... loading ...
زریں اختر
بڑا آدمی پیدا ہوتاہے؟ ماحول اہم کردار اداکرتاہے؟ حالات و واقعات اسے بڑا بناتے ہیں؟مختلف معاملات پر اس کا روّیہ اور فیصلے اور ان فیصلوں پر قائم رہنا شخصیت کی مضبوطی ثابت کرتاہے؟ یا جیسا وہ ہوتاہے اس جیسا کوئی اور نہیں ہوتا؟ شاید ان سب سوالوں کا جواب ہاں میں ہوسکتاہے ،لیکن ہم کیسے جانیں؟ اوریانا جیسی صحافی کے بڑی سیاسی شخصیات سے ان کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کو سامنے لانامیرے لیے ان شخصیات کو سمجھنے کی ایک اہم کڑی بناہے ۔ میں اندرا گاندھی کو پہلے اتنا نہیں جانتی تھی جتنا اب جاننے لگی ہوں، میں اوریانا سے بہت متاثر ہوں لیکن اوریانا کو انٹرویو دیتے ہوئے اندرا جی کی جو شخصیت سامنے آئی میں ان کی گرویدہ ہوگئی ۔ ان کے سیاسی فیصلوں سے اختلاف کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ بالکل کیا جاسکتاہے ۔یہ طویل انٹرویوہے لیکن میں انٹرویو کے ان حصوںپر ہوں جس میں اندرا ایک لڑکی، ایک عورت اور پھر کیسے ۔۔۔نہرو کی بیٹی ہونا ایک سرگرم اور کامیاب سیاست دان ،لیکن وہ اندرا کے بچپن میں کامیاب نہیں ہوگئے تھے ، اندرا نے ان کی نہیں بلکہ اپنے تمام گھروالوں کی گرفتاریاں دیکھی ہیں ،ان کی ازدواجی زندگی کا احوال پچھلی تحریروں میں آچکاہے، ان رستوں پہ چل کر بنی ہے اندرا وہ اندرا گاندھی جس کو آج ہم جانتے ہیں،اور اس انٹرویو کے ذریعے زیادہ جاننے لگے ہیںنیز مجھے لگتاہے کہ اس کتاب میں اوریانا کے اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے انٹرویو پڑھ کر میں اس خطے کی سیاست کو پہلے سے زیادہ بہتر اور مختلف انداز میں سمجھنے لگی ہوں۔
اوریانا: اب ہم ذاتی سوالات کی طرف آتے ہیں مسز گاندھی۔ اب میں انہیں پوچھنے کے لیے تیار ہوں،اور میرا پہلا سوال یہ ہے :کیا آپ جیسی خواتین خودکو دوسرے مردوں یا عورتوں سے زیادہ آسانیوں کا حامل تصور کرتی ہیں؟
اندرا: میرے حوالے سے یہ بات بالکل درست ہے۔۔میں ہر کسی کو ایک ہی نظرسے دیکھتی ہوں۔بس انہیں انسان سمجھتی ہوںبجائے یہ کہ مرد یا عورت سمجھوں ۔لیکن یہاں پر ہمیں اس حقیقت کو مدّ ِ نظر رکھنا پڑے گاکہ میں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور میں اپنے ماں باپ جیسے مرد اور عورت کی بیٹی ہوں۔ میری پرورش ایک لڑکے کے طرز پر ہوئی ہے وہ شاید اس لیے کہ ہمارے گھروں میں لڑکوں کاآناجانا زیادہ تھا۔ لڑکوں کے ہمراہ میں درختوں پہ چڑھتی تھی ،دوڑیں لگاتی تھی اور کشتیاں لڑتی تھی۔ مجھے لڑکوں سے کسی قسم کا حسد یا احساسِ کمتری نہیں تھا ،اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ مجھے گڑیا سے کھیلنا بھی پسند تھا۔ میرے پاس بہت ساری گڑیائیں تھیں، اور تم جانتی ہو کہ میں ان کے ساتھ کس طرح کھیلتی تھی ؟ میں ان کے ساتھ شورش بپا کرنے کی اداکاری کرتی تھی ،ایوان سجاتی تھی اور گرفتاریاں عمل میں لاتی تھی ۔میری گڑیائیں بچے نہیں تھے جن کی دیکھ بھال کرنی پڑے بلکہ وہ مرد اور عورتیں تھیں جو کیمپوں پر حملہ آور ہوتی تھیںاور آخر کار جیل میں قید کردی جاتی تھیں۔ مجھے مزید وضاحت کرنے دو۔ نہ صرف میرے والدین بلکہ ہمارا سارا خاندان مزاحمت میں عملی طور پر شامل تھا۔۔میرا دادا ، میری دادی،میرے لڑکے ،لڑکیاں کزن ،میری پھوپھیاں اور چاچے،سبھی کے سبھی شامل تھے ،اور اکثر پولیس آتی تھی اور انہیں بغیر کسی امتیاز کے لے جاتی تھی ۔تو حقیقت یہ تھی کہ وہ میرے دادا، دادی، چچا، پھپھو،والد، والدہ سب کو گرفتار کرنے کے لیے یکساں نکتہ نظر رکھتے تھے، اسی لیے قدرتی طور پر میں نے مرداور عورت میں امتیاز کرنا چھوڑ دیااور میری نظر میں دونوں اجناس کے لیے ایک اعلیٰ درجے کی برابری پیدا ہوگئی ۔
اوریانا: تو پھر وہاں پر جان آف آرک کی کہانی اپنا اثر رکھتی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟
اندرا: ہاں ،یہ سچ ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ نوعمری کے دورمیں جون آف آرک میرا خواب ہوا کرتی تھی۔ مجھے دس بارہ سال کی عمر میں اس کا پتا چلا تھاجب میں فرانس گئی تھی ۔مجھے یاد نہیں میں نے پہلی بار اس کے بارے میں کب پڑھاتھامگر مجھے یہ یادہے کہ اس نے فوراََ ہی مجھے متاثر کرلیاتھا۔ میں اپنے وطن کے لیے اپنی جان قربان کرنا چاہتی تھی ۔یہ بیوقوفانہ سی بات لگی ہے مگر پھر بھی …کیاہوتاہے جب ہم بچپن میں ہی ہمیشہ کے لیے اپنی زندگیوں کی قبر میں اتار دیے جاتے ہیں۔
اوریانا: ہاں جی بالکل، اور میں جاننا چاہوں گی مسز گاندھی ،وہ بات جس نے آپ کو ویسا بنادیا جیسی کہ آج آپ ہیں۔
اندرا: زندگی نے ،جیسی میری ہے، وہ مشکلات ، وہ رکاوٹیں اور وہ تکالیف جو میں نے بچپن سے سہی ہیں۔ ایک مشکل زندگی گزارنا بہت سعادت کی بات ہے اور میرے دور کے بہت سارے مردوں اور عورتوں نے اس سعادت کو حاصل کیاہے ۔۔میں کبھی کبھی حیران ہوتی ہوں کہ آج کل کے نوجوان ان حالات سے محروم ہیںجن حالات نے ہماری تشکیل کی ہے ۔۔کاش تم جان سکتیںکہ میرے لیے ایسے گھر میں رہنا کیسا تھاجہاں گرفتاریوں کے لیے پولیس کا آنا جانا ہی لگارہتاتھا!میں یقیناایک خوش گوار اور پرسکون بچپن سے محروم رہی ہوں۔ میں پتلی ،بیمار سی اور اعصابی کمزوری کا شکار چھوٹی سی بچی تھی ،اور پولیس کے جانے کے بعد مجھے ہفتوں ،مہینوں اکیلے رہنا پڑتاتھااور میں جتنا ہوسکا اپنے اکیلے پن کو بہتر بنانے کی کوشش کرتی تھی۔ میں نے جلد ہی خود کے ساتھ رہنا سیکھ لیا۔ میں نے یورپ میں تنہا سفر کا آغاز آٹھ سال کی عمر میں ہی کردیاتھا۔اس عمر میں ہی میں اکثر انڈیاسے سوئٹزر لینڈ، سوئٹزرلینڈ سے فرانس اور فرانس سے انگلینڈ آتی جاتی رہتی تھی ۔ ایک جوان کی طرح اپنے اخراجات کا انتظام و انصرام بھی میں خودہی دیکھتی تھی۔لوگ مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں”کون ہے جس نے تمہیں سب سے زیادہ متاثر کیاہے؟”تمہارا والد؟ مہاتماگاندھی؟ ہاں، میرے بنیادی نظریات انہی کی تعلیم سے پنپے ہیںوہ جو انہوں نے میرے اندر ”برابری کے حقوق” کی روح پھونکی ہے۔۔۔انصاف کے لیے میری شدید خواہش میرے والد کی طرف سے ہے، اور انہوں نے اس نظریے کو مہاتما گاندھی سے لیاتھا۔ لیکن یہ کہنا مناسب نہیں ہو گا کہ میرے والد نے مجھے دوسروں کی نسبت زیادہ متاثر کیاہے ،اور میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ میری شخصیت کی تشکیل میں میرے والد، والدہ یا مہاتما نے کی ہے یا پھر میرے دوستو نے کی ہو۔ وہ سارے ایسے بالکل نہیں تھے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اپنی کوئی بات کبھی مجھ پر یادوسرے لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ میں نے ہمیشہ خود ہی چیزوں کو دریافت کیاہے اور مجھے اس کے لیے ایک عظیم آزادی میسرتھی ۔مثال کے طور پر، میرے والد ہمت کو بہت اہمیت دیاکرتے تھے،جسمانی ہمت کو بھی ، وہ ان لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے جن میں یہ نہیں پائی جاتی تھی۔لیکن انہوں نے مجھ سے کبھی نہیں کہا ”میں تمہیں باہمت دیکھنا چاہتاہوں”۔وہ ہمیشہ فخریہ انداز سے مسکراتے تھے جب بھی میں کسی مشکل کام کو مکمل کرتی تھی یا لڑکوں سے دوڑ میں جیت جاتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔