... loading ...
بے نقاب /ایم آر ملک
جس روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ منصف ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہوگئے اور عدالت عظمیٰ کا چیف اپنی مدت ملازمت کی توسیع کا پس منظر لیکر حاکم وقت سے مل رہاتھا ۔۔اُس روز مجھے اے آر کار نیلس یاد آئے۔
اے آر کارنیلس ہماری عدالتی تاریخ کا ایک عظیم اور روشن کردار جو زندہ رہا تو اُس کی زندگی ہوٹل کے ایک کمرے تک محدود رہی مگر انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے کوئی سمجھوتہ یا حاکم وقت کی خوشنودی اُن کے مبنی بر انصاف فیصلوں پر کوئی ضرب نہ لگا سکے۔ بطور چیف جسٹس آف پاکستان اُن کی تعیناتی کے دوران ایک بار لاہور بار کونسل نے عشائیہ دیا۔ یہ ایوبی دور تھا بار کونسل کا نمائندہ جب آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے پوچھا اس عشائیے میں اور کو ن کون مدعو ہوگا ۔
بار کونسل کے نمائندے نے کہا کہ ایوب خان بھی ہوں گے ۔اے آر کارنیلس نے پوچھا کہ میری نشست کہاں ہوگی ؟
کہا گیا کہ آپ ایوب خان کے برابر والی نشست پر بیٹھیں گے ۔
اے آر کار نیلس نے انکار کردیا ۔بار کونسل کے نمائندے نے اے آر کار نیلس کے انکار پر صدر بار کونسل کو اطلاع دی وہ معزز چیف جسٹس سے ملاقات کرنے خود آپہنچا ۔درخواست کی کہ آپ کی شرکت ضروری ہے ،پروٹوکول کا تقاضا ہے، ردو بدل کیا گیا تو غلط تصور ہوگا ۔اے آر کار نیلس نے اس شرط کے ساتھ ہامی بھری کہ میری تصویر صدر کے ساتھ نہ بنے ۔صدر بار کونسل نے کہا ۔
سر اس میں قباحت کیا ہے ؟
اے آر کار نیلس نے کہا کہ میری عدالت میں فیڈریشن کے خلاف کیس ہیں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جب صدر کے ساتھ تصویر بنے گی تو عدلیہ کی غیر جانبداری کس مقام پر کھڑی ہوگی ۔کیا عوام کا عدلیہ پر اعتماد باقی رہ پائے گا ؟
اُس روز مجھے جسٹس سر عبدالرشید یاد آئے ۔
جب 14اگست 1947کو گورنر جنرل کی تقریب حلف برداری تھی قائد اعظم محمد علی جناح تشریف لائے تو گورنر جنرل کی نشست پر بیٹھ گئے۔ ۔سر عبدالرشید نے بانی پاکستان کو برملا کہہ دیا کہ حلف اُٹھانے سے قبل آپ گورنر جنرل کی کرسی پر نہیں بیٹھ سکتے ۔یہ ضابطے کی خلاف ورزی ہے ۔
لیاقت علی خان وزیر اعظم بنے تو سر عبدالرشید کے پاس اپنا ایلچی بھیجا کہ ایک چائے کا کپ ہمارے ساتھ پی لیجیے !
چیف جسٹس سر عبدالرشید نے وقت کے وزیر اعظم کے ایلچی کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ جس عدالت میں وزیر اعظم کے خلاف کوئی کیس آسکتا ہے اُس عدالت کا جج کیسے وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھ کر چائے نوش کر سکتا ہے ؟
جسٹس ایم آر کیانی کے فیصلے بولتے رہے یہ وہ لوگ تھے ،یہ وہ منصف تھے جنہوں نے انصاف کا ترازو ہاتھ میں پکڑا تو انصاف کی حرمت پر آنچ نہ آنے دی ۔یہ لوگ اپنے وقت میں انصاف کی فصل بوتے رہے اور ان کا انصاف اس فصل کے گرد فصیل بنارہا ۔
انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر ان لوگوں نے کبھی انصاف کی دستار پر کالک نہ لگنے دی۔
وقت کی آنکھ نے یہ بھی دیکھا کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والوں نے اپنے فیصلے لکھتے وقت حاکم وقت کی خوشنودی کو مد ِ نظر رکھا۔ انصاف کے گلے پر چھری پھیرنے والوں نے اپنی عدالت میں حاکم وقت کے خلاف کسی بھی دائر رٹ پر فیصلہ دیتے وقت حاکم وقت کی منشا پر فیصلے صادر کئے ،اپنی نوکری پکی کرنے کیلئے وقت کے آمروں کی دہلیز پر یہ منصف ماتھا رگڑتے رہے اور اُن کے ہر غیر آئینی اقدام کو آئینی قرار دینے کیلئے اپنے فیصلوں کو نظریہ ضرورت کی پوشاک پہناتے رہے ۔
وطن عزیز کی سب سے بڑی عدالت میں بیٹھے منصفوں نے ایسے ایسے فیصلے صادر کئے کہ خود انصاف کی روح تک شرمساری کی دلدل میں دھنس گئی ،بھٹو جیسے فرد کو ایک آمر کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے عدالتی قتل کی سولی پر چڑھا دیا اور بعد میں اسی فیصلہ کو غلط کہا ۔کسی نے سجاد علی شاہ جیسے منصف کو ہٹانے کیلئے بریف کیس لیکر انصاف کے دیوتائوں کی خریدو فروخت میں کردار ادا کیا تو اُسے اس صلے میں ملک کی صدارت مل گئی ۔
اسی عدالت کے ایک منصف کو جب ایک آمر نے معزول کرکے پابند سلاسل کیا تو کروڑوں کی تعداد میں پاکستانی شاہراہوں پر نکل آئے، اُس کے استقبال میں اپنی آنکھیں فرش ِ راہ کیں اور اُس منصف کو دوبارہ انصاف کی کرسی پر بٹھانے کی خاطر ان لوگوں کی لاشیں گریں ،بارہ مئی 2007جیسے سانحے پیش آئے مگر جب جانگسل عوامی جدوجہد کے نتیجے میں یہ منصف انصاف کی کرسی پر متمکن ہوا تو اُسی عوام کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ ڈال کر ایک سیاسی جماعت کے اقتدار کی راہ ہموار کہ جس کی لاشیں اُس کی بحالی کیلئے گریں ۔مگر اُس روز کئی برس بعد مجھے کاظم علی ملک سر عبدالرشید ،اے آر کارنیلس ،ایم آر کیانی ،سجاد علی شاہ کی صف میں کھڑا نظر آیا جس نے این اے 122کا فیصلہ دیتے وقت انصاف کے چہرے سے اپنے پیش روئوں کے فیصلوں کی کالک کو کھرچ کر مٹانے کی کوشش کی ۔مجھے لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کے صفدر سلیم یاد آئے جنہوں نے جاتے جاتے 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس کے 10 ملزمان کی ضمانت بعد از گرفتاری کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے لکھا کہ ”نو مئی کو جی ایچ کیو حملے میں نہ کوئی زخمی ہوا نہ کوئی آرمی آفیسر مدعی بنا۔ جی ایچ کیو کے اندر اور باہر سی سی ٹی وی کیمرے کو قبضے میں نہیں لیا گیا، شناخت پریڈ کے دوران فوج کے کسی ملازم کو شامل نہیں کیا گیا نہ کوئی گواہ ہے، جی ایچ کیو مقدمے میں کسی خاتون کو نامزد نہیں کیا گیا۔ موقع پر موجود پولیس افسران نے مظاہرین کو جی ایچ کیو کے اندر جانے سے نہیں روکا، بادی النظر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کا اطلاق نہیں پایا جاتا، ملزمان کے خلاف مقدمہ مزید تحقیقات کا محتاج نہیں جیل میں رکھنے کا جواز نہیں”۔
جسٹس ایم آر کیانی نے کہا تھا کہ مجھے انتہائی ذمہ دار ایک شخص نے ایک روز انتہائی راز دارانہ لہجے میں کہا !”انگریز جب یہاں سے گیا تو دو انتہائی اہم چیزیں کانفیڈینشل بکس میں ڈال کر اپنے ہمراہ لے گیا ”
میں نے پوچھا کونسی ؟
کہنے گا !
قانون کا احترام اور خوف خدا
جسٹس کیانی لکھتے ہیں میں نے جب اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھا تو اِسے اِن دونوں چیزوں سے عاری پایا ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ معاشرے ظلم کے ساتھ تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن ناانصافی کے ساتھ نہیں ۔