وجود

... loading ...

وجود

فلسطینی موت سے ایک قدم کے فاصلے پر

منگل 26 مارچ 2024 فلسطینی موت سے ایک قدم کے فاصلے پر

جاوید محمود

آخر دنیا یہ تماشہ کیوں دیکھ رہی ہے اور عالمی برادری بے بسی کی تصویر کیوں بنی ہوئی ہے اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل سپرپاور بن گیا ہے؟ غزہ میں لاکھوں لوگ خوراک تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور قحط کے دہانے پر ہیں ۔غزہ کے 20 لاکھ شہری شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان میں جاری تنازع بھی دنیا میں سب سے بڑے بھوک کے بحران کو جنم دے سکتا ہے ۔آخر قحط کی بنیاد کیسے پڑتی ہے؟ قحط اس وقت پڑتا ہے جب کسی ملک میں خوراک کی اتنی شدید قلت ہو جائے کہ اس کی آبادی کو شدید غذائی قلت ،فاقہ کشی یا بھوک کی وجہ سے موت کا سامنا کرنا پڑے۔
کسی علاقے یا ملک کے قحط سے متاثر ہونے کا اعلان عام طور پر اقوام متحدہ کرتی ہے اور بعض اوقات اس کا فیصلہ متاثرہ ملک کی حکومت اور اکثر دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں یا انسانی ہمدردی کے اداروں کے ساتھ مل کر کیا جاتا ہے۔ کسی علاقے میں قحط پڑنے کا فیصلہ انٹری گریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیر کلاسیفیکیشن نامی اقوام متحدہ کے پیمانے کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ اس پیمانے کے تحت کسی ملک میں خوراک کی قلت یا غذائی عدم تحفظ کی شدت کی درجہ بندی پانچ مراحل میں کی جاتی ہے اور قحط پانچواں اور شدید ترین درجہ ہے ۔لیکن سرکاری طور پر قحط کا اعلان کرنے کے لیے ایک مخصوص علاقے میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے ۔اول یہ کہ کم از کم 20 فیصد گھرانوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہو ۔دوم یہ کہ کم سے کم 30 فیصد بچے شدید غذائے قلت کا شکار ہوں اور تیسرا یہ کہ 10 ہزار کی آبادی میں روزانہ دو بالغ یا چار بچے بھوک سے ہلاک ہوں۔ سوڈان میں تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو خوراک کے معاملے میں شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق شمالی غزہ میں مارچ سے مئی 2024 کے درمیان قحط کبھی بھی پڑ سکتا ہے اس کی وجہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد غزہ پر اسرائیل کی فوج کشی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہے ۔ آئی پی سی کی درجہ بندی کے مطابق غزہ کی نصف آبادی یعنی تقریبا 11 لاکھ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور بدترین صورتحال ہوئی تو غذا کی پوری آبادی جولائی 2024 تک قحط کا شکار ہو جائے گی جب کہ اقوام متحدہ کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان میں جاری تنازع ملک کے لیے حالیہ تاریخ کے بدترین ڈراؤنے خوابوں میں سے ایک ہے جو دنیا میں بھوک کے سب سے بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے ۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اپریل 2023 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں سوڈان میں تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو خوراک کے معاملے میں شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ یو این ایس ایف کا کہنا ہے کہ اس نے چھوٹے بچوں میں غذائی قلت کو بدترین اندازوں سے بھی زیادہ دیکھا ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ بچوں میں ہیضہ خسرہ اور ملیریا بھی پھیل رہے ہیں۔ بھوک قتل اور ریپ سوڈان میں جاری پوشیدہ جنگ میں صحافیوں نے دیکھا ہے ۔انسانی حقوق کی تنظیم ایکشن ایگنسٹیٹ ہینگر کا کہنا ہے کہ اہم طور پر جب کسی ملک کو غذائی قلت کے حوالے سے تیسرا یا اس سے اوپر کا درجہ دیا جاتا ہے تو بہت سی ایجنسیاں بحران سے بچنے کے لیے قحط کا اعلان ہونے سے پہلے منصوبہ بندی کرنا اور امداد پہنچانا شروع کر دیتی ہیں۔ایک امریکی صحافی خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے پر یہ اعتراف کیا ہے کہ جماعت اسلامی کی تنظیم الخدمت نے غزہ میں بنیادی اشیا کو پہنچانے میں اہم رول ادا کیا ہے اور بڑے منظم طریقے سے کام کر رہی ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ اس کی بھرپور کوشش ہے کہ فلسطین میں ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے حالات پیدا کر دیے جائیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایتھوپیا میں 1984 کے قحط کے دوران 10 لاکھ لوگ بھوک سے مرگئے تھے ۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ جلد بند نہ ہوئی تو غزہ کی پٹی میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارے کے انسانی ہمدردی کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ جنگ کو روکنے کے لیے اگر کچھ نہیں کیا گیا تو خدشہ ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط یقینی ہوگا ۔پانچ ماہ سے جاری جنگ میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 32 ہزار سے زائد لوگ شہید اور 72 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ خیال رہے کہ عالمی سطح پر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جنگ میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ غزہ میں آبادی کا 25 فیصد یعنی تقریبا پانچ لاکھ 76 ہزار افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔یہ ایتھوپیا نہیں فلسطین ہے ۔عرب دنیا ہی نہیں پوری مسلم دنیا کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا اہم حوالہ بھی اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی سرزمین بھی۔ مگر اس کے علاقے غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں بے گھر ہو چکے فلسطینی بالعموم اور ان کے بچے بالخصوص آج اس قدر قحط زدہ اور بھوک کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ انہیں گھوڑے کا گوشت سمیت نہ جانے کیا کیا کھانا پڑ رہا ہے۔ اردن، مصر، شام سے قریب تر اور سعودی عرب اور عراق سے بھی زیادہ دور نہیں مگر ایک طرف انواع اقسام کی نعمتوں کی ایک دنیا آباد ہے اور دوسری جانب فلسطینی عرب بچے آج بھوک پیاس اور جسم پر پہننے کے کپڑے ان کی چھت اور گھر کے در و دیوار سے محروم ہیں ۔گویا نہ چادر ہے نہ چار دیواری۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ کے شمالی علاقے میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بچنے کے لیے ایک بے گھر فلسطینی نے اپنے بچوں کی جان بچانے کے لیے دو گھوڑوں کو ذبح کیا ہے تاکہ وہ کچھ اور نہ ملنے کے باعث گھوڑوں کا گوشت کھا کر ہی زندہ رہ سکیں۔ ابو جبرائیل نامی اس فلسطینی نے میڈیا کو بتایا میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ اپنے بھوک سے نڈھال بچوں کو خوراک دے سکتا۔ اس لیے میں نے اپنے گھوڑوں کو ذبح کر دیا۔ جمالیہ فلسطینی علاقے میں سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ تھا ۔اس کا ذکر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے مگر اب جب جبالیا میں جنگ کے بعد تباہی ہے، کھنڈر ہیں ملبہ ہے اور بھوکے ننگے پیاسے فلسطینی بچے ہیں۔ 60 سالہ ابو جبرائیل اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی کے بعد اپنے گھر سے نکل کر بیت جنون چلے گئے تھے جب یہ لڑائی شروع ہوئی مگر ابو جبرائیل اور ان کے اہل خانہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے ایک ا سکول میں لگائے گئے خیمے میں رہتے ہیں۔ زہریلا پانی بجلی کا مسلسل نہ ہونا اور بے گھروں کے گنجان آباد اس کیمپ میں رہتے ہوئے مشکلات جن کا انہیں سامنا ہے۔ کوئی اور اندازہ نہیں کر سکتا۔
اس کے برعکس المیہ یہ ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 1.3 بلین ٹن خوراک کا 50 فیصد ضائع کر دیتا ہے۔ ہر سال 40 بلین ریال 10.6 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ خوراک کے ضیاع کی شرح 33 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ کیا سعودی عرب کو احساس ہے کہ اس کی ناک کے نیچے فلسطینی قحط کے قریب پہنچ چکے ہیں اور لاکھوں فلسطینی موت کے منہ میں جانے کے ایک قدم کے فاصلے پر ہیں۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر