... loading ...
عماد بزدار
خورشید ندیم صاحب ایک علمی شخصیت ہیں۔ اخبار میں کالم لکھتے ،وقتا فوقتا ٹی وی پر کوئی نہ کوئی مذہبی پروگرام بھی کرتے ہیں۔ آج کل
رحمت العالمین اتھارٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ آیئے ذرا ان کے اپنے لکھے گئے الفاظ کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ کیسے ایک ہی معاملے کے بارے میں حسب ضرورت ان کا مؤقف یوں بھی ہوجاتا اور ووں بھی!!!
رحمت العالمین اتھارٹی اور خورشید صاحب کا”اصولی مؤقف”
رحمت العالمین اتھارٹی عمران خان کی دور حکومت میں وجود میں آئی۔رحمت العالمین اتھارٹی کے چیئرمین بننے سے پہلے اپنے کالم
”اپنا اپنا اسلام” میں رحمت العالمین اتھارٹی پر ان دلائل کے ساتھ تنقید کرتے ہیں۔
”ترجیحات کا جب درست تعین نہیں ہوتا تو پھر وہ رویہ پیدا ہوتا ہے جس کی طرف حضرت مسیح نے اشارہ کیا کہ
لوگ مچھر چھانتے ہیں اور اونٹ نگلتے ہیں۔ ریاست کا پورا نظام عدل فراہم نہیں کررہا ۔ وقت کا حکمران قدم قدم
پر اسلامی اخلاقیات پامال کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ اگر وہ رحمت العالمین اتھارٹی نام سے ایک ادارہ بنادیتا یا ٹی وی
کی خواتین اینکر کو دوپٹہ اوڑھا دیتا ہے تو اسے اسلام کا نمائندہ سمجھ لیا جاتا ہے ۔”
اگست دو ہزار تیئس میں خورشید ندیم صاحب اسی اتھارٹی کے چیئرمین بنتے ہیں۔ شاید اس مملکت خداداد میں اگست کے بعد اسلامی اخلاقیات پامال ہونا بند ہوگئے ، ریاست کا نظام زور و شور سے عدل فراہم کرنا شروع ہوگیا تبھی خورشید صاحب نے چیئرمینی قبول کرلی
ورنہ خورشید صاحب خلاف شرع تھوکتے بھی نہیں۔
اچھا احتجا ج برا احتجاج یا جائز احتجاج ناجائز احتجاج
حکومت وقت کے خلاف احتجاج تب جائز ہوا کرتا تھا جب میاں صاحب اپوزیشن میں اور عمران حکومت میں ہوا کرتے تھے ۔ کالم کا عنوان ہے” فیصلے کا دن” اور اس کالم کی تاریخ اشاعت31اکتوبر 2019ء ہے ۔ لکھتے ہیں
”کیا آج فیصلے کا دن ہے ؟ کیا آج پنجاب آزادی مارچ کیلئے نکلے گا؟اس کا جواب مولانا فضل الرحمان
کے پاس نہیں ، ن لیگ کے پاس ہے ۔ نون لیگ پر پھبتی کسی جاتی ہے کہ یہ جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے ۔ اس
اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جی ٹی روڈ کے قرب میں جو شہر اور قصبات آباد ہیں وہاں ن لیگ کی اکثریت
ہے ۔ گویا جو نون لیگ کو ایک ملک گیر جماعت ماننے پر آمادہ نہیں ، وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ لاہور سے
راولپنڈی تک ، نواز شریف عوام کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ن لیگ کو اب اس کا عملی مظاہرہ کرنا ہے ۔ اگر
لوگ نہیں نکلتے تو یہ مولانا کی نہیں نون لیگ کی ناکامی ہوگی ۔ جو حیثیت پیپلز پارٹی کی سندھ میں ہے ، وہی نون
لیگ کی پنجاب میںہے ۔ اگر وہ پوری قوت مولانا کے پلڑے میں ڈال دے تو صرف پنجاب سے ایک لاکھ
کم و بیش ، افراد اسلام آباد بھجوائے جاسکتے ہیں۔خان صاحب غالبا ًنواز شریف کی مزاحمت کا صحیح اندازہ کرسکے
نہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی قوت کا۔ خود پسندی کے حصار میں قید حکومت سیاسی حرکیات سے آخری درجے
میں بے خبر نظر آتی ہے ۔ ہر طبقہ زندگی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ جہاں تاجر کا دم گھٹ رہا ہو ، جہاں میڈیا کا گلا
دبایا جارہا ہو ، جہاں سیاستدان قید کردیے جائیں ، جہاں ہر طبقہ زندگی کے لئے جینا دوبھر کردیا جائے ۔ وہاں
کیسے ممکن ہے کہ صرف حکومت قائم رہ سکے”۔
جب تاجر کا دم گھٹ رہا ہو ، جب میڈیا کا گلا دبایا جارہا ہو ، جب سیاستدان قید کردیے جائیں جب ہر طبقے کا جینا دوبھر ہو تو خورشید
صاحب کی نظر میں ممکن ہی نہیں کہ حکومت قائم رہ سکے ۔ لیکن ٹھہریئے !”اصولی مؤقف”سدا ایک سا نہیں رہتا ،بدلتے وقت کے ساتھ خورشید صاحب کا مؤقف بھی بدل جاتا ہے۔ یہ اسی مارچ کے مہینے کا کالم ہے۔ تاریخ اشاعت 16مارچ 2024ء ہے اور کالم کا عنوان ہے ”احتجاج یا خود احتسابی؟”
وہ احتجاج جو عمران حکومت کے خلاف ضروری ہوا کرتا تھا اب ”اسلامی اصولوں”کی روشنی میں ناجائز ہوجاتا ہے ۔ لکھتے ہیں
مطالبہ، احتجاج، خود احتسابی۔۔۔۔۔ انفرادی شخصیت اور سماج کا اساسی جوہر کیا ہے ؟ میرا جواب ہے خود احتسابی ۔ قرآن مجید کی راہ نمائی یہی ہے ۔ رسالت ماب سیدنا محمد ۖ کی تعلیم کا حاصل یہی ہے ۔ مسلم سماج کا تعارف بھی یہی ہے ۔ اس بات کو تصور آخرت نے آخری درجے میں واضح کردیا ہے ۔ خدا کے حضور میں سب اپنے اپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہونگے ۔ ہر کسی کے ہاتھ میں اس کا نامہ اعمال ہوگا۔ کسی دوسرے کا کارنامہ یا جرم اس میں رقم نہیں ہوگا۔ یہ تصور خود احتسابی کا کلچر پیدا کرتا ہے ، دنیا میں بھی۔آگے احتجاج نامی شر سے قوم کو بچانے کے لئے مزید دلائل کچھ اس طرح دیتے ہیں کہ ”مکہ میں مسلمان مذہبی جبر کا شکار تھے ۔یہ صورتحال مسلمانوں کو مضطرب رکھتی تھی ۔ جب ان کی طرف سے یہ حرف شکایت زبان پر آیا کہ ‘اللہ کی نصرت کب آئے گی’ تو جواباً انہیں صبر کی تلقین کی گئی۔”
احتجاج جیسے ناجائز عمل کے لئے ”دلائل” کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے خورشید ندیم مزید لکھتے ہیں کہ سرسید کی تو ساری تگ و دو شخصی تعمیر اور خود احتسابی کے لئے تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں کو احتجاج اور تصادم کی نفسیات سے نکالنے کے لئے آواز اٹھائی۔۔”
اب دونوں کالمز آپ کے سامنے ہیں یا تو احتجاج بذات خود بری چیز ہے جیسا کہ دوسرے کالم میں ہے یا پھر یہ امکان ہوسکتا ہے اس وقت مملکت خداد میں شیر بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے ہیں ، میڈیا آزاد ہے ، سیاستدان پر کوئی جبر نہیں ۔ ہر طبقہ خوش اور خوشحال ہے
اس لئے احتجاج نہیں کرنا چاہیے ۔
صعوبتوں والا جیل اور آسودگی والا جیل
جب میاں صاحب جیل میں ہوتے تھے تب جیل کی زندگی صعوبتوں سے بھر پور بہت مشکل ہوا کرتی تھے ۔ چھبیس اکتوبر دو ہزار انیس کے کالم ”نواز شریف: فرد سے علامت تک” میں اپنے پڑھنے والوں کو بتاتے ہیں”انہوں نے (نواز شریف) ایک خاص لمحے میں مزاحمت کا فیصلہ کیا۔آسودگی کی زندگی پر جیل کی صعوبتوں کو ترجیح دی۔ اقتدار ہی نہیں گیا، ان کی زندگی بھی داؤ پر لگ گئی۔ خاندان بکھر گیا۔ بیٹی پر تعیش محلات سے نکلی اور تکلیف دہ حوالات جا پہنچی۔ یہ نواز شریف کا اپنا انتخاب تھا۔ یقیناً یہ آسان فیصلہ نہیں تھا۔ وہ اس کی قیمت ادا کرنے پر تیار ہو گئے اور یوں فرد سے علامت بن گئے ۔” لیکن اسی اڈیالہ جس میں میاں صاحب قید ہوا کرتے تھے ، میں جب عمران قید ہو گیا تو جیل کی زندگی صعوبتوں والی نہیں رہی بلکہ جیل کی زندگی صعوبتوں سے آسانیوں میں تبدیل ہوگئی۔ سات مارچ دو ہزار چوبیس کے کالم ”سسٹم کیا ہوتا ہے ؟”میں لکھتے ہیں
”یہی نہیں ، یہ لوگ گرفتار ہوتے ہیں تو ان کے لئے جیل بھی جائے قرار بن جائے ۔ حکومت ذاتی انتقام پر
نہ اترے تو قانون یا سسٹم ان کے لئے جیل کی زندگی کو آسان بنا دیتا ہے ۔ عمران خان صاحب، آج جیل
میں کس حال میں ہیں ، سب کو معلوم ہے ۔”
کوئی دن ہے بہار گل پھر آخر ہے خزاں بالکل
چمن ہے منزل عبرت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے
ظفر اک بات پر دائم وہ ہووے کس طرح قائم
جو اپنی پھیرتا نیت کبھی یوں ہے کبھی ووں ہے