... loading ...
ریاض احمدچودھری
23 مارچ کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔مارچ 1940 میں لاہور میں مسلم لیگ کا جلسہ ہوا۔ جس میں برعظیم کے مختلف علاقوں سے ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی۔ اس جلسے میں قراردادلاہور منظور کی گئی جس کو بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ میںنے اپنے دادا چودھری دین محمدمرحوم کے ساتھ منٹو پارک لاہور میں ، 22,23 مارچ کو منعقد ہونے والے تاریخی اجتماع میں شرکت کی۔ جلسہ گاہ میں رضاکار تعینات تھے۔ مجھے صدر آل انڈیا مسلم لیگ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیگ کے دوسرے رہنماؤں کو دیکھنے اور ان کو سننے کا موقع ملا۔
19 مارچ 1940ء کو پنجاب حکومت نے خاکسار تحریک پر پابندی لگا دی۔لیکن انہوں نے پابندی کو مسترد کردیا ۔ جس کے نتیجے میں پنجاب حکومت نے بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گولی چلا دی اور خاکسار تحریک کے کئی کارکن شہیدہوئے۔ اس واقع کے صرف چار روز بعد آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ منٹو پارک میں ہونا تھا اور صدارت کیلئے قائد اعظم تشریف لا رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد سمجھا جا رہا تھا کہ شاید مسلم لیگ اپنا جلسہ ملتوی کر دے مگر قائد اعظم نے نہ صرف پوری جرات اور استقامت سے 23 مارچ کا جلسہ زور وشور سے منعقد کرنے کا اعلان کیا بلکہ خاکسار تحریک کے کارکنان اور قیادت کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔
21 مارچ 1940ء کی شام تک جلسے کے شرکاء قافلوں کی صورت میں منٹوپارک کے سبزہ زاروں میں خیمہ زن ہو گئے۔ 22 مارچ کو مسلم لیگ کے 27 ویں سالانہ اجلاس کا آغاز ہوا ۔ مینار پاکستان جس تاریخی قرارداد کا ترجمان ہے وہ 22 مارچ کو ہی پیش کی جانی تھی مگر شیر بنگال اے کے فضل الحق جنہوں نے قرارداد پیش کرنا تھی وہ نہ پہنچ سکے۔ لہذا اس تاریخی اور عظیم الشان واقعے کو 23 مارچ تک مؤخر کر دیا گیا۔ 22 مارچ کے جلسے میں قائد اعظم نے نسبتاً طویل تقریر کی۔ قائد اعظم نے دو قومی نظریے کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قائد اعظم نے مغربی جمہوریت سے بالا تر ہو کر اسلامی جمہوریت کی بنیاد رکھی کیونکہ مغربی جمہوریت میں مذہبی بنیادوں پر تقسیم سیکولر ازم کے باعث ممکن نہیں۔ اگلے روز جلسے کی کارروائی کے دوران شیر بنگال اے کے فضل الحق نے پرتپاک نعروں کی گونج میں 427 الفاظ پر مشتمل قرارداد پیش کی ۔مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنماچوہدری خلیق الزماں ، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ اس اہم دستاویز نے پاک و ہند کے مسلمانوں کیلئے قائد اعظم کی صدارت میں اسلامی نظریہ حیات کی بنیاد پر ایک واضح منزل کا تعین کیا۔ اللہ کریم نے اس قرار داد کو اتنا بابرکت بنایا کہ مسلم لیگ ایک فعال قوت بن گئی۔ 1946 ء کے انتخابات میں ووٹ کی طاقت سے وہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کے طورپر ابھری۔اپریل 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔
قرارداد کی منظوری سے قیام پاکستان کے دوران قائد اعظم نے کئی سیاسی معرکے سر کئے’ جواہر لال نہرو اور گاندھی جی نے قائد اعظم سے متعدد مذاکرات کئے۔ مارچ 1942ء میں اسٹیفورڈ کرپس برصغیر آئے اور قائد اعظم نیز دوسرے رہنماؤں کے ساتھ انہوں نے طویل مذاکرات کئے ۔ ان تمام وفود سے قائد اعظم پاکستان سکیم کی مقبولیت پر گفتگو کرتے رہے اور اپنے موقف سے ذرا پیچھے نہ ہٹے۔ آخر کار حکومت برطانیہ مطالبہ پاکستان کی قائل ہو گئی اور اس نے 3 جون 1947ء کو اپنے فیصلے کا اعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ برطانیہ کے آخری وائسرائے ہند نے سنایا اس کے مطابق حکومت برطانیہ برصغیر ہند کو آزاد کرنے کا ارادہ کر چکی تھی اور ملک ہندو مسلم اکثریتی علاقوں میں منقسم ہو گا۔ قائد اعظم نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور مسلم لیگ کونسل نے ان کی تائید کے بعد اس فیصلے کے مطابق 14 اگست 1947ئ(27 رمضان المبارک 1320ھ) سے پاکستان آزاد ہوا اور اس سے اگلے روز بھارت۔
14 اگست 1948ء کو قائداعظم نے قوم کو جو پیغام دیا وہ ان کا آخری پیغام ثابت ہوا’ کیونکہ اس کے بعد ایک ماہ کے اندر 11 ستمبر 1948ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔”پاکستان کا قیام ایک ایسی حقیقت ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال ملنا محال ہے’ اگر ہم نے پوری دیانتداری’ خلوص اور مستعدی سے کام کیا تو پاکستان بہت جلد اہلِ عالم میں شاندار حیثیت اختیار کر لے گا۔ مجھے پورا اعتماد ہے کہ پاکستانی عوام ہر موقع پر اسلامی تاریخ کی روایات’ عظمت اور شان و شوکت کو زندہ کر دکھائیں گے۔
قرارداد پاکستان منظور ہونے پر لوگوں کا جوش و خروش اتنا زیادہ تھا کہ میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اب باقی زندگی تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے لئے وقف کر دوں گا۔ میں اپنے طورپر جناح کا ایک جانثار بن چکا تھا۔ یوں میں تحریک پاکستان سے منسلک ہو ا اور قیام پاکستان تک خود کو تحریک پاکستان کا ادنیٰ کارکن تصور کرتے ہوئے ہمیشہ سرگرم رہا۔