وجود

... loading ...

وجود

ٹیکسز۔۔ٹیکسز اور ٹیکسز

منگل 26 مارچ 2024 ٹیکسز۔۔ٹیکسز اور ٹیکسز

ایم سرور صدیقی

لگتاہے پاکستانی شہریوں کے کٹھن دن پھر آنے والے ہیں کیونکہ ہر آنے والے لمحات کے ساتھ عوام پر نئے ٹیکسز لگانے کا تانا بانا بنا جارہاہے حکومت کا ایک ہی ایجنڈہ ہے ٹیکسز۔۔ ٹیکسز اور ٹیکسز اسی لئے ابتدائی طور پرفیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے ڈیلرز، ریٹیلرز، مینوفیکچرر، امپورٹر کم ری ٹیلرز کی لازمی رجسٹریشن اسکیم کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے ۔یکم اپریل سے ابتدائی طور پر 6بڑے شہروں میں رجسٹریشن کی جائے گی، عمل نہ کرنے والے کی نیشنل بزنس رجسٹری میں زبردستی رجسٹریشن کی جائے گی۔ ملک کے 6بڑے شہروں میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، کوئٹہ اور پشاور شامل ہیں۔ایف بی آر کی تاجر دوست ایپ کے ذریعے تاجروں اور دُکانداروں کا سینٹرل ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا، لازمی رجسٹریشن اسکیم پر اسٹیک ہولڈرز سے بھی رائے طلب کرلی گئی ۔تاجروں سے ٹیکس دُکان کی سالانہ رینٹل ویلیو کے حساب سے وصول کیا جائے گا، اسکیم کے تحت ہر دُکاندار کو سالانہ کم از کم 1200 روپے انکم ٹیکس دینا ہوگا، پہلی ٹیکس وصولی 15 جولائی سے ہوگی۔ہر ماہ کی مقررہ 15 تاریخ سے پہلے ٹیکس دینے کی صورت میں 25 فیصد رعایت ملے گی جبکہ حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے انتہائی دریا دلی سے اعلان کیاہے کہ 2023ء کا انکم ٹیکس گوشوارہ جمع کروانے والے تاجروں کو رعایت ملے گی۔ لازمی رجسٹریشن اسکیم کی زدمیں50 لاکھ چھوٹے بڑے دکاندار آنے والے ہیں۔ملک میں ٹیکس وصولی کے سلسلہ میں ہوشربافرق سامنے آیا ہے جس کا تخمینہ 58 کھرب روپے ہے جو کہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد بنتا ہے، اس میں صرف پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کا فرق تقریباً10 کھرب روپے ہے۔ یہ انکشاف وزیر اعظم شہباز شریف اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے اعلیٰ حکام کے سامنے پیش کردہ پریزنٹیشن میں کیا گیا۔ مالی سال 2022-23کے اعداد و شمار کی بنیاد پر سالانہ بنیادوں پر جمع کئے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان فرق جی ڈی پی کے تقریباً 6.9فیصد ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو 58 کھرب روپے کے برابر ہے۔ اسمگلنگ، ٹیکس چوری اور دیگر ذرائع سے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کا فرق سالانہ بنیادوں پر996 ارب روپے کے لگ بھگ رہنے کا تخمینہ ہے۔ ریٹیل سیکٹر کے ٹیکس فرق کا تخمینہ 888 ارب روپے، ٹرانسپورٹ سیکٹر کا562ارب روپے، انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز)498 ارب روپے، اسمگل شدہ اشیائ355 ارب روپے، برآمدات342 ارب روپے اور رئیل اسٹیٹ کا148 ارب روپے سالانہ بنیادوں پر لگایا گیا ہے۔ دیگر زمروں میںایف بی آرنے سالانہ بنیادوں پر آمدن کے فرق کا تخمینہ16 کھرب روپے لگایا ہے۔ سیلز ٹیکس میں ریونیو کا سب سے زیادہ فرق موجود ہے اور کچھ اندازے یہ بتاتے ہیں کہ یہ سالانہ بنیادوں پر29 کھرب روپے تک جا سکتا ہے۔ انڈر انوائسنگ اور اسمگلنگ سمیت سالانہ بنیادوں پر کسٹمز میں فرق کا تخمینہ تقریباً600 ارب روپے ہے۔ ایک اور اہم بات جس پر حکومتی ذرائع پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ٹیکسزکے اہداف میں ناکامی پر بجلی،گیس،رئیل سٹیٹ انڈسٹری اور پٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی کرنے لئے جو تجاویز دی جارہی ہیں۔ اس کو فی الحال چھپایا جارہاہے کیونکہ آئی ایم ایف نے اپنی تشخیصی رپورٹ میں تجزیہ کیا ہے کہ پالیسی کی سطح پر ٹیکس کا فرق بہت زیادہ نہیں اور یہ جی ڈی پی کے زیادہ سے زیادہ12.9فیصد تک جا سکتا ہے۔ پی ایم اور ایس آئی ایف سی کو دی گئی اس پریزنٹیشن میں یہ بھی تجزیہ کیا گیا ہے کہ ملک کی کل آمدنی اور اخراجات کے درمیان جمع کیے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان واضح فرق یہ ظاہر کرتا ہے کہ مجموعی قومی محصولات اور جی ڈی پی کے حساب سے اخراجات کے درمیان ایک واضح فرق ہے۔ وفاقی ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا9.1 فیصد رہا جبکہ وفاقی نان ٹیکس ریونیو جی ڈی پی کا1.2فیصد رہا۔ جی ڈی پی میں صوبائی ٹیکسوں کا حصہ جی ڈی پی کے 1فیصد کے قریب ہے۔ کل آمدنی جی ڈی پی کا11.4فیصد رہی۔ اخراجات کے محاذ پر وفاقی اخراجات جی ڈی پی کا تناسب12.9فیصد رہا جبکہ جی ڈی پی کے صوبائی اخراجات 6.1 فیصد کے قریب رہے، اس طرح جی ڈی پی کے کل اخراجات جی ڈی پی کے 19فیصد تک پہنچ گئے۔ ملک کی کل آمدنی اور اخراجات کے درمیان جی ڈی پی کا7.6 فیصد کا فرق ہے۔ جمع کئے جانے والے ٹیکس اور اصل ٹیکس کے درمیان فرق کے خلا کو اگر رساؤ کو ختم کر کے پورا کیا جائے تو سالانہ بنیادوں پر جی ڈی پی کے5.8فیصد تک قومی خزانے کو پْر کیا جا سکتا ہے۔ اس مالیاتی فرق کو مالیاتی خسارہ کہا جاتا ہے اور اس کی مالی اعانت ملکی اور بیرونی راستوں سے قرضے کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ماہر ین ِمعاشیات کا کہناکہ ملک قرضوں کے جال میں ڈوبا ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی شہریوںکا بال بال قرضوں میں جکڑا ہواہے۔ نازک مالیاتی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت فیڈرل پالیسی بورڈ، ٹیکس پالیسی آفس کی علیحدگی، جوائنٹ ویلیوایشن، کسٹمز اور ان لینڈ ریونیو کی علیحدگی، نادرا کے ساتھ تعاون پی آر اے ایل کی تنظیم نو، ڈیجیٹل انوائسنگ، ایس ڈبلیو اے پی ایس، تاجر دوست ریٹیلرز اسکیم، دستاویزی قانون اور جدید گورننس کا ڈھانچہ اور نگرانی بورڈ کے ذریعے ایف بی آر کی تنظیم نو کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اس ضمن میں ہماری تجویز یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوںکی ادائیگی کے لئے تمام اشرافیہ بیوروکریسی ، ارکان ِ اسمبلی ،وزیر و مشیروںسے یہ رقم وصول کی جائے عوام یر ٹیکسز کیوں لگائے جا رہے ہیں ۔عوام نے تو یہ قرض نہیں لیا وہ تو ہر چیز پر ٹیکسز پہلے ہی ادا کررہے ہیں ۔یہ تجویز طبع ِ نازک پر گراں گزری ہے تو حکومت کے لئے ہمارا مفت مشورہ یہ ہے کہ ٹیکسزکے اہداف پورے نہیں ہوتے تو لازمی رجسٹریشن اسکیم کے تحت ہر وہ شخص جس کا شناختی کارڈ بناہواہے اس پر فکس ٹیکس لگادیا جائے یقینا اس سے حکومتی اخراجات، وزیروں ،مشیروں اورپروٹوکول مافیا کیلئے آسانیاں پیداہوں گی اور احسن طریقے سے معاملات چلائے جاسکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر