وجود

... loading ...

وجود

نازک موڑ پر خط

پیر 18 مارچ 2024 نازک موڑ پر خط

میری بات/روہیل اکبر
پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے اور جلد عوام خوشحال اور پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائیگا ۔یہ سنتے سنتے ہم بچپن سے جوانی اور اب جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں لیکن یہ نازک موڑ گزرنے کا نام تک نہیں لے رہا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جو ہمیں اس لفظ کی گردان سنانے والے حکمران ہیں،وہ کب کے ترقی اورخوشحالی کی منزل عبور کرکے اپنی خوشحالی کے جھنڈے دنیا بھر میںگاڑ چکے ہیں۔ان کے اداروں نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرلی۔ ان کے مقابلہ میں سرکاری ادارے خسارے میں جاتے جاتے بند ہوگئے اور کچھ بیچ دیے گئے۔ رہے سہے اب بکنے کے لیے تیار ہیں۔ حکمرانوں کا سرمایہ پاکستان کے مجموعی قرضے سے کئی گنا زیادہ ہو چکا ہے اور ہمیں آئی ایم ایف کے قرضہ کی واپسی کے نام پر قربان کیا جارہا ہے۔ غربت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کے پاس سحری اور افطاری کا بھی انتظام نہیں ہے۔ ایک طرف ٹیکسوں کی بوچھاڑ ہے تو دوسری طرف بے رزگاری حد سے زیادہ بڑھتی جارہی جبکہ مہنگائی کا دبائوپاکستان کے مستقل کے لیے تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے۔ شہریوں کی قوت خرید متاثر ہو رہی ہے اور اوپر سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے جو پہلے سے بڑھے ہوئے گھریلو بجٹ پر اضافی بوجھ بن چکا ہے جبکہ حکومتی مالی خسارہ حالیہ برسوں میں وسیع ہوتا جا رہا ہے جو پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے ۔ بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو کے ساتھ پاکستان کے بیرونی شعبے کو بھی چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ ہماری انڈسٹری بند ہوتی جارہی ہے پیدواری کارخانے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیںہر چیز باہر سے منگوانا پڑ رہی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ برآمدات کو بڑھانے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور برآمدات کی آسانی کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔ اس کے ساتھ ساتھ زراعت، توانائی اور تعلیم جیسے اہم شعبوں میں انقلابی تبدیلیاںلائی جائیں جبکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھانے اور ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں شفافیت اور گڈ گورننس سب سے اہم ہیں۔
عالمی مندی کے درمیان پاکستان کے معاشی چیلنجوں میں استحکام اور فروغ کی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے تیز اور جامع اصلاحات کی ضرورت ہے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر، حکومت کو معاشی کمزوریوں کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے اور زیادہ لچکدار اور خوشحالی کی منزلیں طے کرنا ہوں گی پاکستان کو پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ پر کھڑا کرنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے اس وقت پاکستان کے سرمایہ کار بھی سخت مشکل میں ہیں اور گزشتہ روز تک حکومتی اعدادوشمار کے مطابق اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کی وجہ سے سرمایہ کاروں کے 44ارب19کروڑ ڈوب گئے۔ اس صورتحال میںپاکستان میں سرمایہ کاری کون اور کیسے کریگا ۔شاید اسی نازک موڑ اور نازک صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کاشف انور نے لاہور چیمبر کے سابق صدر اور موجودہ وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کے نام ایک جامع خط لکھا ہے جس میں ٹیکس دہندگان کو درپیش اہم مسائل کو اجاگر کرنے اور اضافی ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے سہولت فراہم کرنے پر زور دیا ہے انہوں نے خط کی کاپی وفاقی وزیر خزانہ اور چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی ارسال کی ہیںصدر لاہور چیمبر نے اپنے خط میںلکھا ہے کہ SRO 350 (I) 2024کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی حالیہ ترامیم ٹیکس دہندگان اور نجی شعبے کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔ الیکٹرانک ریٹرن فائل کرنے کے لیے اگر آئی سیلز سرمائے سے پانچ گنا بڑھ جاتی ہے یا تیس دنوں کے اندر بیلنس شیٹ جمع نہ کرائی جائے توانٹیگریٹڈ رسک انفارمیشن سسٹم کے ذریعے کمشنر کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ عمل ٹیکس دہندگان کے لیے غیر ضروری مشکلات پیدا کرے گا اور انہیں ٹیکس نیٹ سے باہر جانے پر مجبور کرے گا۔ اسی ایس آر او کی دفعات کے تحت، فروخت کنندہ کی جانب سے مقررہ تاریخ تک ریٹرن جمع کرانے میں ناکامی کے نتیجے میں خریدار کی واپسی میں ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔ انٹیگریٹڈ رسک انفارمیشن سسٹم بعد میں غیر تعمیل کرنے والے بیچنے والے سے رسیدیں ختم کردے گا اور اسی طرح خریدار کی واپسی سے ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کاٹ لے گااور خریدار کی ٹیکس کی ذمہ داری کا حساب بقیہ انوائسز کی بنیاد پر کیا جائے گا اس طرح ان پر غیر ضروری مالی بوجھ پڑے گا اور ان کی سیلز ٹیکس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے SRO 1842 (I)2023 مورخہ 21.12.2023 کی بھی نشاندہی کی جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ریٹیلر جس کا انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 236H کے تحت کٹوتی ود ہولڈنگ ٹیکس ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے وہ پوائنٹ آف سیل سسٹم کے ساتھ ضم کرنے کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس طرح پوائنٹ آف سیل انضمام کے لیے ریٹیلرز کی فروخت کو 20 ملین روپے تک محدود کر دیا ہے جبکہ روپے کی قدر میں کمی اور افراط زر کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ریٹیلرز کے لیے ود ہولڈنگ ٹیکس کی یہ حد 500,000/-روپے سے کم نہیں ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو آسانی سے چلا سکیں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ریٹیلرز کے لیے پچھلے بجٹ میں 1000مربع فٹ کے احاطہ میں پوائنٹ آف سیل انضمام کی شرط کو واپس لے لیا گیا ہے جبکہ ایک عدد دکان کے ریٹیلرز جن کے پاس ایک این ٹی این ہے۔ انہیں پوائنٹ آف سیل انضمام سے مستثنیٰ ہونا چاہیے۔ دستاویزات کو فروغ دینے اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے حکومتی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کاشف انور نے موجودہ پالیسیوں کے غیر ارادی نتائج کی نشاندہی بھی کی جن سے ٹیکس دہندگان کو دبانے اور معاشی سرگرمیوں کو روکنے کا خطرہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لاہور چیمبر اسٹیک ہولڈرز اور حکومتی اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی کوششوں پر زور دیتا ہے کہ وہ ایسی جامع پالیسیاں وضع کریں جو کاروبار کی توسیع کو فروغ دیتے ہوئے ٹیکس کی تعمیل کو ترغیب دیں۔ ٹیکس دہندگان کی سہولت اور معاشی بحالی کو ترجیح دینے والے فعال اقدامات کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر