... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
جس معاشرے میں دو چیزیں معمول سے زیادہ ہوں، وہ دنیا کا مثالی ملک اور خوبصورت معاشرہ ہوتا ہے۔ ان دو چیزوں میں ایک صفائی اور دوسرا علم ہے اور یہی ہمارے دین کا بنیادی سبق اور فلسفہ بھی ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے اور تعلیم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے لیکن بدقسمتی سے ہم ان دونوں چیزوں میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اپنے حلف کے بعد پورے صوبے میں صفائی کا حکم دیا تاکہ ہمارے شہر خوبصورت اور دیہات جگمگ کرنا شروع کردیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے روایتی سرکاری ملازموں نے ان کی یہ بات بھی حسب توقع ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال باہر پھینکی ۔اس وقت وزیر اعلیٰ مریم نوازکا حلقہ اور وفاقی وزیر نجکاری علیم خان کا حلقہ ہی مثال بنا لیتے ہیں۔ آپ شالا مار باغ سے جی ٹی روڈ اور گڑھی شاہو سے ہوتے ہوئے لاہور پریس کلب شملہ پہاڑی تک آجائیں راستہ میں مٹی اور دھول کے ساتھ ساتھ گندگی بھی نظر آئے گی۔ موٹر سائیکل والوں کے لیے اگر ہیلمٹ کی پابندی نہ ہوتی تو وہ گھر تک پہنچتے پہنچتے پہچان سے باہر ہو جائیں۔ رہی بات ساتھ گلی محلوں کی وہاں کا تو حشر نشر ہوچکا۔شہریوں کے دروازوں کے باہر کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی(ایل ڈبلیوایم سی ) نے اپنی وزیر اعلیٰ کے الفاظ کا مطلب الٹ سمجھ لیا ۔حالانکہ مریم نواز نے تو پنجاب کے ہر ضلع میں صفائی کے مقابلے کا اعلان کیا تھا۔
لاہور چونکہ دارالحکومت ہے صوبے کا اور پوری حکومت یہاں موجود ہے۔ اگر لاہور ہی گندا ہوگا تو باقی شہروں کا کیا حال ہوگا؟ یہ نہ صرف اسلام کے احکامات کے خلاف بلکہ ہماری اپنی صحت بھی اس گندگی سے متاثر ہوتی ہے۔ لاہور رنگ رڈپر سفر کرنے والے اور بالخصوص محمود بوٹی علاقہ کے آس پاس رہنے والے اس بدبو سے پتا نہیںتنگ ہونگے یا نہیں لیکن ان گندگی کے ڈھیروں سے بخوبی واقف ہونگے جو دور سے ہی نظر آتے ہیں۔ یہ سب ایل ڈبلیو ایم سی کا کیا ہوا ہے ،اس کمپنی میں افسران اور ملازمین کی بھر مار ہے جو ہر ماہ لاکھوں روپے تنخواہیں وصول کررہے ہیں ۔بعض گھوسٹ ملازمین کی تنخواہیں بھی انکی جیبوں میںجارہی ہیں۔ شہر میں صفائی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور (سی ڈی جی ایل) نے 19 مارچ 2010 کو کمپنیز آرڈیننس 1984 کے سیکشن 42 کے تحت لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی قائم کی تھی۔ اس کمپنی کے قیام کے بعد CDGL اور ایل ڈبلیو ایم سی کے درمیان ایک سروسز اور اثاثہ جات کے انتظام کا معاہدہ بھی ہوا تھا۔ جس کے مطابق (SAAMA)، SWM ڈیپارٹمنٹ (CDGL) اور TMAs کے تمام افعال اور اثاثے ایل ڈبلیو ایم سی کو سونپ دیے گئے۔ ایل ڈبلیو ایم سی کا مقصد سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا ایک مربوط نظام تیار کرنا تھا۔ تاکہ لاہور میں پیدا ہونے والے کچرے کو موثر طریقے سے جمع کرنے، نقل و حمل، بازیافت، ٹریٹمنٹ اور ٹھکانے لگانے کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایل ڈبلیو ایم سی کی کارکردگی کو بڑھانے کے لیے کمپنی میں مختلف شعبوں کے تجربہ کار پیشہ ور افراد کی خدمات بھی لاکھوں روپے اور بہت سی مراعات کے عوض حاصل کی گئی ہیں مگر مراعات یافتہ طبقے نے لاہور کے سینٹری ورکروں کو جھاڑو تک لیکر نہ دیے سینٹری ورکر اپنے خرچے سے ٹوٹے ہوئے اور بکھرے ہوئے جھاڑولیکر اس سے صفائی کرتے رہے اور پھر اوپر سے ظلم کی انتہا کہ ان کی معمولی تنخواہوں میںسے بھی کٹوتی کی جانے لگی جب انہوں نے اس ظلم پر بات کی تو پھر انکی تنخواہیںتک بند کردی گئی جسکے بعد سیکڑوں سینیٹری ورکرز نے کمپنی کی انتظامیہ پر الزامات کی بھر مار کرتے ہوئے شدید احتجاج بھی کیا ۔جس پر اعلیٰ حکام نے کھانے کے لیے دیے گئے وقفوں کی اجرت میں سے کٹوتی، اوور ٹائم کام اور چھٹیوں کا کام بغیر ادائیگی کے اور دیر سے حاضری کو کام پر رپورٹ نہ کرنے سمیت خوامخواہ کی کٹوتیوں کی شکایت کے ازالے کا وعدہ بھی کیا جو ابھی تک وعدہ ہی ہے۔
ہمارا کوڑا ہمارے لیے مصیبت بنا ہوا ہے سفر کرنے والے لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ وہ جب کی کسی شہر کے داخلی راستے پر پہنچتے ہیںتو وہاں پر کوڑے کے ڈھیر ان کو خوش آمدید کہتے ہیں جو بارشوں کے موسم میں ایسی ایسی بدبو چھوڑتے ہیں کہ ناک بند بھی کرلیں تو وہ بدبو پیچھا نہیں چھوڑتی ۔بارشوں کے موسم میں لاہور کے گٹر ابل رہے ہوتے ہیں۔ سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہوتی ہیں اور ہمارے محلوں میںپانی ہی پانی ہوتا ہے اور رہی سہی کسر ہم لوگ بھی پوری کردیتے ہیں کہ اپنے گھر کا کوڑا سڑک میں پھینک دیتے ہیں یا جاتے جاتے کسی اور کے دروازے کے قریب رکھ جاتے ہیں جبکہ چائنا اور ترکی کوڑے سے بجلی ،گیس اور کھاد بنا رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے بھی اس پراجیکٹ پر روپے کا ڈھیر جلادیا لیکن فائدہ کوئی نہیں ہوا۔ رہی بات علم کی تو اس کے لیے بھی ہمیں حکم ہے کہ چاہے چین بھی جانا پڑے تو علم حاصل کرو لیکن بدقسمتی سے ہم نے علم پر بھی توجہ نہیں دی جو علم حاصل کرکے ہم پی ایچ ڈی کرتے ہیں اور پھراس کے بعدڈگریوں کا بنڈل اٹھا کر اسکے لائن میں لگ کردرجہ چہارم کی نوکری کے لیے سفارش ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کو رٹے پہ رٹہ لگانے کی تربیت دیکر پورے نظام کا بیڑہ غرق کردیا ہے ہماری حکومت نے اگر اس پر فوری توجہ نہ دی تو پھر ہمارا پستی میں کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہوگا ۔ان دونوں بگڑے ہوئے کاموں کو ٹھیک کرکے ہم بھی دنیا کی صاف ستھری اور باشعور قوموں میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے وہ بندہ چاہیے جو اس کام کو سمجھتا ہو ،عقل و شعور والا ہو اور اسکا سابقہ ریکارڈ بھی منفرد ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود ان چیزوں کا عملی نمونہ بھی ہو اور میری نظر میں اس وقت دو افراد اس کام کے لیے نہ صرف موزوں ہیں بلکہ بہترین ثابت ہونگے ان دونوں افراد کا ماضی اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ آج جو معاشرے میں چند سہولیات ہیں وہ انہی لوگوں کی بدولت ہیں ان میں ایک خواجہ احمد حسان ہیں جنہیں ایل ڈبلیو ایم سی کو درست کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے اور دوسرا صوبے کا چہرہ نکھارنے کے لیے نکھرے ہوئے انسان محی الدین وانی کو پنجاب کا چیف سیکریٹری بنادیا جائے۔ ان دونوں خوبصور ت لوگوں کے اتنے زیادہ کارنامے ہیں کہ جنکا شمار نہیں ۔ لاہور کی میٹرو بس اور اورنج لائن صرف یہ دو کارنامے ہی خواجہ احمد حسان کی سی وی ہیں جبکہ محی الدین وانی نے بطور چیف سیکریٹری گلگت بلتستان اور اب اسلام آباد میںتعلیم کے حوالے سے جو کام کرڈالے ہیں وہ ہماری آنے والی نسلوں پر احسان ہے۔ یہ ان دونوں افراد کے معمولی کام ہیں اور مریم نواز نے پنجاب کے حوالہ سے جو خواب دیکھ رکھے ہیں ان کی تعبیر ان کے سامنے ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وانی صاحب کو پنجاب کاچیف سیکریٹری بنا کر خواجہ صاحب کو ان کے ساتھ نتھی کردیا جائے ورنہ خواب بکھرنے میں چند سیکنڈ ہی لگتے ہیں ۔