وجود

... loading ...

وجود

بھارتی حکومت اسلحے کا ڈھیر لگارہی ہے!

جمعه 22 مارچ 2024 بھارتی حکومت اسلحے کا ڈھیر لگارہی ہے!

ریاض احمدچودھری

بھارتی حکومت پر اسلحے کے ڈھیر لگانے کا بھوت سوار ہو چکا ہے۔ بھارت نے اپنے جنگی (دفاعی) بجٹ میں 18 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اس مد میں بھارت اگلے سال 40 ارب ڈالر اضافی خرچ کرے گا۔ بھاری رقوم سے دنیا بھر سے جنگی اسلحہ، آبدوزیں، ٹینک، جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر وغیرہ خریدے جائیں گے۔بھارت نے آئندہ 10 برسوں میں اپنے جنگی بحری جہازوں کی تعداد 200 تک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت بھارت کے پاس 136 بحری جنگی جہاز موجود ہیں۔ ان جہازوں کی تیاری کے لئے ملک میں موجود تمام ڈاکس آرڈ دے دیئے گئے ہیں۔ روس کا تیار کیا گیا دو اعشاریہ تین ارب ڈالر کا طیارہ بردار بحری جہاز بھارت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ طیارہ بردار یہ جہاز عمودی پرواز کے لئے Yak۔38 اورK Mig29 لڑاکا طیارے کو لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جہاز پردو ہزار اہلکاروں کی گنجائش ہے۔
بھارت پاکستان سے متصل اپنی سرحدوں پر ایئر ٹینک تعینات کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ فضائی ٹینکوں کی تعیناتی کا یہ منصوبہ گرمیوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔ہیوی ڈیوٹی کامبیٹ ہیلی کاپٹر اپاچے جسے ائیر ٹینک بھی کہا جاتا ہے جلد ہی پاکستان سے متصل سرحد پر تعینات کیا جائے گا۔ بھارتی فوج نے ہیوی ڈیوٹی اور جدید ترین صلاحیتوں سے لیس ہیلی کاپٹروں کے اسکواڈرن میں اضافہ کیا ہے۔اعلی معیار کے نائٹ ویژن سسٹم سے لیس اپاچے کو ایک منٹ میں 138 اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائلوں سے لیس کیا جا سکتا ہے، جو اسے فضائیہ کا ایک زبردست اثاثہ بناتا ہے۔فوج کی مغربی کمان میں اپاچے ہیلی کاپٹروں کو تعینات کرنے کی تیاریاں جاری ہیں، جس کی پہلی کھیپ فروری 2024 میں امریکا سے موصول ہونی تھی لیکن اس میں تاخیر ہوئی ہے۔اب اپاچے ہیلی کاپٹروں کی پہلی کھیپ مئی میں موصول ہونے کا امکان ہے۔بھارتی فوج نے امریکی کمپنی بوئنگ کے ساتھ اپاچے ہیلی کاپٹروں کی خریداری کا معاہدہ کیا تھا۔تقریبا 5,691 کروڑ بھارتی روپے کے اس سودے کے تحت بوئنگ بھارتی فوج کو 6 ہیلی کاپٹر فراہم کرے گا۔
چین نے بھارت کو کبھی جنگ کی دھمکی نہیں دی اور نہ کبھی بھارت پر حملہ کیا ہے۔ یوں اس خطے میں بھارت کے لئے کوئی ایسا ملک نہیں کہ جس سے بھارت کے وجود کو خطرہ ہو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارت اپنی عوام کی حالت سدھارنے، غربت کے خاتمے اور ملک میں جاری آزادی کی تحریکوں کو اچھے طریقے سے ختم کرنے کی بجائے بے تحاشہ جدید سے جدید اسلحہ جمع کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ کشمیری مجاہدین یا ماؤنوازوں اور دیگر آزادی پسندوں کے خلاف تو بھاری اسلحہ استعمال نہیں کرے گا۔ اس کے بعد صرف پاکستان ہی رہ جاتا ہے کہ جس کے ساتھ بھارت کے سمندری حدود سرکریک سے لے کر کشمیر، سیاچن تک سرحدوں پر تنازعات ہیں، جس کے وہ دو ٹکڑے کر چکا ہے، جس کے کئی حصوں پر اس نے قبضہ جما رکھا ہے۔اس کی پالیسی صرف اور صرف یہ ہے کہ کسی طرح پاکستان مضبوط و مستحکم نہ ہو۔ اس کے لئے وہ اتنے اسلحہ کے انبار جمع کر رہا ہے۔ ان سنگین حالات میں اب ہمیں ضرور سوچنا چاہئے کہ بھارت کے ان خوفناک اور خطرناک عزائم پر کیسے قابو پانا اور مقابلہ کرنا ہے۔ بھارت کی ساری تیاری کا مرکز و محور صرف اور صرف پاکستان ہے۔ ہم جنگ کے طالب ہیں نہ رسیا، لیکن اپنی خودداری کسی صورت قربان نہیں کر سکتے۔اگر بھارت اپنے سارے ملک کی پروا نہ کرتے ہوئے صرف اور صرف پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہے تو ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم نے کب تک یوں بھارت کے سامنے جھک کر اور بزدلانہ پالیسی اختیار کر کے جینا ہے ۔
بھارت اپنے حجم اور وسائل کے اعتبار کے خطے کا سب سے بڑا ملک ہے۔ بڑا ملک ہونا کوئی خرابی کی بات نہیں۔ بشرطیکہ وہ اپنے ہمسایوں کے لئے اندیشوں اور خدشات کا سر چشمہ نہ ہو۔ بد قسمتی سے بھارت اپنی توسیع پسندی پر مبنی پالیسی کی وجہ سے اپنے ہمسایہ ممالک کے لئے خطرے کی علامت بنا رہتا ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے یہ خطہ جنوبی ایشیا کا کوئی ملک ایسا نہیں، جو بھارت کے رویے سے کسی نہ کسی طرح نالاں نہ ہو۔بھارتی حکومت کا اسلحہ خریدنے کا جنون اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب عوامی بجٹ سے بھی اسلحہ خریدا جا رہا ہے۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی حکومت اسلحے کی دوڑ میں اتنی آگے نکل چکی ہے کہ صحت جیسی بنیادی سہولت کا پیسہ بھی اسلحہ پر خرچ کر رہی ہے۔ بھارتی بجٹ میں صحت کے لئے مقرر کردہ بجٹ کا بھی 50فیصد اسلحہ خریدنے پر صرف کر دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت میں 40 فیصد اموات ذیابیطس، دل کے امراض، کینسر یا دماغی خلل کے باعث ہوتی ہیں، جبکہ اسی طرح کے اَمراض میں مبتلا 60 فیصد بھارتی شہری 70سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔بھارت میں ذیابیطس اور کینسر کے مریضوں کی تعداد میں زیادہ تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔بھارت کے غربت کے شکار بہت سے دیہات میں سے ایک موسے پور جس کی آبادی تقریباً 900 نفوس پر مشتمل ہے، لکھنو¿ سے قریب ہی واقع یہ گاؤں طبی سہولتوں سے محروم ہے۔
بھارت کی آبادی اس وقت سوا ارب کے قریب ہو چکی ہے، لیکن 80 کروڑ عوام ایسے ہیں کہ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، 15 کروڑ شہری ایسے ہیں کہ جن کے پاس رہنے کے لئے سرے سے گھر، مکان یا خیمہ تو کجا معمولی جگہ بھی نہیں اور یہ 15 کروڑ انسان رات کو پارکوں، سڑکوں، فٹ پاتھوں پر وقت گزارتے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑا جھونپڑیوں کا سلسلہ بھارت میں ہے۔ بھارت کی دوسری طرف اندرونی صورت حال یہ ہے کہ وہاں آزادی کی سو سے زائد تحریکیں چل رہی ہیں۔ ملک کے 200 سے زائد اضلاع، 10 ریاستیں مکمل طور پر ماؤنواز آزادی پسندوں کے کنٹرول میں ہیں۔ وہاں بھارتی حکومتی ”پر” تک نہیں مار سکتی۔ اس صورت حال کے باوجود بھارت کی اپنے پڑوسیوں کے ساتھ سلوک کی حالت یہ ہے کہ سوائے 6لاکھ آبادی رکھنے والے بھوٹان کے ہر کسی کے ساتھ اس کی چپقلش اور مخاصمت ہے۔ چین تک اس سے پریشان ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر