وجود

... loading ...

وجود

جناح کا مقدمہ۔۔۔۔۔

اتوار 31 مارچ 2024 جناح کا مقدمہ۔۔۔۔۔

عماد بزدار

( قسط اول)
بانی پاکستان اور ان کے مقدمے پاکستان کا ذکر آتے ہی اکثر و بیشتر دیکھا گیا کہ بظاہر پڑھے لکھے لوگ بھی فوری رائے قائم کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں چونکہ ان کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ اس ایشو کو سمجھیں تو فوری فتویٰ کچھ اس طرح صادر کرتے نظر آتے ہیں جیسے یہاں کوئی ہندو مسلم تضاد نہیں تھا ، پاکستان ،مسلم اکثریتی صوبوں کا تو مسئلہ ہی نہیں تھا یہ اچانک ہی جناح نامی شخص نے ایک نعرہ لگایا کہ ہم دو الگ الگ قومیں ہیں اس لئے مجھے الگ ملک دے دو۔
یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اسی ” جلد باز “جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا گیا ، یہی جناح، گاندھی کے ہندوستانی سیاست میں متحرک ہونے سے پہلے ایک کل ہند سطح کے ہندوستانی قوم پرست لیڈر شمار ہوتے تھے ، جو بندہ تیس سال بعد ایک نتیجے پر پہنچے کہ کانگرس دراصل ایک ہندو تنظیم ہے، اس شخص پر یہ کتنا بڑا الزام ہے جیسے وہ رات کو سو کر اٹھے اور صبح اس نے اعلان کردیا کہ مجھے الگ ملک دے دو ہم ساتھ نہیں رہ سکتے۔
اسی سلسلے پر بات کرتے ہوئے اس معاملے کے کچھ پہلو آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ مسلم اکثریتی صوبہ پنجاب ہے سن 1923 ہے ، جناح گاندھی کے طرز سیاست سے مایوس ہونے کے باوجود ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں سے مایوس نہیں ہوئے جب 13 مارچ کو ہندو مہاسبھائی لیڈر راجہ نریندر ناتھ نے پنجاب کونسل میں ایک مسلم وزیر میاں فضل حسین کے خلاف عدم اعتماد کی قرار داد پیش کی اس قرارداد کی پیچھے وجہ یہ تھی کہ مسلم اکثریتی صوبہ میں مسلمان وزیر تعلیم میاں فضل حسین نے لاہور کے میڈیکل کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں مسلمان طلبا کے لئے چالیس فیصد نشستیں مخصوص کردیں، میونسپل کمیٹیوں میں جہاں مسلمانوں کو اپنی آبادی کے تناسب سے کم نشستیں حاصل تھیں ان کی نمائندگی آبادی کے تناسب سے بڑھا دیں اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا چالیس فیصد حصہ مقرر کردیا۔ ہندو میرٹ کے اس “قتل عام پر”غضبناک ہوگئے اور سر فضل حسین کے خلاف قراداد پیش کی ۔بجائے خود کچھ مزید لکھنے کے میں آپ کے سامنے کچھ تقاریر رکھتا ہوں جو اس قرارداد پیش کرنے کے دوران ہوئیں۔
راجہ نریندر ناتھ نے قرارداد پیش کرتے وقت بڑی طویل تقریر کی اور میاں فضل حسین کو فرقہ پرستی کا بانی، ہندو مسلم اتحاد کا دشمن اور ہندوؤں کا بدخواہ قرار دیا۔ اپنی تقریر کے آخر میں سر فضل حسین کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
” اورنگ زیب مت بنو۔ اکبر بننے کی کوشش کرو”۔
پسماندہ مسلم کمیونٹی کو مسلم اکثریتی صوبے میں کچھ رعایت دینے والا ،ہندو لیڈر شپ کی نظر میں میرٹ کا قتل عام کرنے والا اور ہندو مسلم اتحا،د کا دشمن ہوا کرتا تھا۔راجہ صاحب کی تقریر کے جواب میں میاں احمد یار دولتانہ نے اپنی پرجوش تقریر کا اختتام ان الفاظ میں کیا:۔
”راجہ صاحب نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ وزیر تعلیمات اورنگ زیب کی پالیسی اختیار کررہے ہیں ۔ میں راجہ صاحب کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت جب کہ بہت سے سیوا جی ہمارے مدمقابل بن کر بیٹھے ہوئے ہیں ہمیں اکبر پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہمیں اورنگ زیب ہی پیدا کرنے چاہئیں۔ مجھے یہ کہنے میں مسرت اور فخر ہے کہ خواہ کتنے ہی سیوا جی ہمارے سامنے آجائیں ۔ میاں فضل حسین تنہا ان کا مقابلہ کرنے کو کافی ہیں۔ میں انتہائی رنج و اندوہ سے یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہندوؤں کا تعصب اور تنگ دلی اب ایک ایسے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے جس سے مسلمانوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا ہے ”۔
ملک فیروز خان نون نے اپنی تقریر کے دوران میں کہا۔
”اگر ہماری قوم کے ساتھ پہلے سے کسی نے انصاف کیا ہوتا تو میڈیکل کالج اور گورنمنٹ کالج میں مسلمانوں کو چالیس فیصد نشستیں دینے کے لئے موجودہ سرکلر جاری کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ چونکہ ہمارے ساتھ منصفانہ سلوک کبھی نہیں ہوا ، اس لئے اس قسم کے سرکلر کا اجرا لازمی اور ضروری تھا ۔
جناب والا ! میں ایک مثال سے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمان کیونکر ظلم اور بے انصافی کا شکار ہورہے ہیں ۔ حالیہ سرکلر کی رو سے میڈیکل کالج میں چالیس فیصد طلبہ لازماً داخل کیے جانے چاہئیں۔ لیکن ہوا کیا ہے ؟ امسال ایف ایس سی کے امتحان میں ممتحنوں کی اکثریت اسی وسیع القلب اور فراخ دل قوم کے فرزندوں پر مشتمل تھی جس کے ایک نونہال ہمارے راجہ نریندرناتھ صاحب ہیں۔چنانچہ مسلمان طلبہ کو اس کثرت سے فیل کیا گیا کہ ان غریبوں کی چالیس فیصد تعداد میڈیکل کالج تک پہنچ ہی نہیں سکی”۔
اسی قرارداد کے دوران میاں فضل حسین نے اپنی تقریر میں کیا کہا وہ اگلی قسط میں دیکھتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر