... loading ...
جاوید محمود
جب کوئی قوم اپنے مرکز سے ہٹ جاتی ہے تو پھر تتربتر ہو کے بکھر جاتی ہے۔ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے ہالی وڈ سے متاثر ہو کے اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے بالی وڈ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت دنیا میں ہالی وڈ اور بالی وڈ کا سخت مقابلہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فلمیں اور ڈرامے معاشرے پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔امریکہ میں ماہر نفسیات اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اسکولوں میں جو سینکڑوں فائرنگ کے واقعات رونما ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں بچے ہلاک اور زخمی ہوئے ۔تحقیقات کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جن بچوں نے اسکولوں میں فائرنگ کی وہ کسی نہ کسی ایکشن فلم سے متاثر ہونے کے بعد اپنی حقیقی زندگی میں اس کی کاپی کر کے دیکھنا چاہتے تھے ۔بھارت میں بھی ایکشن فلمیں بنتی ہیں لیکن ان کی فلموں میں مغربی تہذیب کو اپنانے کے ساتھ ساتھ سیکسی ڈانس دکھانے کے ساتھ ساتھ ریپ سین بھی معمول کے مطابق دکھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ریپ کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دو برس قبل اتر پردیش میں ایک 19 سالہ دلت ذات کی لڑکی سے چار اونچی ذات کے مردوں نے اجتماعی زیادتی کی۔ اس واقعے کے بعد بھارت میں وسیع پیمانے پر غم و غصہ پایا گیا اور اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی کہ بھارت میں خواتین کے خلاف کس قدر جنسی تشدد کا رجحان ہے۔ اس خاتون کو کئی چوٹیں آئیں اور 14 دن کے بعد وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گئی ۔اس پر ستم یہ کہ پولیس نے فیملی کو کچھ بتائے بغیر رات کے اندھیرے میں دفن کر دیا۔ واضح رہے یہ اکیلا واقعہ نہیں ہے جس نے بھارت میںسنسنی پھیلا دی۔
جنسی زیادتیوں کی سنگین حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے تھامس رائٹرفاؤنڈیشن کے 2018کے سروے میں بھارت کو خواتین کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا۔ بھارت میںبالی ووڈ نے جو منفی اثرات چھوڑے ہیں، اس کا اندازہ ان اعداد و شمار سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے ۔بھارت میں 2013میں 33,707خواتین کوجنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 2014 ، 2015، 2016، 2017، 2018 اور 2019 میں بالترتیب 36,735، 34651، 38,947،32,559، 33,356 اور 32,033ریپ کے واقعات رپورٹ کیے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ماہرین اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار حقیقت پر مبنی نہیں۔ یہ انتہائی کم ریکارڈ پر ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پولیس کا سلوک انتہائی شرمندہ کرنے والے سوالات ہیںجس کی وجہ سے خواتین پولیس اسٹیشن نہیں جانا چاہتی ہیں۔ حکومت نے موت کی سزا کا قانون اس لیے بنایا تاکہ اس پر عمل کرنے کے بعد ان واقعات کا خاتمہ ہو لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سزا کی ناقص شرح ہے۔ 2018 اور 2019 میں ہونے والی عصمت دری کے مجرموں میں صرف 30فیصد کو سزا سنائی گئی کیونکہ فاسٹ ٹریک عدالتوں اور تفتیش کاروں میں عدم موجودگی بھی اس کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک نے اپنی خواتین کو پابند کیا ہے کہ وہ تنہا بھارت نہ جائیںپاکستان کو بھارت کی گرتی ہوئی اخلاقی اقدار سے کچھ سبق سیکھنا ہوگا۔المیہ یہ ہے کہ بھارت ہالی ووڈ کو کاپی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے مرکز کو بھول گیا ۔جبکہ پاکستان بھارت کو کاپی کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان بھارت کو کاپی کرنے میں کامیاب ہو گیا تو انجام کیا ہوگا؟ جب انسان دوسرے کا راستہ اپناتا ہے تو پھر وہ اپنا راستہ اکثر کھودیتا ہے۔ جب کوئی ملک بالی وڈ فلموں کی کاپی کرے گا تو وہاں کے شہریوں پر اس کے اثرات پڑیں گے اور جو ہالی وڈ کو کاپی کرے گا تو وہ لوگ ہالی وڈ کے رنگ میں رنگ جائیں گے گزشتہ 10سالوں کا ایرانی فلموں ترکش اور ملائشین فلموں کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ان ممالک کی فلموںنے کئی عالمی ایوارڈ حاصل کیے ہیں ان فلموں میں انہوں نے اپنے کلچر کی ترجمانی کرتے ہوئے فلمیں بنائی ہیں۔پاکستان میں بالی وڈ اور ہالی وڈ دونوں نے پاکستان کے کلچر پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی اکثریت اپنا راستہ چھوڑ کر ان کے راستے پر چل نکلی جس کے منفی اثرات پاکستان معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں۔متنازع اور غیر اخلاقی موضوعات پر مبنی ڈراموں اور فلموں کی عکس بندی معمول بن گئی ہے اور اپنا لباس نظر انداز کر کے نامناسب لباس وہ حرکات بھی آج کل کے ڈراموں اور فلموں کا خاصہ بن چکا ہے جو اندرون بیرون ملک ناظرین کے لیے ذہنی اذیت اور کوفت کا سبب بن رہا ہے۔ سب سے زیادہ شرم ناک بات یہ ہے کہ جائز اور حلال رشتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات کی بھی ترغیب دی جا رہی ہے۔ سسر بہو ،نند سالی، دیور، بھابھی جیسے رشتے میں جن میں نکاح حرام ہے عشق و عاشقی دکھائی جا رہی ہے۔ طلاق اور بے راہ روی کو سانپ کا دودھ پلا کر پورا معاشرہ زہر آلودہ کیا جا رہا ہے۔ بیرونی ممالک میں آباد پاکستانی اپنی نسلوں کو پاکستانی ڈرامے دکھانے سے کتراتے ہیں ۔امریکہ اور مغربی ممالک میں پاکستانیوں کے بچے پاکستانی ڈراموں میں جب برہنہ مغربی ملبوسات اور جائز رشتوں کو ناجائز حرکات کرتے دیکھتے ہیں تو اپنے والدین کے سامنے سوالات کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔مغرب میں والدین اسلامی اور مشرقی روایات اور اقدار کی تعلیم و تربیت دینے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ اسلام کے قلعے پاکستان میں معاشرہ آدھے تیتر آدھے بٹیر کے رنگ میں ڈھل چکا ہے ۔اردو ڈراموں میں انگریزی اور مغربی تہذیب کا احساس کمتری کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ لڑکیوں کی چست جینز اور برہنہ برائے نام شرٹ میرا جسم میری مرضی کے نعرے کی بھرپور ترجمان ہے۔ پاکستان میں مغربی رنگ کے بیہودہ ٹی وی ڈراموں میں فحاشی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ احساس کمتری ،حسد جلن اور مقابلہ کی دوڑ کے سبب ڈپریشن جیسے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دولت کی ہوس دکھا دکھا کر رزق حلال اور قناعت شکر گزاری کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ معاشرے میں لوگوں کے امراض ان کے تعلقات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ پاؤر اور دولت والے کا کتا بھی بیمار ہو جائے تو عیادت کو پہنچ جاتے ہیں اور پاؤر دولت زوال پزیر ہو جائے تو اس کی بھلے ماں مر جائے پھر کوئی مفاد پرست اس کی دہلیز پر قدم نہیں رکھے گا۔
خود غرضی اور مفاد پرستی کی بدترین مثالیں پاکستان میں جا بجا دیکھی جا سکتی ہیں۔بیرون ملک تارکین وطن میں تبدیلی نہیں آئی پاکستان میں بہت تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ تبدیلی بھی منفی آ رہی ہے۔ اخلاق، اخلاص، مروت، برداشت ،صبر و شکر کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ رشتوں میں اپنائیت رہی نہ جدائی کا احساس پہلے جیسا رہا۔ پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والی اس منفی تبدیلی کو تارکین وطن زیادہ شدت سے محسوس کر سکتے ہیں ۔اگر 1979 کے پاکستان سے آج کے پاکستان کا موازنہ کیا جائے تو واضح احساس ہوگا کہ اس وقت اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جن کا ضمیر زندہ تھا جبکہ اب صورتحال یہ ہے کہ بے ضمیر لوگ زیادہ ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ 1979 میں ایک بچی ترنم عزیز کو فیڈرل بی ایریا میں کسی نے زیادتی کرنے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا تھا ۔یہ خبر جیسے ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو چند گھنٹوں میں احتجاج کے نتیجے میں کراچی شہر مکمل طور پر بند ہو گیا تھا ۔ضیاء الحق نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے اپنا ملائیشیاکا دورہ منسوخ کیا اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے پرامن رہنے کی درخواست کی اور وعدہ کیا کہ ایک ہفتے کے اندر مجرموں کو گرفتار کر لیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا ۔مجرموں کو گرفتار کرنے کے بعد جرم ثابت ہونے کے صورت میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
آج کل صورتحال یہ ہے کہ عصمت دری اور بچوں کے ساتھ زیادتی اور انہیں ہلاک کر دینا ایک معمول بن گیا ہے اور اب کہیں سے اف تک کی آواز نہیں آتی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان ان گھناونے جرائم کے حوالے سے عالمی سطح پہ اپنی ساکھ کھو رہا ہے۔ دنیا میں سعودی عرب ایران ایسے دیگر ممالک جہاں سخت قوانین ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں عصمت دری اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں لیکن جو بھی ایسے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں ۔انہیں سر عام پھانسی دی جاتی ہے یا سر قلم کر دیا جاتا ہے۔ تقریبا دو سال قبل یمن میں ہونے والے واقعے کو کون بھول سکتا ہے؟ تین افراد جو بچے کے ساتھ زیادتی کرنے کے جرم میں ملوث تھے۔ پہلے سرعام گولیاں ماری گئی اور پھر بعد میں انہیں کرین کے ہک ساتھ لٹکا کر پورے دن عام پبلک کے دیکھنے کے لیے چھوڑ دیا۔عالمی سطح پر ان کی لٹکی لاشوں کو دیکھا گیا۔پاکستان کے سابق وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ سر عام لٹکانے کی سزا کے حق میں ہیں لیکن وہ یورپین ممالک کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے ایسی سزا نہیں دے سکتے۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے آپ ایک وقت میں دو کشتیوں پر سوار نہیں ہو سکتے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ یورپین ممالک کو خوش رکھیں اور ریاست مدینہ بھی بنا لیں۔ یورپ کی پہلی شرط ہے کہ پہلے میرے رنگ میں اپنے آپ کو رنگوں پھر آپ سے تعلقات بحال ہو سکتے ہیں ۔پاکستان کا معاشرہ جس راہ پر چل نکلا ہے، اس میں ہماری فلموں ڈراموں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مجھے یاد ہے جب مولا جٹ فلم مارکیٹ میں آئی تو کچھ نوجوانوں نے اس کی کاپی کرتے ہوئے قتل کرنا اپنا شغل بنا لیا۔ جب انہیں گرفتار کیا گیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ مولا جٹ فلم سے متاثر ہوئے اور انہوں نے حقیقت میں مولا جٹ بننے کی کوشش کی۔ اگرچہ بعد میں انتظامیہ نے مولاجٹ پر پابندی لگا دی۔
معاشرے کو غلاظت سے پاک کرنے کے لیے کہیں سے تو صفائی شروع کرنی ہوگی اور صفائی بھی ایسی اگر اس کے راستے میں جو کچھ بھی آئے اسے ہٹانے کے لیے کسی قسم کی سودے بازی نہیں کرنی ہوگی۔ چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے۔ تصور کریں امریکہ میں فیملی سسٹم کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ جبکہ پاکستان اس نعمت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کا ایک طبقہ اپنے کلچر سے بغاوت کرنے کے حق میں ہیں اور ایسے راستے پر چل نکلے ہیں جہاں سے واپسی کافی مشکل بہت ہوتی ہے ۔اسلامی و اخلاقی اعتبار سے پاکستان بگڑ رہا ہے۔ تعلیمی اداروں کے حالات بھی ناگفتہ بہ ہیں۔ مغربی شہریت لینے کا رجحان تیز ی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ سرکاری ملازم دو سال پانچ سال کی چھٹی لے کر امریکہ یا کسی مغرب ملک کی شہریت لینے پہنچ جاتے ہیں اور اس دوران پاکستان سے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں۔ افسوس طلاق اور منشیات میں بڑھتے رجحان کی خبریں عام ہیں۔ نوجوان نسل ملک و ملت کے مستقبل کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے جس پر ملک و ملت کی ترقی و تنزلی موقوف ہے۔ یہی اپنی قوم اپنے دین و ملت کے لیے ناقابل فراموش کارنامے نجام دے سکتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ نوجوانوں کی تباہی براہ راست قوم کی تباہی سے وابستہ ہوتی ہے۔ اگر نوجوان نسل بے راہ روی کی لپیٹ میں آجائے تو اس کے اثرات پوری قوم پر پڑتے ہیں۔ نوجوان نسل کی بے راہ روی کا سبب ہونے کی ذمہ داری اساتذہ کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوان نسل کے اخلاق و کردار کو بہتر بنانے کے مواقع فراہم کریں۔اخلاق و کردار ہی ہیں جو انسان اپنی نسل کا سب سے بڑا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جو قوم اخلاق سے محروم ہو جاتی ہے تو کوئی طاقت اسے ترقی سے ہمکنار نہیں کر سکتی۔ آج پاکستانی معاشرہ جس مغربی رنگ پر لپٹا ہے اس گمراہی میں پاکستانی میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔