وجود

... loading ...

وجود

لیکن کردار؟

جمعرات 28 مارچ 2024 لیکن کردار؟

زریں اختر

صادقہ صلاح الدین صاحبہ کو ایک اُردو کانفرنس میں سنا۔اُردو کانفرنس بھی اب اپنی مدت کے اعتبار سے سولہ سالہ تاریخ رکھتی ہے لیکن اثرات کے حوالے سے یہ اب ایک تحقیق طلب موضوع ہے،میرے ذہن میں بھی ہے اور اگر کوئی اور ابتدا کردے تو سو بسم اللہ ۔ اس اجلاس کا موضوع تھا ”تعلیم ”اس میں زبیدہ مصطفی صاحبہ بھی تھیں ۔اس اجلاس میں صادقہ صلاح الدین صاحبہ نے ایک واقعہ سنایا جو ایک آہ کے ساتھ جیسے دل پر نقش ہوگیا۔یہ واقعہ کلاس میں جس موقع پر موضوع کی مناسبت سے ذہن میں آیا وہاں سنایا بھی (یہ اردو کانفرنس کے اثرات میں سے اثر کی صرف ایک نوعیت ہے) ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ صادقہ صاحبہ اور ان کی ٹیم یا ادارے نے کسی گائوں میں بچیوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔میں یہ واقعہ اپنے لفظوں میں بیان کررہی ہوں تومیرا تبصرہ بھی ساتھ ساتھ شامل ہورہا ہے ۔صنفی برابری کی باتیں اب ایسے سمجھ میں آتی ہیں جیسے ان کو سمجھنا بہت آسان ہے ،یہ تو بہت سادہ سی باتیں ہیں ،ان کو سمجھنے میں دقّت کہاںہے؟ سو ابتدائی تعلیم کے ساتھ مرد وعورت ، لڑکا لڑکی اور بیٹے بیٹی کے برابر ہونے کا شعور بھی اس تعلیمی سلسلے کے ساتھ لاشعوری طور پر ہوگیا۔ لاشعوری طور پر اس لیے لکھ رہی ہوں کیوں کہ صادقہ صاحبہ نے اپنے آپ کو ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا کیا ،خود احتسابی کے عمل سے گزارا ،اپنے سامنے یہ سوا ل رکھا کہ کہیں ہم اس واقعے کے ذمہ دار تو نہیں؟یہ وہ رویہ ہے جو اس معاشرے میںناپید ہے اور اس لیے نایاب ہے۔ یہ وہ ذمہ دار ی ہے جس سے ہمارے ہاں ہر ذمہ دار پہلو تہی کرتاہے ، بھاگتاہے ، مان کر ہی نہیں دیتااوربڑی آسانی ، ڈھٹائی اور بے حسی سے دامن جھاڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے ، لیکن میڈم صادقہ کو جب اس واقعے کاعلم ہوا تو انہوں نے خودسے سوال کیاکہ کہیں ہم بھی اس کے ذمہ دار تو نہیں ؟ اور میڈم نے اعتراف کیا کہ ہاں ،ہماری سمجھ میں آیا کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے ۔
ہوا یہ کہ ایک گائوں میں بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا ،اس سلسلے کا اپنا قاعدہ تھا کہ ہفتے میں اتنے دن پڑھائی ہو گی۔تھوڑے عرصے بعدمحسوس کیاگیا کہ ایک بچی آتی تھی جو اب نہیں آرہی ۔ معلوم کرنے پر پتا یہ چلا کہ اس بچی نے کھیتوں میں ڈالی جانے والی کیڑے مار دوا پی کر خود کشی کرلی ،کیوں ؟مزید تحقیق کی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ گائوں کے ہر گھر کی طرح اندر باہر کے سب کام ماں باپ اور بہن بھائی مل کرکرتے تھے لیکن کھانے میں باپ اور بھائی کو روٹی کے ساتھ سالن ملتاتھا اور ماں بیٹی نمک والی روٹی پانی میں مرچیں ملا کے کھاتے تھے ۔ اب بیٹی نے احتجاج کیاکہ وہ یہ نہیں کھائے گی ،اسے بھی کھانے میںوہی ملنا چاہیے جو اس کے بھائی کو ملتاہے ( ماں نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں ہوگا کہ جو اس کا شوہر اور بیٹا کھاتاہے وہی اس کا او راس کی بیٹی کا حق ہے)،یہ مطالبہ اور احتجاج کی ہمت بھی اسے ابھی اپنی ماں کے سامنے ہی ہوئی باپ یا بھائی کے سامنے نہیں ۔ماں نے غصے میں آکر کہہ دیا کہ جا یہ کھانا ہے کھا ورنہ وہ دوا پڑی ہے پی لے ،بیٹی نے وہ دوا پی لی ۔ میں قاصرہوں یہاں کہ اپنے حلق میں اٹکنے والے آنسوئوں کو کیسے لکھوں۔
صادقہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ جب ہمیں اس بچی کی خود کشی کا پتا چلا تو ہم نے سوچا کہ اس میں کہیں ہمارا قصور تو نہیں؟ ہم سے کوئی خطا نہیں ہوگئی؟ او ر پھر جواب ملا کہ ہاں ، ہم سے غلطی ہوئی ہے ۔ گائوں کے حالات ، سالہا سال سے چلنے والاقدامت پرست امتیازی نظام ، اس میں اگر حقوق کی برابری کی بات ان کچے ذہنوں سے کی جائے گی تو پتانہیں کہ اس کو اظہار کی کیاکیا صورتیں ملیں ،اورجو جواب ملے اس کا سامنا کرنے کی ابھی ان کی عمر اور ذہنی صلاحیت ہے بھی یا نہیں ۔صادقہ صاحبہ نے مزید کہا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے اس نظام میں تبدیلی ۔۔۔ ہمیں ابھی بس خود کو تعلیم تک محدود رکھنا چاہئے ،کوئی ایسی بات جو ان کے شعور سے پرے ہے، اسے چھیڑنا ایسے واقعات کا پیش خیمہ ہوسکتاہے جیسا کہ یہ ہوا۔ تعلیم اپنی راہ خود ہی بنائے گی ۔یہ ایک دل خراش واقعہ تھا ،جس کے بعد ایسے علاقوں میں تعلیمی ماحول کیسا رکھاجائے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو ،اس کے مطابق کیاگیا۔
اس اجلاس میں زبیدہ مصطفی صاحبہ نے جنہوں نے تعلیم کے موضوع پر مستقل لکھا اور اب بھی لکھ رہی ہیں کہاتھاکہ ”ہمیں لگتاتھاکہ تعلیم کے کسی ایک مسئلے پر بات کرو یا سمجھو تو اس کی ساتھ کئی مسئلے سامنے آتے ہیں ،جیسے اس مسئلے کی کئی پرتیں ہیں ،ایک پرت اتارتے ہیں تو دوسری پرت سامنے آتی ہے جب اس کو اتارتے ہیں ۔۔۔تعلیم کے ایک مسئلے کے ساتھ کئی مسئلے جڑے ہیں۔
مجھے آج ہی یہ سب کچھ کیوں یاد آیا؟ جب میں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ آج کس موضوع پرلکھنا ہے ۔ تو موضوع ہے :”جامعات”۔ جامعات میں جو معاملات او ر مسائل ہیں وہ بھی اسی طرح تہہ دار اور پرت در پرت ہیں لیکن جب تجزیہ کرنا شروع کیا جائے تو پرتیں کھلنے لگتی ہیں اور ہم اس کی تہہ داریوں میں اترنے لگتے ہیں۔ اب پھر میرے سامنے ایک سوال ہے کہ میں خود جو اس نظا م کا حصہ ہوں ،اپنے آپ کو ایک طرف رکھ کر معروضی انداز اختیارکروں یا شامل کرکے موضوعی ؟ میں اس امر پہ شکر ادا کرتی ہوں اور مجھے خوشی اور اطمینا ن ہے کہ میں خود تنقیدی اور خود احتسابی کا وہ پیمانہ رکھتی ہوں جس کا بیان صادقہ صلاح الدین صاحبہ نے کیا۔زندگی کے وہ لمحات بہت اہم اور کڑے ہوتے ہیں جو آئندہ زندگی کا رُخ متعین کردیتے ہیں اور اس میں افراد بن جاتے ہیں ، ترقی مل جاتی ہے ، عہدے مل جاتے ہیںلیکن کردار؟


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر