... loading ...
حمیداللہ بھٹی
روس کے مختلف ریجنز اور یوکرین کے الحاق شدہ علاقوں میںصدارتی انتخابات کا تین روزہ عمل اتوارکو مکمل ہوگیا جس کے نتائج کے مطابق اکہتر سالہ ولا دیمیر پیوٹن نے پانچویں بار صدارتی انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کر لی ہے ۔یہ کامیابی ممکن ہے چند ایک ممالک کے لیے غیر متوقع ہو مگر روسی شہریوں کی توقعات کے عین مطابق ہے ۔ووٹروں نے پیوٹن کی پالیسیوں پر ایک بار پھر اعتماد کیا ہے جس کے نتیجے میں وہ روس کے صدر کی حیثیت سے مزید چھ برس یعنی 2030 تک صدارتی فرائض سرانجام دینے کے قابل ہوچکے ہیں۔
اگر طویل عرصہ حکمرانی کے حوالہ سے دیکھیں تو روس کی دو سو سالہ تاریخ میں جوزف اسٹالن کے بعد طویل عرصہ حکمرانی کرنے ولے پہلے رہنما بن گئے ہیں۔ یہ ایک منفرد ریکارڈ اُن کے حصے میں آیاہے۔ پیوٹن 1999میں پہلی بار صدر کی حیثیت سے اقتدار میں آئے جس کے بعد سے مسلسل منتخب ہورہے ہیں۔ حالیہ صدارتی انتخاب میں ووٹرز کا ٹرن آئوٹ 67فیصد رہا جس سے عیاں ہے کہ شہریوں نے ووٹ ڈالنے کے عمل میں بھرپور حصہ لیا۔ صدرمنتخب ہونے کے لیے امیدوار کو پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرناضروری ہے ۔حالیہ انتخاب میں پہلی بار آن لائن ووٹنگ کی سہولت بھی دی گئی۔ مدمقابل تین امیدوار وں کو پیوٹن نے بھاری اکثریت سے پچھاڑ دیا۔ پیوٹن جنھیں گزشتہ الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کا 76فیصد ملا ۔حالیہ انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی مقبولیت میں کمی کی بجائے اضافہ ہواہے ۔اسی لیے 87فیصد سے زائدووٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔ بھاری اکثریت سے جیت پر نو منتخب صدر خوش ہیں اور شہریوں کا شکریہ ادا کیاہے۔ حالیہ نتائج سے ایک بار پھر تصدیق ہوئی ہے کہ شہریوں کی اکثریت اپنے ملک کی عظمت رفتہ بحال کرنے کے لیے پیوٹن کی حکمتِ عملی کو پسند کرتے ہیں۔ حالیہ انتخابات سے یہ بھی عیاں ہو گیا ہے کہ بیرونی تعلقات کے حوالے سے روس کی پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں اور چین کے اشتراک سے امریکہ کے لیے چیلنج بننے کی روش پر گامزن رہے گا ۔
پیوٹن کی کئی ایک ایسی پالیساں ہیں جنھیں سراہا نہیں جا سکتا انھوں نے مخالف امیدواروں کے خلاف جائز و ناجائز حربے آزمائے اہم اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی گزشتہ ماہ آرکٹک کی ایک جیل میں پُراسرار طور پر جاںبحق ہو گئے جن کے ہزاروں حامی ابھی تک غم و غصے سے مشتعل ہیں۔ حالیہ انتخاب کے دوران انھوں نے پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ضائع کرکے علامتی احتجاج کیااور محض چندایک ہی نے پیوٹن کے مخالف امیدواروں کو ووٹ دیا مگر ہزاروں ووٹروں کی طرف سے علامتی احتجاج کے طور پر ہی سہی ووٹ ضائع کرنے کے عمل سے پیوٹن کی جیت بھاری اکثریت سے یقینی ہوئی لیکن حالیہ جیت میں ایک اور حکمتِ عملی کو بھی مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ نو منتخب صدر کے تمام بڑے حریف یا تو موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ کچھ قید میں ہیںجبکہ بقیہ روس میں عرصہ حیات تنگ ہونے کی بناپرجلاوطنی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہیں ۔اِن حالات کی روشنی میں جیت کے بارے میں کسی کو کوئی شک ہی نہیں رہا تھا۔ فوج کو افرادی قوت مہیا کرنے والے واگنر گروپ کے سربراہ کو بھی دوران پرواز نشانہ بنا کر حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ اِس بارے میں اکثر واقفان کاکہناہے کہ طیارے کو زمین سے نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا جس کی بناپرپیوٹن کے صدارتی کردارکو بے داغ نہیں کہہ سکتے ۔مگر ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ کوئی بھی انسان بخوشی اقتدار سے دستکش نہیں ہوتا بلکہ اقتدار و اختیار پاس رکھنے کے لیے ہاتھ پائوں مارناانسانی جبلت میں شامل ہے ۔مگر حریف کی جان لینا ،بے گناہ کو پابند ِ سلاسل رکھنایاجلاوطنی اختیار کرنے پر مجبورکردینا بیمار ذہنیت کی عکاس ہے ۔شاید یہ سفاکی پیوٹن کوکے جی بی سے ورثے میں ملی ہے ،جہاں ماضی میں وہ بطور لیفٹیننٹ کرنل جیسے اہم عہدے پربھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ اسی لیے رویے میں لچک کی کمی ہے اوروہ ہر بات پر نہ صرف اڑ جاتے ہیں بلکہ اپنی بات منوانے کے دوران کسی نقصان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔
بظاہر لگتا ہے کہ انھیں اپنے رویے کی سختی کا احساس نہیں اور وہ اِس پر ہی خوش ہیں کہ نہ صرف پانچویں بار ریکارڈ ووٹوں سے کامیابی حاصل کر لی ہے بلکہ طویل حکمرانی میں اسٹالن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اندازہ ہے کہ مستقبل میں وہ روس کے بیرونی کردار کو وسعت دینے کی کوششیں جاری رکھیں گے اور اِس دوران نئے محاذبھی کھولنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اب بھی صدارتی دوڑ میں شامل تمام امیدوار ماسکو حکومت کی پالیسیوں کے حامی نظر آئے اور کوئی ایک بھی کیوںعوامی حلقوں میں پیوٹن کی پالیسیوں پر تنقید کا حوصلہ نہیں کر پایا ؟ عوامی نفرت کا خدشہ دامن گیر رہا یا ماسکوحکومت کے عتاب کاخطرہ مول لینے کی کوئی جرات نہیں کر سکا؟ ایک بات طے ہے کہ پیوٹن کی ملک پر مضبوط گرفت ہے اور مقبولیت کے حوالے سے انھیں کوئی چیلنج درپیش نہیں۔
روسی صدر کی کامیابی پر دنیا کا ردِ عمل ملا جلا ہے روس کے حامی ممالک کامیابی پر خوش ہیں کیونکہ پالیسیوں کا تسلسل قائم رہنے کی اُمید ہے تو ناخوش ممالک کی بھی کمی نہیں ۔خاص طورپریورپ اور یوکرین کے لیے یہ کامیابی ڈرائونا خواب ہے کیونکہ اُنھیں خدشہ ہے کہ پیوٹن کی اقتدار پر مضبوط گرفت سے روس و یوکرین تصفیے کی امیدیں دم توڑ سکتی ہیں۔ نیز روس کا موقف مزید سخت اور بے لچک ہو سکتا ہے۔ ابھی رواں ماہ ہی روس کی طرف سے جوہری جنگ کے امکان کا اشارہ دیاجا چکا ہے۔ یورپی اقوام کو مستقل خوف میں زندگی بسر کرناقابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے یوکرین جنگ میں روس کی مخالفت میں سبھی متحد ہیں ۔یوکرینی صدر ولا دیمیرزیلنسکی جو ایک سابق اداکار ہیں نے روسی انتخابات کو دھوکہ دہی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نومنتخب صدر ایک آمر اور اقتدار کے نشے میں دھت شخص ہے جس نے جعلی انتخاب جیتا غصے کی شاید ایک وجہ یہ ہے کہ صدارتی انتخاب میں پہلی بار خیرسون اور ڈومینسک و دیگر ایسے علاقوں میں بھی ووٹنگ کرائی گئی جن پر روس نے یوکرین سے جنگ کے دوران قبضہ کر لیا ہے ۔برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے بھی نتائج کو آزادانہ و منصفانہ تسلیم کرنے کی بجائے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوکرین کی سرزمین پر غیر قانونی ووٹنگ کرائی گئی ۔
امریکہ بھی روس میں ایسی تبدیلی کا خواہاں ہے جویورپ اور اُس کے لیے کسی قسم کے خطرے کا باعث نہ ہو، اسی لیے عمررسیدہ پیوٹن کے ذہنی توازن پر سوالات اُٹھائے جاتے ہیں مگر عمررسیدہ کہتے ہوئے امریکی قیادت یہ بھول جاتی ہے کہ وہ خود بھی کوئی نوجوان نہیںبلکہ پیوٹن سے بھی عمررسیدہ ہے ۔امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن 81سالہ ہیں وہ روسی ہم منصب کو قاتل ،آمر،قصائی ، جنگی مجرم کا لقب دینے کے بعد اب ٹھگ کہہ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں رواں برس پانچ نومبر کو اُن کا مقابلہ 77سالہ حریف ڈونلڈ ٹرمپ سے ہے جن کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔ اسی لیے پیوٹن کو عمررسیدہ کہنے میں نفرت کے جذبے کے علاوہ کچھ اور سمجھ نہیں آتا۔ اقتدار کسے دینا ہے اور کسے نہیں یہ فیصلہ کرناکسی بیرونی قوت کا نہیں بلکہ روس کے ووٹروں کا کام ہے۔ بہتر یہی ہے کہ صدارتی انتخابی نتائج پر تبصرے کرنے اور ہدفِ تنقید بنانے کی بجائے امریکہ ،برطانیہ اور یورپ دنیا کو پُرامن بنانے میں کردار ادا کریں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ محاذ آرائی بڑھانے میں دلچسپی لی جاتی ہے تو روس اپنے اتحادی چین کے ساتھ مل کر زیادہ سخت اقدامات کر سکتا ہے۔ یوکرین جنگ کی وجہ سے لگنے والی پابندیوں کا سامناوہ کر چکا اِس لیے مزید سخت اور جارحانہ اقدامات سے مخالف ممالک کو پریشان کرنے کا عمل جاری رکھ سکتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں واضح اکثریت پیوٹن کو روسی عوام میں حاصل مقبولیت کی تصدیق ہے جب تک عوامی مقبولیت حاصل ہے، بیرونی تبصروں یا ہرزہ سرائی سے اُنھیں مقاصد کے حصول سے ہٹایا نہیں جا سکتا ۔