وجود

... loading ...

وجود

جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

پیر 11 مارچ 2024 جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

میری بات/ روہیل اکبر
پاکستان کھپے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ بلند کرنے والے آصف علی زرداری دوسری بار صدر پاکستان منتخب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے ہی اپنے دور حکومت میں بھٹو کی پھانسی کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ میں بھیجا تھا جسکا فیصلہ انکے صدر منتخب ہونے کے چند روز پہلے ہی آیا۔ خیر اچھا فیصلہ ہے۔ اپنی اصلاح کرنے میں ہی بہتری ہوتی ہے ۔ بھٹو کی پھانسی کو 44 سال ہو گئے لیکن وہ ابھی بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ اسی طرح کا ایک اور عدالتی فیصلہ مشرف کو موت کے بعد پھانسی دینے کا بھی ہے۔ دیکھتے ہیں اس پر بھی کوئی مزید فیصلہ آتا ہے کہ نہیں جبکہ مجھے ان دو بھائیوں کی پھانسی کا بھی دکھ ہے جنکی موت کے بعد انہیں بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔اس میں ہمارے نظام انصاف کا اتنا قصور نہیں جتنا ہمارے انتظامی اداروں کا ہے اور خاص کر پولیس کا جو ہمیشہ حکمرانوں کی غلام بنی رہی۔ عہدوں اور تعیناتیوں کے لالچ میں ظلم نہیں بلکہ مظالم کی انتہا کردیتے ہیں عوام کو دبانے اور مارنے میں انکا کوئی ثانی نہیں ہماری پولیس ہمیشہ فرنٹ مین کا کردار ادا کرتی رہی لیکن عوام نے بھی ہار نہیں مانی اور اس بار کے الیکشن تو ویسے بھی اپنی نوعیت کے نرالے اور منفرد الیکشن تھے۔ اسٹبلشمنٹ نے بھی سختی کا انتہا کررکھی تھی جس میں امیدواروں کے ساتھ ساتھ انکے سپورٹروں اور ووٹروں تک کو نہیں بخشا گیا ۔حتی کہ پی ٹی آئی کا نام ختم کردیا گیا ۔امیدواروں کو بلے کی بجائے مختلف اور منفرد قسم کے نشانات الاٹ کردیے گئے۔ فارم45روک لیے گئے جعلی فارم 47جاری کیے گئے لیکن اسکے باوجود تحریک انصاف نہ صرف قومی اسمبلی کی سب سے بڑی اور خیبر پختونخواہ کی حکمران جماعت بن گئی، اس سے پہلے مشرف کا ڈنڈا موجود تھا تو نون لیگ صرف 14 سیٹیں جیت پائی تھی اور قومی اسمبلی کی 5 ویں بڑی جماعت تھی۔ اس بھی پہلے جب ضیا الحق کا ڈنڈا تھا تو پیپلزپارٹی نے الیکشن کا بائیکاٹ ہی کر دیا تھالیکن اس بار عوام نے بتا دیاایک مسلمان کسی سے نہیں ڈرتا بلکہ جرات و بہادری سے مشکل ترین حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور سیاست تو ویسے بھی انبیا کی میراث ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاسی ایوانوں میں بدمعاشوں،قاتلوں،رسہ گیروں، فنکاروں اورمکاروں کو دیکھاگیاجنہوں نے نہ صرف ملک کو قرضوں کی دلدل میں ڈبویا بلکہ عوام کو بھی غربت کی لکیر سے نیچے پھینک دیا جبکہ سیاست میں ایسا نہیںہوتا کیونکہ جو سیاست ہمیںہمارے نبی ۖ نے سکھائی وہ عوام کی خدمت کی سیاست ہے۔
اگر اسی تناظر میںہم دیکھیں تو جب مکہ میں اللہ کے رسول پر حالات تنگ کیے گئے تو آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچ گئے جہاں پر آپ ۖ کے سیاسی لحاظ سے بے شمارکام ہیں لیکن ان میں سے چند ایک کا سیاسی تناظر میں ذکر کرلیتے ہیں۔ سیاسی و مذہبی طور پر آپۖ نے مدینہ کے یہودیوں عیسائیوں بنو قریظہ بنو نذیر وغیرہ کو مکمل سیاسی و مذہبی طور پر آزاد کیایعنی سیاسی استحکام پیدا کیا پھر آپ نے مکہ سے لٹے پھٹے مہاجرین کے لیے جب اعلان کیا تو انصار نے اپنے کاروبار اور باغات میں سے آدھا آدھا حصہ مہاجرین کو دے دیا۔ یوں آپ نے معیشت کی بنیاد رکھی پھرآپ نے خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی کے تحت داخلی امور کے مطابق یہ کہا کہ اگر مدینہ طیبہ کے داخلی امور میں کوئی حملہ ہوا تو تمام لوگ مل کر یہود نصاریٰ عیسائی مسلمان مقابلہ کریں گے اور جو خرچہ ہوگا اسے برابر تقسیم کر لیا جائے گا۔ اس سے سیکیورٹی کو بہتر بنایا گیاپھر چوتھے درجے میں جا کر آپ نے شریعت کی پابندی کی۔ یوں نبوت کا فیض پوری دنیا میں پھیل گیا ۔اگر آج بھی ہم وطن عزیز پاکستان کے حالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو رسول اکرم ۖکی زندگی کا مطالعہ کرتے ہوئے سب سے پہلے ہمیں سیاسی استحکام، معاشی استحکام، سکیورٹی استحکام اور شریعت کا نفاذ کرنا ہوگا لیکن سوال اب یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ قابل لوگ تلاش کیسے کیے جائیں ؟ اس کے لیے بھی ہمیں آپ کا طریقہ اختیار کرنا پڑے گا۔ حالانکہ آپ سے بڑھ کر ذہین اور فطین اور افضل کائنات میں کوئی اور نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پیغمبر ذیشان نے مدینہ کی مختلف گلیوں سے 10 اریف چنے اور ان 10 بہترین چنے گئے اریفوں میں سے ایک کو نقیب چنا اور اس نقیب کو مدینہ میں اپنی مشاورتی کونسل کا ممبر بنایا۔ ٹھیک اسی طرح ہمیں بھی اپنے علاقے کے بہترین اور عمدہ اخلاق اور جرات والے لوگوں کوسیاسی میدان میں اتارنا ہوگا مگر ان کو تلاش کرنے کے لیے بھی ہمیں علم کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میںہمارے پاس بہت سے اسکالرز موجود ہیں جنکی رہنمائی سے ہم سیاست میں تھوڑا بہت کردار ادا کرسکتے ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ہمیں کسی کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنے جیسے گھسے پٹے جملے کہنے کی بھی ضرورت نہیںپڑے گی۔
اس وقت تک بہترین لوگ سیاسی عمل میں اتر چکے ہوں گے یہی فیض نبوت ہوگا لیکن ہم نے نیک لوگوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سیاست سے بیزار کر کے انہیں بتادیا ہے کہ سیاست ایک برا کام ہے یہاں تک کہ نیک لوگوںنے بھی کہا سیاسی کام میں ہم نہیں آتے حالانکہ سیاست اصل میں دین کے کاموں میں سے ہی ایک کام ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے ملا ،مولوی ،مفتی اور عالم دین کو اتنی درجہ بندیوں میں تقسیم کردیا ہے کہ اب مذہب کے نام پر بھی مفاد پرستوں نے اپنی اپنی دکانداریاں کھول رکھی ہیں دن کو وعظ فرمانے والے اور رات کو مدہوش رہنے والے ایسے ایسے نام نہاد عالم دین ہماری سیاست میںآن گھسے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہمیں سیاست میں چور ڈاکو اچھے لگنے لگے ہیں جو الیکشن میں قران پاک پر پیسے دیکر حلف لیتے ہیں کہ ووٹ فلاں امیدوار کو دینگے جو امیدوار پیسے ،لالچ ،دھونس اور دھاندلی سے جیت کر اسمبلی میں جائیگا وہ عوام کی خدمت خاک کریگا بلکہ عوام کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیگا آج انہی سیاسی ٹھگوں کی وجہ سے ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا تھا :
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر