... loading ...
ب نقاب /ایم آرملک
ملک مبشر احمد خان میرے عہد کا درویش ہے۔ اسے ”ستارالعیوب ”کا قرب نصیب ہے ،اس عہد کا ایک ایسا انسان جس کا ضمیر جاگتا ہے، میں نے ملک مبشر احمد خان کے اندر کے انسان کو انسانیت کے دکھ پر کڑھتے دیکھا ہے ،باری تعالیٰ کے ذکر پر ملک مبشر احمد خان کی آنکھیں ہمیشہ نم ہوجاتی ہیں ،ان سے جو ایک بار ملا پھر وہ ان کا ہی ہوکر رہ گیا ،رب ذوالجلال کا قرب ملک مبشر احمد خان کو نصیب ہے ۔یہ سند بھلا میرے جیسا گناہوں کے نشیب و فراز میں بھٹکنے والا گناہگار شخص کیسے دے سکتا ہے ؟
اس کی تصدیق میرے نبی پاک ۖ کی زباں مبارک سے نکلے یہ الفاظ کرتے ہیں کہ رب ذوالجلال کو دو قطرے بے حد عزیز ہیں ایک وہ قطرہ جو اس کے خوف سے آنسو بن کر آنکھ سے گرا اور ایک وہ قطرہ جو اُس کی راہ میں لڑتے ہوئے میدان ِ جہاد میں گرا ۔عرصہ پہلے ملک مبشر کی یہ حالت نہ تھی۔ جانے کیا ہوا کہ ملک مبشر احمد خان نے شعور سے تحت الشعور کا سفر طے کر لیا ،ان کے اندر کے وجدان نے باور کرایا کہ ”جب بھی ابن آدم نے اپنے ارادوں اور اپنی سوچ کو دنیاوی اسباب کے حصول کے لیے صرف کیا تو اس کی کل صلاحیتیں اسی جتن میں لگیں۔ عصر حاضر کے انسان پر غور کریں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر فرد نے جیسے ٹھان ہی لیا ہو خود فراموشی کا، بے مقصد جینے کا، بے سبب ضیاع وقت کا، بے مصرف مشاغل میں محو رہنے کا، تو پھر خواہ وہ انسان اوائل عمر میں ہو، لڑکپن میں جوانی یا ادھیڑ پن میں ہو، جینے کے رنگ ڈھنگ سب نے ایک ہی رنگریز سے کرالیے۔۔۔ بس غلطی اتنی سی ہوئی کہ رنگریز اچھا نہ چنا، چمکتے رنگوں کے پیچھے بھاگنے والوں نے رنگ کی پائیداری کو تو جانچا ہی نہیں اور جب رنگا رنگ زندگی بے رنگ ہونے لگی تو سمجھ آئی کہ پائیداری تو سادگی میں ہے۔ مختلف رنگوں میں بھی وقت کی گرد دنیا کی چمک دمک کو مدہم کردیتی ہے تو پھر چمکنے والی چیز خواہ سونا ہی کیوں نہ ہو اپنا روپ کھودیتی ہے۔ تو پھر ابن آدم تو کیوں گمراہ ہوتا ہے تو پھر اشرف المخلوقات کا درجہ پاکر بھی کیوں بھٹک جاتا ہے۔ جب راستہ سیدھا اور سامنے ہو تو کیوں تو گھبراتا ہے رستے کی مشکلات سے؟ جب وعدہ ہو مدد اور نصرت کا تو پھر کیوں اندیشوں میں گھرتا ہے؟ جب یقین ہو دنیا کی بے ثباتی کا تو کیوں اس بھول بھلیوں میں کھو جاتا ہے؟ پھر جب معلوم ہو جائے کہ راستہ غلط ہے تو پھر کیوں طنطنہ چھوڑ نہیں دیتا؟ کیوں تو غلطی مان نہیں لیتا؟ کیوں راستہ سیدھا اپنا نہیں لیتا؟ کس چیز کا گھمنڈ ہے؟ کس شے کا تکبر ہے؟ اے بندہ کم فہم جاگ ذرا! بہت بھاگ لیا دنیا اور دنیا والوں کے لیے۔ اب ذرا اس کی تو سن جس کی دنیا ہے جس کا تو ہے اور جو تیرا ہے۔ بس وہ اللہ ہے”
جب بھی ہم دوسروں کے ساتھ حقیقی رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہمیں اس بے نہایت شان رحیمی کا تجربہ ہوتا ہے جس کا منبع رحمان کی ذات ہے۔ جب بھی ہم کسی کی خطا سے درگزر کرتے ہیں، تو اس بے پایاں صفت غفاری کا تجربہ کرتے ہیں جس کے چشمے رب غفور کی ذات سے پھوٹتے ہیں۔ جب بھی ہم مظلوموں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، ہمیں اس لامحدود محافظت میں سے کچھ حصہ حاصل ہوتا ہے جو کائنات کے نگران کی صفت ہے۔ جب بھی ہم حق و صداقت پر عمل پیرا ہوتے ہیں، تو اس بے کراں صداقت سے حصہ پاتے ہیں جو مصدر حق کی شان ہے۔ یہ اعمال ہمیں خدا کے وجود کا تجربہ کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ اس کی رحمت، شان کریمی، مہربانی، غفاری وغیرہ ہمارے ذریعے سے ہمارے اردگرد کے لوگوں تک پہنچتی ہیں ،اس طرح ہمارے اندر خدا کو اعلیٰ سطح سے جاننے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے وجود کا فیض ہمارے وجود کے ذریعے دوسروں تک پہنچتا ہے، اور ہم اس لامحدود خیر کا ذاتی تجربہ کرتے ہیں۔ یہی چیز ہمیں خدا کی ایسی قربت سے آشنا کرتی ہے جس کا موازنہ کسی بھی انسانی رشتے سے نہیں کیا جاسکتا،اک عرصہ سے ملک مبشر احمد خان اس وصف سے آشنا ہوچکے ۔مگر عرصہ سے دل ہمکتا ہے اس درویش کے چرنوں میں بیٹھوں ،جانے کیوں یہ سعادت نصیب نہیں ہوپارہی ،سبب شاید یہی ہے کہ گناہوں کی گٹھڑی اتنی وزنی ہے کہ قدم اس اللہ والے کی جانب اُٹھنے میں تاخیری حربوں کی زد میں ہیں ۔لیکن ٹھانی ہے کہ کوئی روز قبولیت کا ہوگا ۔