... loading ...
زریں اختر
صادقہ صلاح الدین صاحبہ کو ایک اُردو کانفرنس میں سنا۔اُردو کانفرنس بھی اب اپنی مدت کے اعتبار سے سولہ سالہ تاریخ رکھتی ہے لیکن اثرات کے حوالے سے یہ اب ایک تحقیق طلب موضوع ہے،میرے ذہن میں بھی ہے اور اگر کوئی اور ابتدا کردے تو سو بسم اللہ ۔ اس اجلاس کا موضوع تھا ”تعلیم ”اس میں زبیدہ مصطفی صاحبہ بھی تھیں ۔اس اجلاس میں صادقہ صلاح الدین صاحبہ نے ایک واقعہ سنایا جو ایک آہ کے ساتھ جیسے دل پر نقش ہوگیا۔یہ واقعہ کلاس میں جس موقع پر موضوع کی مناسبت سے ذہن میں آیا وہاں سنایا بھی (یہ اردو کانفرنس کے اثرات میں سے اثر کی صرف ایک نوعیت ہے) ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ صادقہ صاحبہ اور ان کی ٹیم یا ادارے نے کسی گائوں میں بچیوں کو تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔میں یہ واقعہ اپنے لفظوں میں بیان کررہی ہوں تومیرا تبصرہ بھی ساتھ ساتھ شامل ہورہا ہے ۔صنفی برابری کی باتیں اب ایسے سمجھ میں آتی ہیں جیسے ان کو سمجھنا بہت آسان ہے ،یہ تو بہت سادہ سی باتیں ہیں ،ان کو سمجھنے میں دقّت کہاںہے؟ سو ابتدائی تعلیم کے ساتھ مرد وعورت ، لڑکا لڑکی اور بیٹے بیٹی کے برابر ہونے کا شعور بھی اس تعلیمی سلسلے کے ساتھ لاشعوری طور پر ہوگیا۔ لاشعوری طور پر اس لیے لکھ رہی ہوں کیوں کہ صادقہ صاحبہ نے اپنے آپ کو ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا کیا ،خود احتسابی کے عمل سے گزارا ،اپنے سامنے یہ سوا ل رکھا کہ کہیں ہم اس واقعے کے ذمہ دار تو نہیں؟یہ وہ رویہ ہے جو اس معاشرے میںناپید ہے اور اس لیے نایاب ہے۔ یہ وہ ذمہ دار ی ہے جس سے ہمارے ہاں ہر ذمہ دار پہلو تہی کرتاہے ، بھاگتاہے ، مان کر ہی نہیں دیتااوربڑی آسانی ، ڈھٹائی اور بے حسی سے دامن جھاڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے ، لیکن میڈم صادقہ کو جب اس واقعے کاعلم ہوا تو انہوں نے خودسے سوال کیاکہ کہیں ہم بھی اس کے ذمہ دار تو نہیں ؟ اور میڈم نے اعتراف کیا کہ ہاں ،ہماری سمجھ میں آیا کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے ۔
ہوا یہ کہ ایک گائوں میں بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا ،اس سلسلے کا اپنا قاعدہ تھا کہ ہفتے میں اتنے دن پڑھائی ہو گی۔تھوڑے عرصے بعدمحسوس کیاگیا کہ ایک بچی آتی تھی جو اب نہیں آرہی ۔ معلوم کرنے پر پتا یہ چلا کہ اس بچی نے کھیتوں میں ڈالی جانے والی کیڑے مار دوا پی کر خود کشی کرلی ،کیوں ؟مزید تحقیق کی تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ گائوں کے ہر گھر کی طرح اندر باہر کے سب کام ماں باپ اور بہن بھائی مل کرکرتے تھے لیکن کھانے میں باپ اور بھائی کو روٹی کے ساتھ سالن ملتاتھا اور ماں بیٹی نمک والی روٹی پانی میں مرچیں ملا کے کھاتے تھے ۔ اب بیٹی نے احتجاج کیاکہ وہ یہ نہیں کھائے گی ،اسے بھی کھانے میںوہی ملنا چاہیے جو اس کے بھائی کو ملتاہے ( ماں نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں ہوگا کہ جو اس کا شوہر اور بیٹا کھاتاہے وہی اس کا او راس کی بیٹی کا حق ہے)،یہ مطالبہ اور احتجاج کی ہمت بھی اسے ابھی اپنی ماں کے سامنے ہی ہوئی باپ یا بھائی کے سامنے نہیں ۔ماں نے غصے میں آکر کہہ دیا کہ جا یہ کھانا ہے کھا ورنہ وہ دوا پڑی ہے پی لے ،بیٹی نے وہ دوا پی لی ۔ میں قاصرہوں یہاں کہ اپنے حلق میں اٹکنے والے آنسوئوں کو کیسے لکھوں۔
صادقہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ جب ہمیں اس بچی کی خود کشی کا پتا چلا تو ہم نے سوچا کہ اس میں کہیں ہمارا قصور تو نہیں؟ ہم سے کوئی خطا نہیں ہوگئی؟ او ر پھر جواب ملا کہ ہاں ، ہم سے غلطی ہوئی ہے ۔ گائوں کے حالات ، سالہا سال سے چلنے والاقدامت پرست امتیازی نظام ، اس میں اگر حقوق کی برابری کی بات ان کچے ذہنوں سے کی جائے گی تو پتانہیں کہ اس کو اظہار کی کیاکیا صورتیں ملیں ،اورجو جواب ملے اس کا سامنا کرنے کی ابھی ان کی عمر اور ذہنی صلاحیت ہے بھی یا نہیں ۔صادقہ صاحبہ نے مزید کہا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے اس نظام میں تبدیلی ۔۔۔ ہمیں ابھی بس خود کو تعلیم تک محدود رکھنا چاہئے ،کوئی ایسی بات جو ان کے شعور سے پرے ہے، اسے چھیڑنا ایسے واقعات کا پیش خیمہ ہوسکتاہے جیسا کہ یہ ہوا۔ تعلیم اپنی راہ خود ہی بنائے گی ۔یہ ایک دل خراش واقعہ تھا ،جس کے بعد ایسے علاقوں میں تعلیمی ماحول کیسا رکھاجائے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو ،اس کے مطابق کیاگیا۔
اس اجلاس میں زبیدہ مصطفی صاحبہ نے جنہوں نے تعلیم کے موضوع پر مستقل لکھا اور اب بھی لکھ رہی ہیں کہاتھاکہ ”ہمیں لگتاتھاکہ تعلیم کے کسی ایک مسئلے پر بات کرو یا سمجھو تو اس کی ساتھ کئی مسئلے سامنے آتے ہیں ،جیسے اس مسئلے کی کئی پرتیں ہیں ،ایک پرت اتارتے ہیں تو دوسری پرت سامنے آتی ہے جب اس کو اتارتے ہیں ۔۔۔تعلیم کے ایک مسئلے کے ساتھ کئی مسئلے جڑے ہیں۔
مجھے آج ہی یہ سب کچھ کیوں یاد آیا؟ جب میں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ آج کس موضوع پرلکھنا ہے ۔ تو موضوع ہے :”جامعات”۔ جامعات میں جو معاملات او ر مسائل ہیں وہ بھی اسی طرح تہہ دار اور پرت در پرت ہیں لیکن جب تجزیہ کرنا شروع کیا جائے تو پرتیں کھلنے لگتی ہیں اور ہم اس کی تہہ داریوں میں اترنے لگتے ہیں۔ اب پھر میرے سامنے ایک سوال ہے کہ میں خود جو اس نظا م کا حصہ ہوں ،اپنے آپ کو ایک طرف رکھ کر معروضی انداز اختیارکروں یا شامل کرکے موضوعی ؟ میں اس امر پہ شکر ادا کرتی ہوں اور مجھے خوشی اور اطمینا ن ہے کہ میں خود تنقیدی اور خود احتسابی کا وہ پیمانہ رکھتی ہوں جس کا بیان صادقہ صلاح الدین صاحبہ نے کیا۔زندگی کے وہ لمحات بہت اہم اور کڑے ہوتے ہیں جو آئندہ زندگی کا رُخ متعین کردیتے ہیں اور اس میں افراد بن جاتے ہیں ، ترقی مل جاتی ہے ، عہدے مل جاتے ہیںلیکن کردار؟