... loading ...
زریں اختر
قارئین ِ کرام!کالم زیرِ عنوان ” اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر”کو ہفتہ وار سلسلے پر مبنی رکھتے ہیں۔یہ اتوار کو چھپا کرے گا (اگر اللہ نے چاہاتو)۔ اتوار کو لکھنے کی چھٹی کروں گی تو پیر کو ناغہ اور بقیہ دن کالم کا موضوع وہ جس پر لکھنے کے لیے لکھنا چاہاتھایعنی سماج ۔۔۔ بلکہ افراد۔۔۔ اصل میں فرد،اور وہ فرد جس کے بارے میں حکیم الامت کہلائے یا کہلوائے یا بنائے جانے والے شاعر (جس میں ان کی نیت اور ارادے کو ثابت نہیں کیا جاسکتا)نے کہاتھاکہ ‘ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارہ
جب ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے تو اتنی آسانی سے بجھاکیسے دیاجاتاہے؟ علامہ اقبال کو قومی شاعر کا درجہ و منصب عطا کرنے والے اس سوا ل کا جواب دیں کہ اگر ان کی شاعری کبھی آپ کا منشور بننی ہی نہیں تھی تو قوم کو کیوں اس گمان میں مبتلا رکھا ہوا ہے کہ تو ملت کے مقدر کا ستارہ ہے،چمک کہ تیری چمک ظلمت کی تاریکی میں وسیع شگاف ڈالنے کا سبب بنے گی ؛ کیوں کہ ہوتا الٹ ہے ، اس کی تو قبر ہی کھل جاتی ہے ۔ وہ اسکول کا استاد تو گیا اپنی جان سے ،اب آپ اس کے لواحقین کے زخموں پر ”شہید”کہہ کر مرہم رکھیں اور اس کے غریب شاگردوں کو ایک گھوسٹ استاد کے رحم وکرم پر۔
کبھی مجھے لگتا ہے کہ روزانہ اخبار کا چھپنا اور خبروں کا انبار بھی بڑی زیادتی ہے ۔اس انبار تلے عام آدمی کے قتل کی خبر دبنے میں کتنا وقت لگتاہے زیادہ سے زیادہ چوبیس گھنٹے ،اور جس گھر میں اس معلّم کا جو اسکول پہنچنے کے رستے میں تھا، جس کے شاگرد اس کے منتظر تھے، خون آلود مردہ نعش واپس آیا؛ ان کے لیے وقت اس کڑے لمحے ٹھہر نہیں گیا؟یہ زندگی کے ایسے منجمد لمحے جو ہر کس و ناکس کے دل کو گھلادیں اور خود ذرا نہ پگھلیں،یہ زندگی پر محیط سرد جامد لمحے ۔
ہمارے احساسات ہمارے مشاہدات سے جڑے ہوتے ہیں اور ہمارے مشاہدات ایک محدود زمان و مکاں میں مقید ۔ خبر اپنے علاقے کی بھی ہو تو ہر واقعہ صحافی کے لیے براہِ راست مشاہدے کا حصہ نہیں بن سکتا ،بن ہی نہیں سکتا۔ لیکن جب خبر آتی ہے تو ہمارے احساسات اس سے منسلک ہوجاتے ہیں ، کبھی لفظ اور کبھی خبر کے ساتھ واقعے کی کوئی تصویر جیسے ہمارے مشاہدے کا حصہ بن جاتی ہے،خبر میں واقعے کی تفصیلات ،جزئیات ،پس منظر ،بیانات ،لواحقین کی کبھی سسکیاںکبھی دہائیاں ،سیاسی عمائدین کی تسلیاں ،تشفیاں ، گیدڑ بھبھکیاں؛ آج مرے کل دوسرادن کے مصداق باقی سب کی زندگی بظاہر اسی طرح رواں ۔۔۔بس ایک وہ ماں جس کی جھکی کمر مزید دہری ہوگئی ،ایک وہ بیوی جس کی سانسیں بندھ جائیں گی اس کے پانچ بچوں کے ساتھ ۔۔۔باقی کیا بچتا ہے ۔۔خلائ۔۔۔ اللہ رکھیو نندوانی گیارہ ہزار ماہانہ تنخواہ پر پرائمری اسکول کا استاد،جس نے محض ڈرانے کے لیے ہی ایک بندوق کندھے سے لٹکالی تھی ،اب ایسی ریاستی مشینری کا کیا کریںکہ جب اللہ رکھیو نے ڈاکوئوں کی دھمکیوں کے بعد متعلقہ تھانے میں شکایت کی تو جواب ملا کہ ہمارے پاس آپ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے نفری نہیں ہے؟ وہ استاد کی روح رکھنے والا اگر بندوق رکھ بھی لے گا تو چلاتھوڑی سکتاہے، کسی کو قتل تھوڑی کر سکتا ہے ،یہ اس کا کام نہیں ہے ،اس نے بچپن میں کبھی غلیل ہی چلائی ہوگی ،اللہ رکھیو کی سادگی تھی کہ وہ یہ سمجھا کہ اس کے پاس بندوق دیکھ کر کوئی پاس نہیں پھٹکے گا۔ مارنے والا جانتا تھا کہ یہ استاد جس نے کبھی چڑیا بھی نہیں ماری ہوگی مار نہیں سکتا،لیکن ہمیں للکارنے کی جرأت بھی کیسے کی؟ آج یہ پرائمری ٹیچر کل اس کے شاگرد،ہم کیا چوڑیاں پہنیں گے؟ ،قہقہے لگائے ہوں گے ڈاکوئوں نے کہ وہ استاد کا بچہ ،بڑی بندوق ٹانگے پھرتاہے ، ہمارے مقابلے پر آئے گا، ہمارے منع کرنے کو خاطر میں نہیں لائے گا، ۔۔۔۔یہ بات صحیح ہے کہ اللہ رکھیو کو بندوق اٹھانے اور بندوق چلانے کا فرق نہیں پتاتھا ،جو ان قاتلوں کو پتاتھا۔
میرے لیے یہ خبر بہت بڑی خبر ہے ۔ یہ بڑی خبر کیوں نہیں ہو گی ؟ جس پر سندھ کے صوبائی وزیر تعلیم کو بات کرنی پڑے تو بڑی خبر تو ہوئی نا۔ انہوں نے کہاکہ” شاید اللہ رکھیو کے بندوق رکھنے سے ڈاکو چڑ گئے” ۔چڑے تو ہو ں گے کہ یہ کون چڑی مار استادہے کہ پڑھاتاہے اور بندوق بھی رکھتاہے ۔ یا تو پڑھا یا بندوق رکھ ۔۔۔ہمارے رکھنے کی چیز اس کے پاس کیو ںہو۔۔۔جیسا کہا گیاہے ویساکر ، تھانے جاکر شکایت لگاتاہے ۔۔۔لو بندوق رکھنے لگاہے ۔۔سیدھی طرح سنتا کیوں نہیں؟ مانتاکیسے نہیں؟آج یہ کل کوئی اور ۔۔تھانے دار کیاکرلے گا۔۔۔ابے ان دو جماعتیں پڑھ لینے والے کی عقل کہا ں گھانس چرنے چلی جاتی ہے؟ یہ زمین ہماری ہے ، یہاں وہی وہ ہوگا جو ہم چاہیں گے ، اس استاد جی کو سبق ہم پڑھائیں گے ،تھانے میں اس دفعہ زیادہ حصہ پہنچادینا، اور چند دن سسرال چلے جانا ،جس گھر کو چن لے وہی تیری سسرال ، بس پھر ہنی مون منا کے واپس آجانا ،جب تک اس استاد کے بچے کا چہلم بھی ہوجائے گا۔۔۔کیا خیال ہے ،ایک آدھ دیگ ہم بھی نہ پکوا کر بھیج دیں ۔۔گائوں والے بھی کیایاد کریں گے کہ کس کے چہلم کا کھانا کھایا ۔۔۔ ایسا کھانا دیں گے کہ چہلم کی دعائیں ہی مانگیںگے ۔
ایک بڑ ے کام کی تجویز سمجھ میں آئی ،گویا ایک پنتھ دو کاج۔ جس جگہ اللہ رکھیو کا قتل ہوا وہ سڑک اس کے نام کردیں ۔ اللہ رکھیو سڑک ۔۔۔اگر لواحقین نہیں بھی تو گائوں والے اور شاگرد و ں کو لگے گا کہ یون مرنا تو افضل مقام ہی عطا کرتاہے ، یہ تو سرخ روئی ہی سرخ روئی ہے، دوسری طرف آئندہ کے لیے یہی مقام مقامِِ عبرت ہوگا اور کوئی آئندہ ڈاکوئوں کو چڑانے کے خیال کو پاس بھی نہیں پھٹکنے دے گانہ خود پھٹکے گا۔ افتتاح بھی خود فرما لیجیے گا اور افتتاحی تقریر میں فرمائیے گا کہ :” آئندہ ان ڈاکوئوںکو کوئی نہ چڑائے ،ان کی اپنی طرح کی نازک مزاجی ہے ،اس کا خیال رکھیں تو امن و امان کی صورتِ حال قابو میں رکھا جاسکتاہے ،یاد رکھیں یہ آپ ہی کی زمین ہے اور اس کا سکون بھی آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔فی امان اللہ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔