بھی تھی۔
آسام کی بی جے پی حکومت نے این آر سی کی بنیاد پر شہریت کے خاتمہ سے رک گئی کیونکہ اس طرح مسلمانوں سے زیادہ ہندو متاثر ہو رہے تھے ۔ حال میں سپریم کورٹ کے الیکٹورل بانڈ والے بم دھماکے سے بچنے کے لیے سی اے اے کی ڈھال کو نکالا گیا مگر اس نے شمال مشرقی ریاستوں میں بی جے پی کے قلعہ پر بلڈوزر چلا دیا۔ یہ تو خیر اس کی پہلی قسط تھی ۔ سی اے اے کے بعد کورونا وباء کے دوران بری طرح ناکام ہونے والی حکومت نے موقع کا فائدہ اٹھاکر کسانوں کے خلاف تین کالے قوانین بنا کر ایک ماسٹر اسٹروک مارا ۔ اس کی زبردست مخالفت ہوئی اور مودی سرکار کو وہ متنازع قوانین ایوان پارلیمان میں ناک گھس کرکواپس لینا پڑا۔ اب پھر کسان ایم ایس پی کے معاملے میں سرکاری وعدہ خلافی کی مخالفت میں پنجاب کی سرحد پر برسرِ جنگ ہیں اور انہیں خالصتانی کہہ کر بدنام کیا جارہا ہے ۔
الیکٹورل بانڈ کی معلومات کو چھپانے کے لیے طرح طرح کی بہانے بازی کی گئی مگر معلومات کے افشاء ہوجانے پرجب سرمایہ داروں کو
ای ڈی اور سی بی آئی کے ذریعہ بلیک میل کرکے یا فائدہ پہنچا کر دولت اینٹھنے کا معاملہ طشت ازبام ہوگیا تو اس کی پردہ پوشی کے لیے بدعنوانی کی بنیاد پر اقتدار میں آنے والی عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کو جیل بھیج کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اس حمام وہی نہیں سبھی برہنہ ہیں ۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ عوام بدعنوانی کو سنجیدگی سے نہ لیں اور الیکٹورل بانڈ کو بھول جائیں لیکن کیجریوال کی گرفتاری اس لوٹ مار کے خلاف آب حیات بن گئی اور حکومت کے لیے اب منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی ہے ۔ عام آدمی پارٹی فی الحال حزب اختلاف کے اتحاد ‘انڈیا الائنس’ کا حصہ ہے ۔ ان لوگوں کو توقع تھی کہ اروند کیجریوال پہلی ہی سماعت میں چھوٹ جائیں گے اس لیے رہائی کا جشن منانے کی خاطر 31 مارچ کو دہلی کے تاریخی رام لیلا میدان میں خطاب عام کا اعلان کرکے اپوزیشن نے مودی سرکار کی بازی الٹ دی ۔اروند کیجریوال کی حراست کو بڑھانے کے لیے حکومت نے اچھل کود شروع کی توانہوں نے خود اپنی وکالت کرکے سرکار کے دانت کھٹے کر دئیے ۔ ا ب دنیا نے دیکھ لیا کہ پڑھے لکھے اور جاہل سیاستداں میں کیا فرق ہوتا ہے ؟ ایک بیچارہ معمولی پریس کانفرنس سے بھاگتا پھرتا ہے اور دوسرا عدالت میں سینہ سپر ہوجاتا ہے ۔
اروند کیجریوال 39 منٹ تک اپنی پیروی کرکے خود کی وکالت کرنے والے پہلے برسرِ عہدہ وزیر اعلیٰ بن گئے ۔ مرکزی حکومت کے دباو نے مذکورہ عدالت پر کو 31 مارچ سے قبل تو کیجریوال کو رہا نہیں کیا لیکن پھر بھی ای ڈی کی 7 دن حراست والے مطالبے کو بھی تسلیم نہیں کیا بلکہ چار دن بعد یکم اپریل تک کی مدت دے دی ۔ اس دوران جب کیجریوال نے جج سے پوچھا کہ اس کیس میں ان کا نام صرف چار مرتبہ آیا ہے ۔ کیا یہ ان کی گرفتاری کے لیے کافی ہے ؟ تو ای ڈی کے وکیل لاجواب ہوگئے اور بولے وزیر اعلیٰ قانون سے بالاتر نہیں ہیں حالانکہ یہ جواب کھوکھلا تھا ۔ سچ تو یہ کہ اس انتخابی موسم میں کیجریوال کے لیے یہ گرفتاری نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے کیونکہ فی الحال ذرائع ابلاغ میں گرفتاری کے سبب وزیر اعلیٰ کیجریوال کی بلے ّ بلے ّ ہے ۔اسے کہتے ہیں ماسٹر اسٹروک کا بوم رینگ ہونا۔ اس معاملے میں مودی سرکار بری طرح گھر گئی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس چکرویوہ سے نکلنے کے لیے مودی اور شاہ کون سا نیا ماسٹر اسٹروک استعمال کرتے ہیں اور وہ تیر بہ ہدف ہوتا ہے یاپلٹ کر اسے مارنے والے کو ہی زخمی کردیتا ہے یعنی بومرینگ ہوجاتا ہے ۔ بی جے پی کو اس کی ناکامیوں نے محتاط کردیا ہے اس لیے کہ اب انتخاب سامنے ہے اور جان پر بنی ہوئی ہے ۔ کیجریوال اور سسودیہ جس تہاڑ جیل سے نکلیں گے وہیں پر مودی اور شاہ کو بھیجیں گے اس لیے بی جے پی محتاط ہوگئی ہے ۔ وہ شاید احمد کمال پروازی کے اس شعر پر عمل کررہی ہے
ایک ہی تیر ہے ترکش میں تو عجلت نہ کرو
ایسے موقعے پہ نشانا بھی غلط لگتا ہے