... loading ...
جاوید محمود
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری 2017کو ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت سات مسلم اکثریتی ممالک ایران ،عراق، لیبیا ،سوڈان، شام اور یمن سے 90 دنوں کے لیے امریکہ کے سفر پر پابندی لگا دی گئی اور تمام شامی باشندوں کی آباد کاری کو معطل کر دیا۔ اس حکم نے ملک بھر میں ہوائی اڈوں پر احتجاج کو جنم دیا۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ سب سے بڑی سیاسی غلطی قرار دی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنی دوسری ٹرم میں صدر جو بائیڈن کے مقابلے میں ہار گئے۔ امریکہ میں مسلم آبادی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کو نا پسندیدہ قرار دیاتھا جس میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 دسمبر 2017کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کیا اور کہا کہ امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کیا جائے ۔اس فیصلے نے مسلمانوں کو بہت رنجیدہ کیا ۔ایک یہ بھی وجہ تھی جس کی وجہ سے مسلمانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسرے انتخابی مقابلے میں ووٹ نہیں دیے اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
جوبائیڈن نے انتخابات جیتنے کے بعد جب اپنے منصوبوں کا اعلان کیا تو اس میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ امیگریشن میں وہ تبدیلیاں جو ڈونلڈ ٹرمپ کر گئے ہیں اس کو منسوخ کر کے اس کو اپنی اصل شکل میں واپس لائیں گے۔ ان کے اعلان کے بعد امریکہ میں آباد مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔حماس کی جانب سے سات اکتوبر کے حملوں کے بعد صدر جو بائیڈن نے ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل کا دورہ کیا اور وہاں اعلان کیا کہ اسرائیل کو اپنی دفاع کا پورا حق حاصل ہے جس کے نتیجے میں اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس نے جارحانہ اقدامات کرتے ہوئے غزہ کو کھنڈر میں بدل کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں 32 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید جس میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہے، واضح رہے کہ غزہ میں جس ظلم اور بربریت کا مظاہرہ کیا گیا، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ پانچ ماہ بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ نے جس سرد مہری کا مظاہرہ کیا اس کی ذمہ داری ان پر جاتی ہے۔ بآلاخر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرتے ہوئے یرغمالیوں کی فوری غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ نے اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ سلامتی کونسل کے 15 میں سے 14 نے قرارداد کی حمایت کی ۔ موجودہ صورتحال میں جو بائیڈین نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نومبر میں ہونے والے انتخابات میں جو بائیڈن مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے سلامتی کونسل کی قرارداد کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اسرائیل کی حمایت کرنے کے نتیجے میں جو بائیڈن کا گراف انتہائی نچلے درجے پر پہنچ چکا ہے۔ جولائی2022 میں جو بائیڈن نے سعودی عرب کا دورہ کیا صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کے اپنے دورے سے قبل معروف اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لیے ایک خاص مضمون میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ وہ تیل کی دولت سے مالا مال مملکت کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جو بائیڈن نے اپنے اس مضمون میں لکھا مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جو میرے سعودی عرب کے اس سفر کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں تاہم انسانی حقوق کے بارے میں میرے خیالات واضح اور دیرینہ ہیں اور جب بھی میں بیرون ملک سفر کرتا ہوں تو بنیادی آزادی ہمیشہ ایجنڈے میں شامل ہوتی ہے۔ امریکی صدر نے اپنے دورے کی یہ دلیل پیش کی کہ ان کی خارجہ پالیسی نے مشرقی وسطیٰ کو ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کے حالات کے مقابلے میں زیادہ مستحکم اور محفوظ بنایا ہے جبکہ جو بائیڈن کا یہ دعوی حقائق پر مبنی نہیں کیونکہ حالات بالکل اس کے برعکس ہیں ۔
یاد رہے کہ صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کو خبردار کیا تھا کہ تیل کی پیداوار میں کمی اوپیک پلس کے فیصلے کے بُرے نتائج ہوں گے۔ بڑے ممالک کی نمائندہ تنظیم اوپی پلس نے اعلان کیا تھا کہ وہ تیل کی پیداوار میں دو ملین بیرل کمی کریں گے۔ امریکہ نے تیل کی پیداوار میں کمی نہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن سعودی عرب سمیت اوپیک پلس ممالک نے امریکہ کی منشا کے خلاف فیصلہ کیا تھا۔ اوپیک پلس تیل برآمد کرنے والے 23 ممالک کا ایک گروپ ہے یہ گروپ مل کر فیصلہ کرتا ہے کہ تیل کی کتنی پیداوار کرنی ہے اور عالمی منڈی میں کتنا تیل بیچنا ہے۔ اوپیک کا قیام 1960 میں ہوا تھا۔ دنیا کا تقریبا 30 فیصد خام تیل اوپیک ممالک سے آتا ہے سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا تیل کی پیداوار کرنے والا ملک ہے جو روزانہ 10 ملین بیرل تیل کی پیداوار کرتا ہے، جب 2016 میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی تھی تو اوپیک نے تیل پیدا کرنے والے 10 ممالک کو اس گروپ میں شامل کیا اور اوپیک پلس گروپ تشکیل دیا تھا۔ اس وقت روس بھی او پیک پلس کا حصہ بن گیا تھا۔ روس بھی روزانہ 10 ملین بیرل تیل پیدا کرتا ہے ۔اس گروپ میں 13 ممالک بہت اہم ہیں جن میں زیادہ تر مشرقی وسطیٰ اور افریقی ممالک ہیں۔ اوپیک پلس مل کر دنیا کا 40 فیصد خام تیل پیدا کرتے ہیں ۔تیل پیدا کرنے والے ممالک کے اس فیصلے کے بعد امریکی صدر جو بائڈن نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس فیصلے کے سعودی عرب پر کچھ اثرات مرتب ہوں گے۔ بائیڈن کو سینٹ کے ارکان نے کہا تھا کہ امریکہ کو سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے۔ امریکہ اوپیک ممالک کے تیل کی پیداوار میں کمی کا تعلق روس سے جوڑتا ہے جبکہ سعودی وزارت خارجہ نے ایک طویل بیان جاری کرتے ہوئے اوپیک پلس کے تیل کی پیداوار کم کرنے کے فیصلے پر روسی حمایت اور امریکہ کے خلاف سیاست کرنے کی امریکی الزامات کو مسترد کیا۔ وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری نے کہا تھا کہ یہ واضح ہے کہ اوپیک پلس روس کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ بعد میں وضاحت کریں گے کہ اس سے امریکہ سعودی عرب تعلقات پر کیا اثر پڑے گا ؟تجزیہ نگاروں کے مطابق اوپیک پلس کے فیصلے سے امریکہ کو دُہرا نقصان پہنچا ہے اگر روس اس سے کچھ منافع کماتا ہے تو وہ اس رقم کو یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں استعمال کرے گا۔ دوسری جانب امریکہ نے کہا تیل کی قیمت بڑھنے کی صورت میں اس کا براہ راست اثر نومبر کے ہونے والے انتخابات پر پڑے گا۔
بظاہر سعودی عرب کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ امریکہ کے دائرہ اثر سے باہر آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے اشارے سال 2006 میں ہی ملے تھے۔ جب سعودی عرب اس وقت کے حکمران شاہ عبداللہ نے انڈیا اور پھر چین کا دورہ کیا تھا ۔تجزیہ نگاروں کے مطابق سعودی عرب کو یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کو یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ امریکہ آہستہ آہستہ مشرقی وسطیٰ سے پیچھے ہٹ رہا ہے اور اس کی پوری توجہ ایشیا پیسیفک پر ہے۔ سعودی عرب کو لگتا ہے کہ اوپیک پلس کہ اس فیصلے سے اس کی معاشی حالت بہتر ہوگی اور اس کا براہ راست تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔ اس کے پیش نظر سعودی عرب اپنے روایتی حریف اسرائیل اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سعودی عرب کے اس فیصلے پر امریکہ ناراض ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے غصے کا سامنا کرنے کی ہمت کہاں سے اکٹھا کر رہا ہے؟ اصل میں امریکہ اب اتنا طاقتور نہیں رہا جتنا پہلے تھا 15 برس پہلے جب امریکی صدر صرف فون کرتا تو سعودی عرب وہی کرتا تھا جو امریکہ چاہتا تھا۔ اب یہودی لابی سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات اب بہتر ہو رہے ہیں۔ اگر امریکہ نے سعودی عرب پر کسی قسم کی پابندیاں لگانے کی کوشش کی تو اسرائیل اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ سعودی عرب اسرائیلی کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تیزی سے کام کر رہا ہے۔
امریکہ میں اسرائیل کے مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے سعودی عرب کی اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت سے مسلم ممالک میں غم و حصہ پایا جاتا ہے ۔بالخصوص موجودہ صورتحال میں اسرائیل نے جو غزہ میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کر کے فلسطینیوں کو بے دردی سے شہید کیا جس پر سعودی عرب نے خاموشی اپنائی ۔یہ وہ دُہری پالیسی ہے جو سعودی عرب نے اپنے مفادات کی خاطر اپنائی ہوئی ہے۔ نومبر میں امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات مسلمانوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ ووٹ کس صدارتی امیدوار کو دیں؟ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مظاہرہ کر کے انہیں مایوس کیا تھا جبکہ صدر جو بائیڈن نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران پانچ ماہ تک اسرائیل کی بربریت کا مظاہرہ دیکھتے ہوئے خاموشی اختیار کی جس کے نتیجے میں 32 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید جس میں عورتیں اور بچوں کی اکثریت ہے اور 75 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے۔ صدر جو بائیڈن نے اس پانچ ماہ کے دوران یہ ثابت کر دکھایا کہ ان کی تمام ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ہیں جبکہ فلسطینی جانوں کی اہمیت ان کے سامنے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ان حالات میں امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی اکثریت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنا قیمتی ووٹ کسی صدارتی امیدوار کو نہیں دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔