... loading ...
رفیق پٹیل
جمہوریت انسانی حقوق کے بغیر بے جا ن اور بے روح ہے۔ ا قوام متحدہ نے جمہوریت کی تشریح کچھ اس طرح کی ہے کہ ” جمہوریت کے معنی ایک ا یسا ماحول ہے جہا ں ا نسا نی حقوق اور بنیا دی آ زا د ی کا احترام ہو، آزادی ا ظہا ر ہو اور عوا می خواہشات کی عمل داری ہو ”۔ انگریزی لفظ (Democracy) دو یونانی ا لفاظ ڈ یموز ( عوا م ) اور کرا شیا ( حا کمیت ) سے لیا گیا ہے۔ ا مریکی آئین کے بانی جیمز میڈیسن کا کہنا تھا کہ ”ا ٹھارویں صدی تک یہ تصو ر کیا جاتا تھا کہ عوامی حاکمیت تباہی اور بربادی کا باعث ہوتی ہے لیکن بر طانیہ میں بادشاہت کے خاتمے ا ور جمہو ریت نے ثا بت کر د یا کہ عو امی خواہشات پر مبنی نظا م ہی بہتر ہوتا ہے”۔ پاکستا ن کے موجودہ حکمر ا ن کے ا طوا ر ظا ہر کرتے ہیں کہ وہ پا کستا ن کو ا ٹھا رویں صدی کی جا نب دھکیل رہے ہیں جہا ں با دشاہت کا نظا م تھا اور حاکمیت صر ف ا ن کی ا ولا دوں کو ورا ثت میں ملتی تھی۔ پا کستا ن میں جتنے بھی جمہوری دور گز رے ہیں، اس میں جمہور یت کمزور ہی رہی ہے۔ مو جود ہ ا نتخا بات سے قبل تک پاکستا ن کی جمہوریت نیم مردہ تھی لیکن موجودہ ا نتخا بی دھا ند لی ا سے ا یک ا یسے نظا م کی جانب لے جا رہی ہے جسے نہ با دشا ہت کہا جا سکتا ہے نہ ہی یہ جمہو ریت کہلا نے کے قا بل ہے۔
ا گر آٹھ فرور ی کے انتخابی نتا ئج کو بغیر دھا ند لی کے تسلیم کر کے کوئی راہ نکا ل لی جا تی تو ملک جمہوری راستے پر دو بارہ گا مز ن ہوسکتا تھا۔ لیکن ان نتائج کو تسلیم نہ کرکے دھاند لی سے اقتد ار حا صل کرکے مسلم لیگ ن، پی پی اور ایم کیو ایم نے وقتی فوا ئد کے لیے ا پنا سیا سی مستقبل تاریک کر لیا ہے۔ ا ن جماعتوں کے رہنما ئوں پر عہد وں کی شان و شوکت ، دولت اور ا قتد ا ر کی کشش کے علاوہ مخا لف کا خو ف غا لب ہے اورانہوں نے ملک کو ایک ا یسی تا ریک را ہ کی نا معلوم منزل کی جا نب گا مز ن کر د یا ہے جس کے نتا ئج بہت خوفناک ہو سکتے ہیں ۔شاید ہی کوئی ا یسی محفل ہوگی جہاں ا نہیں برا بھلا نہ کہا جا رہا ہو، جہاں چار لوگ جمع ہوتے ہیں دھا ند لی زدہ ارکان کی برا ئی شروع ہو جا تی ہے۔ یہ سلسلہ بڑھ کر ان کے ملا زمین خاند ا ن کے ا فرا د تک پھیل رہا ہے۔ اب ا انسا نی حقوق کی مزید پاما لی جلتی میں تیل کا کام کرے گی۔ ا ور وہ مزید عوا می نفرت کا شکار ہونگے۔ اس مرتبہ لوگوں نے کھلی آنکھوں سے دھاند لی ہوتے دیکھ لی ہے اور وہ اسے بھولنے کو اس لیے تیار نہیں ہے کہ ا ن کی امید دم توڑ رہی ہے۔ جمہوریت سے عوام کے اعتما د کے خاتمے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ا نہیں غلط راہ پر لگا یا جا رہا ہے ۔آ ج کے دور میں معا شرہ کسی بڑی افرا تفری ا ور فسا د ا ت کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ا گر معاملات کو سنبھا لا نہ گیا تو ا ند ر ہی ا ند ر جنم لینے والا یہ طوفان پھٹ پڑ ے گا۔ یہ طوفان پا کستا ن کی سرحد وں سے نکل کر پو رے خطے کو لپیٹ میں لے لے گا۔ خطے کے امن کا تقا ضا یہی ہے کہ پاکستا ن انسانی حقوق کی پاسداری کر کے ایک مثا لی جمہوری فلاحی ریا ست کے طور پر کام کرے۔ یہ ا یک مشکل سفر ہے لیکن اس کا آ غا ز سچ کو تسلیم کرکے ہی کیا جا سکتا ہے ۔خود بیرونی قوتوں خصو صاً بھا رت کو بھی پاکستا ن کے عوا م کی خواہشا ت کا احترام کرنا چا ہئے اور اگر کسی کا پاکستا ن میں تباہی پھیلانے کا کوئی ا یسا ایجنڈ ا ہے تو ا سے ترک کرنا چا ہیے ۔پاکستان میں تباہی پھیلانے یا ا سے تقسیم کرنے سے کسی بھی بیرونی قوت کو کوئی فا ئدہ نہیں ہوگا ۔ا نسا نی حقو ق پر مشتمل فلا حی جمہوری ریا ست ہی خطے ا ور عالمی امن کے لیے بہتر راہ فراہم کرے گی ۔مو جودہ جعلسا زی پر مشتمل نظا م کا ہر لمحہ پاکستان کو جمہوریت سے مزید دور ا ور انسا نی حقو ق کی پامالی کی جا نب لے جا رہا ہے ا ور عو ا م میں بے چینی کا باعث ہے۔ پاکستان کی حکمر ا ں جما عتو ں کو ا ب اس بات کا جلد ا ند زہ ہو گا کہ عو ا م انہیں ا قتد ا ر سے با ہر کسی حد تک قبول کر رہے تھے لیکن جعلسا زی سے اقتد ا ر کے حصول کو قبو ل نہیں کر رہے ہیں ۔یہ ا و ر بات ہے کہ بر سر ا قتد ا ر ا فرا د کی ذا تی زندگی عیش و عشر ت پر مشتمل ہو گی ا ور ا ن کے ما ل و دولت میں ا ضافہ جا ری رہے گا ۔
مو جو دہ نظا م کسی صورت بھی عوا می امنگو ں کی عکا سی نہیں کرتا مو جو دہ دورمیں ملک کی ترقی کا آ سا ن فا ر مولہ ا قوا م متحد ہ نے وضع کرد یا ہے جس کو دنیا بھر کے مما لک کے ماہرین نے تیا ر کیا جس کے ذریعے ایک عا م تعلیم یافتہ شخص بھی بر سر ا قتد ا ر آکر ملک کو ترقی یا فتہ ملک میں تبد یل کر سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس فارمو لے پر من و عن عمل درآ مد کیا جا ئے۔ یہ ایک تفصیلی دستا ویز ہے جسے ا قوا م متحد ہ کی اچھی حکمرانی کی رپو ر ٹ میں دیکھا جاسکتا ہے جس میں شامل لوا زمات میں عوامی خواہشات کی تر جما ن حکومت، رشوت اور بد عنوا نی کا خا تمہ ، با اختیا ر بلد یا تی نظا م ( مقامی حکو متیں ) میر ٹ پر بھر تی ا ور ترقی ، آزا د اور غیر جانب دار عد لیہ ، مو ثر پولیس کا ا دارہ قانون کی بالا دستی وغیرہ شامل ہیں ۔بد قسمتی سے مو جو د ہ بر سر اقتد ا ر سیا سی جماعتیں ا س کے بر عکس سو چ رکھنے کی وجہ سے ان ا قد ا ما ت پر عمل کر نے سے قا صر ہیں۔ اس کی بنیا دی وجہ ان جماعتوں کے رہنما ئو ں کی سو چ ہے جو ا نفرا دی فوا ئد پر مشتمل ہے۔ وہ اجتماعی اور عوامی مفادات کو خو د کے لیے نقصا ن دہ تصو ر کرتے ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں انسانی حقوق اور جمہوریت خا تمے کے آ ثار ہیں۔