... loading ...
١ندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر
(گزشتہ سے پیوستہ)
کوئی نظریہ جس کو کسی ملک میں راسخ کیا جانا مقصود ہو اس کے لیے مقتدرہ ابلاغ کے تمام تر ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک بیانیہ تشکیل دیتی ہے۔ ریاست کے دیگر ادارے مقتدرہ کا ساتھ دینے کے لیے مجبور ہوتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں ۔اس کے متوازی وہ قوت اور توانائی بھی ہوتی ہے جس کا اظہار انکار، مزاحمت ،بغاوت اور بسا اوقات مقتدرہ کی نظر میں غداری قرار پاتاہے ۔ سرکاری ذرائع ابلاغ اور سرکارکا منظور شدہ نصا ب جو بیانیہ تشکیل دیتے ہیں اس کی نوعیت یک طرفہ ہوتی ہے۔سچائی تک پہنچنے کے لیے دوسرے کا نکتہ نظر ، تاریخ اور حالات ِ حاضرہ کے تناظر میںدیگر سماجی معاملات کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے ہی ممکن ہے اور اس کے لیے بنیادی اہلیت و قابلیت اخلاص اور غیر جانب داری ہے۔سربراہان مملکت وہ؛ جو کام کرنا چاہتے ہیں ان کی تقریریں ،انٹرویو اور رہن سہن اور سربراہان ِ مملکت وہ ؛جو حکومت کرنا چاہتے ہیں ان کی تقریریں ،انٹرویو اور رہن سہن زمین و آسمان کا فرق رکھتے ہیں ۔
گولڈا میئر ،اسرائیل کی یہ سابقہ وزیر اعظم گھر میںصبح سے شام تک کی ایک خادمہ رکھتی تھی اور اگر مہمان رات کے کھانے پر مدعو ہوں تو رات کو میز صاف کرکے ،کھانے کے برتن دھوکر اور باورچی خانہ خود صاف کرکے سوتی تھی ۔اس تمہید کے بعد آتے ہیں گولڈا میئر کے انٹرویو کی طرف جو اسرائیل فلسطین موجودہ صورتِ حال میں سچائی تک پہنچنے کی راہ سوجھانے میں روشنی فراہم کرتاہے۔ اوریانا فلاشی کے سوالات سے لگتاہے کہ جیسے وہ فلسطینی مسلمانو ںکا مقدمہ اسرائیل کی وزیرِ اعظم سے لڑ رہی ہو ۔
گزشتہ کالم میں گولڈا میئر کی بات اس نکتے پر ختم ہوئی تھی کہ :” اقلیت کے لیے مختص علاقوں میں معاشی مجبوریوںکے ساتھ محصور ،سزا یافتہ ، تباہ حال اور پھر بھی وہ جیتے رہے اور انہوں نے ایک ہوکر رہنا نہیں چھوڑا اور پھر وہ دوبارہ اکٹھے ہوئے ،دوبارہ ایک قوم بننے کے لیے…
اوریانا: لیکن یہی تو ہے جو فلسطینی چاہتے ہیں مسز میئر ، وہ ایک قوم بننا چاہتے ہیں،اور اسی لیے کچھ لوگ رائے دیتے ہیں کہ ان کی ریاست مغربی کنارے پر ہونی چاہئے۔
گولڈا؛ دیکھو ، میں پہلے ہی وضاحت کرچکی ہوںکہ اردن کے مشرق اور مغرب میں تمہیں ایک ہی لوگ ملیں گے،اور میں اس کی وضاحت بھی کرچکی ہوں کہ وہ پہلے فلسطینی کہلاتے تھے اور بعد میں اردنی کہلائے جانے لگے ۔اگر وہ اب فلسطینی یا اردنی جو بھی کہلوانا چاہتے ہیں مجھے اس کی ذرہ بھر پرواہ نہیں ہے۔یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل اور اس خطے کو جو آج کل اردن کہلاتاہے ،کے درمیان ایک نئی عرب ریاست تشکیل نہ دے سکیں۔ بحیرئہ روم اور عراق کی سرحدوں کے درمیانی زمینی ٹکڑے پر بس دو ہی ملکوں کی جگہ ہے ایک عرب اور ایک جیوش۔ اگر ہم حسین کے ساتھ امن کا معاہدہ دستخط کرتے ہیں اور اردن کے ساتھ سرحدوں کا تعین کرتے ہیں تو پھر اس سرحد کے اس پار جو بھی ہو اس سے اسرائیل کا کوئی سروکار نہیں ہوگا۔
فلسطینی ، حسین کے ساتھ جیسا بھی چاہیں معاملہ طے کرلیں،وہ اس ریاست کو جو چاہیں بلاسکتے ہیں،اور جیسا چاہتے ہیں ویسا نظام قائم کرلیں۔اہم بات یہ ہے کہ ہمارے اور اردن کے بیچ ایک تیسری ریاست معرضِ وجود میں نہ آئے ۔ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں۔ہم اس کے لیے اجازت نہیں دے سکتے کیوں کہ یہ ہمارے خلاف ایک خنجر کی طرح استعمال کیاجاسکتاہے۔
اوریانا: مسز میئر ،میں ایک اور موضوع کو بات چیت کے لیے چننا چاہتی ہوںاور وہ یہ ہے کہ جب کوئی ایک خواب دیکھتاہے اور اسے تخیل سے سجاتا رہتاہے اور پھر جب وہ خواب شرمندئہ تعبیر ہوجاتاہے تو خواب دیکھنے والے کو ادراک ہوتاہے کہ تخیل آخر تخیل ہی ہوتاہے ۔ کیا آپ اسرائیل سے مطمئن ہیں آج وہ جیساہے؟
گولڈا: میں ایک بے تکلف عورت ہوں ۔ میں تمہیں بے تکلفی سے ہی جواب دوں گی ۔ ایک سوشلسٹ ہونے کے ناطے میں مطمئن نہیں ہوں۔ میں نہیں کہہ سکتی کہ اسرائیل میرے خوابوں جیسا ہے ۔ میں ایک ایسی یہودی سوشلسٹ ہوں جس نے ہمیشہ اپنی سوشلزم میں یہودی عنصر کی موجودگی پر بھر پور زور دیا ہے تو ،اسرائیل اس سے کہیں اچھا ہے جیسا میں نے خواب دیکھا تھا۔ اب میں اس کی وضاحت کرتی ہوں۔ صیہونیت کا ادراک میرے لیے سوشلزم کالازمی جزو ہے۔ میں جانتی ہوں کہ دوسرے سوشلسٹ میرے ساتھ اتفاق نہیں کریں گے مگر میں اس بارے میں ایسے ہی سوچتی ہوں۔ میں اس بارے میں معروضیت پسند نہیں ہوں، اور میرا ماننا ہے کہ اس دنیا میں کئی گروہوں کی طرف سے حقوق کی پامالی اور نا انصافی کا بازار گرم ہے،کوئی کالے افریقیوں کو دبانے میں مصروف ہے تو کوئی یہودیوں کو گرانے کا دل دادہ ہے ، اور اس کے علاوہ میرے خیال میں ان دونوں ناانصافیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے سوشلسٹ قوانین اور قاعدے بہترین لائحہ عمل ہیں۔ میری زندگی کا مقصد یہودیوں کے حقوق کا تحفظ ہی رہاہے اور مختصراََ یہ کہ چالیس یا پچاس سال قبل مجھے ذرہ بھر بھی امید نہیں تھی کہ یہودی ایک خود مختار ریاست حاصل کرپائیں گے ۔ مگر اب ہمارے پاس ہے سو مجھے نہیں لگتاکہ اب میرا اس ریاست کی کجیوں اور خامیوں پر کڑھنا مناسب بات ہے ۔ اب ہمارے پاس اپنی مٹی ، اپنا وطن جہاں ہم بے دھڑک رہ سکتے ہیں ،قدم جما سکتے ہیں اور جہاں ہم اپنے پسندیدہ سوشلسٹ نظریات کا احاطہ کرسکتے ہیں جو اس سے پہلے فقط ہوا میں جھول رہے تھے۔
(کالم کا یہ سلسلہ بہ عنوان ”اندرا گاندھی ،گولڈا میئر اور بے نظیر” مشہور ِ عالم اطالوی صحافی اوریانا فلاشی (٢٩ ِ جون ١٩٢٩ء ۔١٥ِ ستمبر ٢٠٠٦ء ) کے اپنے وقت کے سرکردہ سربراہان مملکت سے کیے گئے انٹرویو پر مشتمل کتاب ”انٹرویو ود ہسٹری” کاترجمہ ”تاریخ کا دریچہ”مترجم منیب شہزاد ،سے متاثر ہو کر لکھاجارہاہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔