وجود

... loading ...

وجود

انکار کی جرأت

بدھ 03 اپریل 2024 انکار کی جرأت

بے نقاب / ایم آر ملک

کیا ہم ایک تاریخی معرکے کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کی پیشانی پراسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ منصفوں جسٹس محسن کیانی ،جسٹس بابر ستار ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس ارباب محمد طاہر ،جسٹس اعجاز اسحاق خان ،جسٹس ثمن کی جرأت اور جانفشانی کی نئی داستان رقم ہو نے والی ہے۔
ایک فیصلہ کن فتح کے حصول کا خواب جس کی تعبیر میں محب ِ وطن باسیوں کی ماں دھرتی کا حقیقی تصور اُبھر رہا ہے۔برسرِ اقتدار ٹولہ ابھی تک وسوسوں اور ابہام کی سولی پر مصلوب اپنی ناکام خواہشات کی تکمیل میں سرگرداں ہے۔انکار کی جرأت سے آزادی کے ٹھوس اور واضح تصورکی تصویر ہمارے پردہ ٔبصارت پر اُبھری جس کے کینوس پر جسٹس محسن کیانی ،جسٹس بابر ستار ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس ارباب محمد طاہر ،جسٹس اعجاز اسحاق خان ،جسٹس ثمن نے انصاف کے رنگ بکھیرے۔
جمہوری تہمتوں سے داغدار اور لتھڑا ہوا خاندانی بادشاہت کا نظا م جو منافقت کی سہولت کاری کے ستونوں پر لرز رہا ہے جہاںسانحہ ماڈل ٹائون کے کرائے کے قاتلوں کو اپنی جیت اور جعلسازیوں کیلئے پالا جاتا ہے۔لوٹ مار کرنے والی ایک اقلیت نے اکثریت کیلئے وطن عزیز کو ایک ”وسیع الجثہ قید خانہ”میں بدل دیا ہے جس کی زنجیروں میں جکڑے عوامی شعور اور احساس کی رگ و پے میں حقیقی آزادی کی جستجو مچل رہی ہے۔جمہوری ٹولہ کے گماشتوں کی دانستہ ہرزہ سرائی اور گراوٹ ذہنی پسپائی کی بدترین مثال ہے۔انصاف کے ایوانوں سے سہولت کار کی اختراع ایک بار پھر بامعنی لباس زیب تن کرکے سامنے آئی ہے۔
اس کے باوجود ہم ایک تاریخی معرکے کی جانب بڑھ رہے ہیں ایک آغاز کی ابتدا دیکھ رہے ہیں ایک ایسی جرأت آمیز للکار جس نے صحن ِ وطن پر چھائے سکوت کے جامد و ساکت ماحول میں ارتعاش پیدا کیا اور جرأت مندانہ موقف کی چادر تان دی۔ ایسے وقت میں جب باری کے کھیل میں دو بڑی پارٹیاں شتر مرغ کی طرح حقائق سے چشم پوشی کر کے لاشوں کا کھیل کھیلتی رہیں،قانون کی دفعات اور آئینی ضابطے محض زیر دست عوام کو محکوم رکھنے کیلئے بناتی رہی ہیں اور اس کھیل میں دو تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کھسک گئی،ان کے عسکری ونگز کی بدولت نہ سفر محفوظ رہا،نہ گھر کی چار دیواری،نہ ا سکول جاتے بچوں کے پلٹ آنے کی کوئی ضمانت،نہ روزی روٹی کیلئے گھر سے جانے والوں کا تحفظ رہا اور انہی کے زیر سایہ عدالت کی عمارتوں میں بیٹھے شہ نشینوں کے چہروں کی کرختگی سائل کی بے بسی دیکھنے کے بجائے کاغذوں کے پلندوں کے اُلٹ پھیر پر یقین رکھتی ہے،جن کے ایوانوں میں آئین کو توڑنے والی وہ ترامیم آئینی ہوتی ہیں جن کو آئینی تحفظ دیا جاتا ہے۔
سیاست میں فیصلوں کا تعین بر وقت نہ ہو تو آپ کی سیاست کا سورج غروب ہو جاتا ہے یہ کریڈٹ پی ڈی ایم کے ٹولے کو جاتا ہے کہ اُس نے ایک خودساختہ کمیشن کی ٹائمنگ ایسے وقت چنی جب 23کروڑ عوام عدلیہ کے فخر جسٹس محسن کیانی ،جسٹس بابر ستار ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس ارباب محمد طاہر ،جسٹس اعجاز اسحاق خان ،جسٹس ثمن کے شانہ بشانہ کھڑی ہے،محلاتی سازشوں میں جسٹس منیر جیسے کرداروں کی سہولت کاری کے باوجود ن لیگ کا مقدر بد ترین شکست ٹھہری، جسٹس محسن کیانی ،جسٹس بابر ستار ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس ارباب محمد طاہر ،جسٹس اعجاز اسحاق خان ،جسٹس ثمن کی دور اندیشی نے وقت کی پیشانی پر فتح کے آثار نمایاں کر دیے ہیں ، اندر کے خوف نے ن لیگ سے 23کروڑ عوام کی حمایت چھین لی،بوکھلاہٹ میں انسان غلط اور عوام دشمن فیصلوں کے تسلسل کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑتا ہے اور قدم قدم پر ٹھوکریں اس کا مقدر بن جاتی ہیں، عوام کی عزت نفس کا سودا کرنے والوں کے سامنے جسٹس محسن کیانی ،جسٹس بابر ستار ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس ارباب محمد طاہر ،جسٹس اعجاز اسحاق خان ،جسٹس ثمن کا کردار ایک ڈھال بن کر کھڑاہوگیا، آج وطن عزیز کی نمائندگی اور دستار کا حقدار اور عوام کی ریڈ لائن عمر ان خان ہے جس نے انصاف کے سر پر رکھی دستار کو سلامت رکھا، 1997میں عدلیہ پر حملہ آور ٹولے نے ایک بار پھر اپنے مذموم ارادوں سے عدلیہ کے وجود میں دراڑ ڈال کر اپنے مفادات کی آبیاری چاہی،وہ سیاست جس نے اپنا ضمیررجیم چینج کے تحت چیتھڑے،چیتھڑے کرکے اقتدار کے کھونٹے پر ٹانگ دیا شاید اس بات سے نابلد ہے کہ وطن عزیز کی فضا پر چھایا سکوت اور جمود جسٹس محسن کیانی ،جسٹس بابر ستار ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس ارباب محمد طاہر ،جسٹس اعجاز اسحاق خان ،جسٹس ثمن کیلئے عوامی طاقت اور حمایت کی شکل میں سول آمریت کے حصار کو پھاڑ کر باہر نکلے گا،فروری 2024کے الیکشن نے سیاست کے چہرے سے فریب کا بچا کھچا نقاب بھی اُتار پھینکا،مفادات کی پچ پر کھڑا پی ڈی ایم ٹو کا ٹولہ ایک بار پھر سرمائے کے شیر کی آدم خوری کوجعلسازی کے تحت عوام پر مسلط کرنے کی تگ و دو میں کامیاب ہوچکا کہیں ”ووٹ کو عزت دو”کے نام پر دھوکہ دیاگیا تو کہیں فارم 45 کو فارم 47میں بدل کر وطن عزیز کے باسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوششیں کی گئی ،مگر اس کے باوجود قوم جسٹس محسن کیانی ،جسٹس بابر ستار ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس ارباب محمد طاہر ،جسٹس اعجاز اسحاق خان ،جسٹس ثمن کے جرأت مندانہ موقف میں فیصلہ کن فتح کے حصول کا خواب دیکھ رہی ہے۔
جسٹس محسن کیانی ،جسٹس بابر ستار ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس ارباب محمد طاہر ،جسٹس اعجاز اسحاق خان ،جسٹس ثمن کیلئے عوام کا سیلِ رواں گلی گلی اور کوچہ کوچہ نکلنے کیلئے بے تاب ہے،جعلی حکمرانی کا ٹولہ جان لے کہ وقت کی آنکھ عوام کا ایک ایسا طوفان دیکھ رہی ہے جو کسی مقام پر رکتا اور تھمتا دکھائی نہیں دیتا،23کروڑ عوام کو سیاسی میدان سے پرے دھکیلنے کی ناکام خواہش دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔پہلی بار عوام وطن کا سودا کرنے والے اقتدار کے نہیں سچ کے ساتھ کھڑی ہے،عوام نے اپنا سارا اعتماد جسٹس محسن کیانی ،جسٹس بابر ستار ،جسٹس طارق محمود جہانگیری ،جسٹس ارباب محمد طاہر ،جسٹس اعجاز اسحاق خان ،جسٹس ثمن کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ عوام مفادات کے رشتوں کو توڑ چکے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر