... loading ...
جاوید محمود
آخر دنیا یہ تماشہ کیوں دیکھ رہی ہے اور عالمی برادری بے بسی کی تصویر کیوں بنی ہوئی ہے اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل سپرپاور بن گیا ہے؟ غزہ میں لاکھوں لوگ خوراک تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور قحط کے دہانے پر ہیں ۔غزہ کے 20 لاکھ شہری شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان میں جاری تنازع بھی دنیا میں سب سے بڑے بھوک کے بحران کو جنم دے سکتا ہے ۔آخر قحط کی بنیاد کیسے پڑتی ہے؟ قحط اس وقت پڑتا ہے جب کسی ملک میں خوراک کی اتنی شدید قلت ہو جائے کہ اس کی آبادی کو شدید غذائی قلت ،فاقہ کشی یا بھوک کی وجہ سے موت کا سامنا کرنا پڑے۔
کسی علاقے یا ملک کے قحط سے متاثر ہونے کا اعلان عام طور پر اقوام متحدہ کرتی ہے اور بعض اوقات اس کا فیصلہ متاثرہ ملک کی حکومت اور اکثر دیگر بین الاقوامی امدادی تنظیموں یا انسانی ہمدردی کے اداروں کے ساتھ مل کر کیا جاتا ہے۔ کسی علاقے میں قحط پڑنے کا فیصلہ انٹری گریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیر کلاسیفیکیشن نامی اقوام متحدہ کے پیمانے کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ اس پیمانے کے تحت کسی ملک میں خوراک کی قلت یا غذائی عدم تحفظ کی شدت کی درجہ بندی پانچ مراحل میں کی جاتی ہے اور قحط پانچواں اور شدید ترین درجہ ہے ۔لیکن سرکاری طور پر قحط کا اعلان کرنے کے لیے ایک مخصوص علاقے میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے ۔اول یہ کہ کم از کم 20 فیصد گھرانوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہو ۔دوم یہ کہ کم سے کم 30 فیصد بچے شدید غذائے قلت کا شکار ہوں اور تیسرا یہ کہ 10 ہزار کی آبادی میں روزانہ دو بالغ یا چار بچے بھوک سے ہلاک ہوں۔ سوڈان میں تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو خوراک کے معاملے میں شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق شمالی غزہ میں مارچ سے مئی 2024 کے درمیان قحط کبھی بھی پڑ سکتا ہے اس کی وجہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد غزہ پر اسرائیل کی فوج کشی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہے ۔ آئی پی سی کی درجہ بندی کے مطابق غزہ کی نصف آبادی یعنی تقریبا 11 لاکھ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور بدترین صورتحال ہوئی تو غذا کی پوری آبادی جولائی 2024 تک قحط کا شکار ہو جائے گی جب کہ اقوام متحدہ کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان میں جاری تنازع ملک کے لیے حالیہ تاریخ کے بدترین ڈراؤنے خوابوں میں سے ایک ہے جو دنیا میں بھوک کے سب سے بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے ۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اپریل 2023 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں سوڈان میں تقریبا ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو خوراک کے معاملے میں شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ یو این ایس ایف کا کہنا ہے کہ اس نے چھوٹے بچوں میں غذائی قلت کو بدترین اندازوں سے بھی زیادہ دیکھا ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ بچوں میں ہیضہ خسرہ اور ملیریا بھی پھیل رہے ہیں۔ بھوک قتل اور ریپ سوڈان میں جاری پوشیدہ جنگ میں صحافیوں نے دیکھا ہے ۔انسانی حقوق کی تنظیم ایکشن ایگنسٹیٹ ہینگر کا کہنا ہے کہ اہم طور پر جب کسی ملک کو غذائی قلت کے حوالے سے تیسرا یا اس سے اوپر کا درجہ دیا جاتا ہے تو بہت سی ایجنسیاں بحران سے بچنے کے لیے قحط کا اعلان ہونے سے پہلے منصوبہ بندی کرنا اور امداد پہنچانا شروع کر دیتی ہیں۔ایک امریکی صحافی خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے پر یہ اعتراف کیا ہے کہ جماعت اسلامی کی تنظیم الخدمت نے غزہ میں بنیادی اشیا کو پہنچانے میں اہم رول ادا کیا ہے اور بڑے منظم طریقے سے کام کر رہی ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے ۔ اس کی بھرپور کوشش ہے کہ فلسطین میں ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے حالات پیدا کر دیے جائیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایتھوپیا میں 1984 کے قحط کے دوران 10 لاکھ لوگ بھوک سے مرگئے تھے ۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ جلد بند نہ ہوئی تو غزہ کی پٹی میں لوگوں کو بڑے پیمانے پر قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارے کے انسانی ہمدردی کے عہدے داروں نے کہا ہے کہ جنگ کو روکنے کے لیے اگر کچھ نہیں کیا گیا تو خدشہ ہے کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر قحط یقینی ہوگا ۔پانچ ماہ سے جاری جنگ میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 32 ہزار سے زائد لوگ شہید اور 72 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ خیال رہے کہ عالمی سطح پر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جنگ میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ غزہ میں آبادی کا 25 فیصد یعنی تقریبا پانچ لاکھ 76 ہزار افراد قحط کے دہانے پر ہیں۔یہ ایتھوپیا نہیں فلسطین ہے ۔عرب دنیا ہی نہیں پوری مسلم دنیا کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل اور اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا اہم حوالہ بھی اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی سرزمین بھی۔ مگر اس کے علاقے غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں بے گھر ہو چکے فلسطینی بالعموم اور ان کے بچے بالخصوص آج اس قدر قحط زدہ اور بھوک کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ انہیں گھوڑے کا گوشت سمیت نہ جانے کیا کیا کھانا پڑ رہا ہے۔ اردن، مصر، شام سے قریب تر اور سعودی عرب اور عراق سے بھی زیادہ دور نہیں مگر ایک طرف انواع اقسام کی نعمتوں کی ایک دنیا آباد ہے اور دوسری جانب فلسطینی عرب بچے آج بھوک پیاس اور جسم پر پہننے کے کپڑے ان کی چھت اور گھر کے در و دیوار سے محروم ہیں ۔گویا نہ چادر ہے نہ چار دیواری۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ کے شمالی علاقے میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بچنے کے لیے ایک بے گھر فلسطینی نے اپنے بچوں کی جان بچانے کے لیے دو گھوڑوں کو ذبح کیا ہے تاکہ وہ کچھ اور نہ ملنے کے باعث گھوڑوں کا گوشت کھا کر ہی زندہ رہ سکیں۔ ابو جبرائیل نامی اس فلسطینی نے میڈیا کو بتایا میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ اپنے بھوک سے نڈھال بچوں کو خوراک دے سکتا۔ اس لیے میں نے اپنے گھوڑوں کو ذبح کر دیا۔ جمالیہ فلسطینی علاقے میں سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ تھا ۔اس کا ذکر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے مگر اب جب جبالیا میں جنگ کے بعد تباہی ہے، کھنڈر ہیں ملبہ ہے اور بھوکے ننگے پیاسے فلسطینی بچے ہیں۔ 60 سالہ ابو جبرائیل اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی کے بعد اپنے گھر سے نکل کر بیت جنون چلے گئے تھے جب یہ لڑائی شروع ہوئی مگر ابو جبرائیل اور ان کے اہل خانہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے ایک ا سکول میں لگائے گئے خیمے میں رہتے ہیں۔ زہریلا پانی بجلی کا مسلسل نہ ہونا اور بے گھروں کے گنجان آباد اس کیمپ میں رہتے ہوئے مشکلات جن کا انہیں سامنا ہے۔ کوئی اور اندازہ نہیں کر سکتا۔
اس کے برعکس المیہ یہ ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق 1.3 بلین ٹن خوراک کا 50 فیصد ضائع کر دیتا ہے۔ ہر سال 40 بلین ریال 10.6 بلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ خوراک کے ضیاع کی شرح 33 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ کیا سعودی عرب کو احساس ہے کہ اس کی ناک کے نیچے فلسطینی قحط کے قریب پہنچ چکے ہیں اور لاکھوں فلسطینی موت کے منہ میں جانے کے ایک قدم کے فاصلے پر ہیں۔