... loading ...
اٹھارویں صدی کے وسط میں امریکی صدر منتخب ہونے والے ولیم ہنری ہیری سن سب سے قلیل مدتی صدر کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کی ایسی قسمت کہاں؟ ہنری ہیری سن اپنے مقام سے بخوبی آگاہ رہے ہوںگے، خود پر ترس کھانے کے شاذ لمحے میں کہا:
کچھ لوگ اتنے احمق ہیں کہ اُنہوں نے اس کلرک اور گنوار دیہاتی کو امریکی صدر بنانے کا منصوبہ بنا لیا”۔
ہمیں ایسے الفاظ سننے کو نہیں ملتے۔ امریکا میں جو احمق بن کر صدر منتخب کرتے ہیں، یہاں وہ فارم 47 رکھ کر کرتے ہیں۔ فارم 47 کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیاں صدر زرداری کا انتخاب کر چکیں۔ صدر زرداری کا انتخاب تاریخ کے سب سے دھاندلی زدہ انتخاب کے ذریعے ہی ممکن نہیں تھے، بلکہ اس کی پشت پر فیصلہ ساز قوتوں کی کبھی نہ ختم ہونے والی حرص اور ہمیشہ غلط اندازوں سے دوچار رہنے والی ذہنیت بھی محرک رہی۔ تاریخ کے چوراہے پر پڑی قوم کی حرماں نصیبی کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کے منتخب ارکان دھاندلی زدہ ہو، اور اُن کا صدر کے لیے انتخاب بد سے بدترین کی جانب مستقلاً منفی جھکاؤ رکھتا ہو۔
پاکستان پہلی مرتبہ آصف علی زرداری کے قُدُومِ مَیمَنَتْ لُزُوم کو ایوان صدر میں نہیں دیکھ رہے۔ یہ شرف 2008 سے 2013 تک بھی حاصل رہا۔ اس دوران میں جناب صدر کے طاقت ور حلقوں سے تعلقات بے پناہ نشیب وفراز سے گزرے۔ مگر اُن کی ایک ”عادتِ شریفہ” نے معاملات کو سنبھالے رکھا۔ جناب ِ صدر نے ایوان صدر کو ایک بڑی منڈی کی چَھب دی۔ مول تول، بھاؤ تاؤ کی نفسیات کو قومی پہچان دی۔ جناب ِ صدر نے بے پناہ اعتماد کے ساتھ ثابت کیا کہ پاکستان میں کوئی شے بھی ایسی نہیں جو خرید وفروخت سے بلند ہو۔ کوئی بھولا نہ ہوگا، تب فوج کے سربراہ جنرل (ر)اشفاق پرویز کیانی نے اُنہیں ملفوف الفاظ میں اپنے ساتھیوں کی”جوع البقر” کی طرف متوجہ کیا تو اُنہوں نے نہایت” ثابت قدمی”سے کہا کہ وہ تکلیفیں سہتے رہے، اب یہ اُن کا حق ہے۔ یہ کہہ دینا زرداری کو زرداری نہیں بناتا۔ کیونکہ ایسے الفاظ کہنے کی ”ہمت” تو اور بھی کر لیتے ہیں۔ جناب زرداری کی “انفرادیت” یہ ہے کہ اس کے بعد اُن کے بھائی کامران کیانی کا ”حال” بھی پوچھا۔ یہ ”حال چال” پوچھنا ایک سیاق وسباق رکھتا ہے۔ درحقیقت جناب زرداری نے یہ” فرض عین” قومی بدعنوانیوں کی نمائندہ ثقافت کے سرخیل جنابِ ریاض ملک کے سپرد کیا تھا کہ کامران کیانی کو ”جوع البقر” کی لت لگانے کے ساتھ عنایت کی بارش سے محروم نہ رکھا جائے۔ ڈی ایچ اے سٹی سے لے کر آشیانہ کیس تک تمام برکتیں اسی نظرِ عنایت کا نتیجہ تھیں۔ جناب زرداری نے سیاست سے لے کر صحافت تک اور اداروں سے لے کر سفارت خانوں تک اسی سوچ کی برکتیں پہنچائیں۔ اب یہ سوچ ہماری قومی ثقافت کی آئینہ دار ہے۔ اس سے انحراف کا تصور بھی ”اخلاقی جرم” لگتا ہے۔ یہ مزاج قومی اداروں میں ہر سطح پر رسوخ پا لے تو اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ پھر جناب زرداری کو ”قابو” کرنا کتنا مشکل ہوگا؟ وہ دن بھی یاد کر لیں جب یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ موصوف ایوان صدر میں بندوق ساتھ لیے بیٹھے رہتے ہیں کہ اب کوئی شخص یہاں پہنچنے والا ہے اور وہ اُنہیں شکار کریں گے۔ یہی وہ ایام تھے، جب جناب زرداری کو سمجھا بجھا کر کچھ دن دبئی بھیجا گیا تھا۔ خبر یہ پھیلائی گئی کہ موصوف بیمار ہیں۔ اسی عرصۂ علالت میں موصوف کی تیمار داری کے لیے ایان علی بھی تشریف لے جاتی تھیں۔ کچھ بھارتی دوستیوں کے چرچے بھی اُن ہی گلابی راتوں کی تیمارداری کے ضمن میں رہے۔ مگر پاکستان میں اب یہ مسئلے نہیں، اب مسئلہ صرف ایک ہے، عمران خان اور بس !!!
یہ نہیں کہ جناب زرداری نے جوع البقر کو قومی ثقافت بنا یا۔ بلکہ وہ بے پناہ بصیرت وبصارت کے ساتھ طلاقت ِلسانی کے جوہر بھی آزماتے ہیں۔ اُن کی فکر ِرسا کے کمالات جن الفاظ کے روپ میں ڈھل کر گونج گمک پیدا کرتے ہیں، وہ صاحبانِ لغت کو بھی لرزائے رکھتے ہیں۔ ابھی کل ہی تو جناب زرداری نے فصاحت کی زبان گنگ اور بلاغت کے دریا خشک کرتے ہوئے فرمایا: جب آئن اسٹائن چیلنجز سے نہیں ڈرا تو شہباز شریف بھی نہیں ڈریں گے”۔ یہ تشبیہ انگریزی کے جان ملٹن، شیکسپیئر اور جیفری چاسر ، فارسی کے فردوسی اور حافظ شیرازی، عربی کے امراؤ القیس، زہیر ابن ابی سلمیٰ اور عنترہ بن شداد کو بھی نہ سوجھی ہو گی۔ بیچارے میر اور غالب کا تو ذکر ہی کیا! آئن اسٹائن کے ساتھ شہباز شریف کی تشبیہ نے”کرپشن اور سائنس”کی جو ”ہائبرڈ دنیا” تخلیق کی ہے وہ کولمبس کے امریکا دریافت کرنے سے بڑا کارنامہ ہے، جو صدر بننے سے ایک روز قبل جناب زرداری نے سرانجام دیا۔ یوں تو سائنس کی کرپشن بھی کم نہیں، مگر کرپشن کی سائنس تو اپنی مثال آپ ہے، جو آئن اسٹائن کے دماغ، زرداری کی رفاقت اورشہباز اسپیڈ کے ساتھ لطف کو دوبالا ہی نہیں سہ بالا کرتی ہے۔ ذرا سوچ کر تو دیکھیں! وہ سائنس، یہ کرپشن۔ وہ نظریہ ٔ اضافیت یہاں فارم 47۔ وہ E=mc^ یہ پی پی = نون لیگ ( ایم کیو ایم اسکوائر)۔ وہاں علم الکائنات ، یہاں ڈونلڈ لو کی واہیات۔ وہاں روشنی کا سفر یہاں تاریکی کا حَضَر۔ وہاں علم کا کمال یہاں سائفر کا وبال۔
وقت وقت کی بات ہے، نومنتخب صدر جناب زرداری کے ذہن میں اگر شہباز شریف کے ساتھ آئن اسٹائن کی تشبیہ آ سکتی ہے تو اس ”ذہنیت” پر ہمارے ذہن میں کارل مارکس آتا ہے۔ آئن اسٹائن نے نظریۂ اضافیت کے باب میں اِسی وقت پر کہا :
(time is relative)
کارل مارکس نے ٹائم کی ”زرداریت اور شہبازیت ” کی وضاحت میں کہا
“Time was invented by clock companies to sell more clocks”
(گھڑی ساز کمپنیوں نے وقت اس لیے ایجاد کیا تاکہ زیادہ سے زیاہ گھڑیاں بیچ سکیں)۔
کارل مارکس کی تشریح سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زرداری کے ہاتھ آئن اسٹائن لگنے سے اب سائنس بھی بچنے والی نہیں۔ یہ وقت پر وختہ پڑنے کا اشارہ ہے۔
ذہن پر زیادہ زور نہ ڈالیں امریکا کے موجودہ صدر جوبائیڈن بھی اسی کیفیت سے گزرے ہیں۔ اُن کے گزشتہ دورِ صدارت میں جوبائیڈن نائب صدر تھے، وہ امریکی سینیٹر لینڈسے گراہم کے ہمراہ 9جنوری 2009 کو بروز جمعہ اسلام آباد پہنچے تو پاکستان کے صدر زرداری نے اُن کے استقبال کے لیے سرخ قالین بچھا رکھے تھے۔ جناب زرداری نے اُنہیں پاکستانی اعلیٰ اعزاز ہلالِ پاکستان سے نوازا۔
زرداری، گراہم اور جوبائیڈن پھر بند دروازوں کے پیچھے چلے گئے۔ جوبائیڈن، گراہم پاکستانی صدر کو امریکی دوستی کا مطلب سمجھا رہے تھے۔ یہ ڈومور کا زمانہ تھا۔ امریکی، دوستی کی حدت وشدت محسوس کرانے پر تُلے تھے۔ یہاں صدر زرداری اور افغانستان میں حامد کرزئی سے ملاقاتوں میں ”کچھ کرنے” پر زور تھا۔ پاکستانی انٹیلی جنس اور عسکری ادارو ں کے خلاف امریکی زرداری کو شکایتیں کر رہے تھے۔ جناب زرداری نے ”مالی مدد” مانگتے ہوئے اداروں کی ”تطہیر” کا یقین دلایا اور ساتھ اپنی اہلیہ کے نشانہ بننے والے خطرات کا تذکرہ لے کر بیٹھ گئے۔ امریکی اپنی شکایات کر رہے تھے، مگر صدر زرداری اپنی شکایات کرنے لگے۔ ہر امریکی مطالبے پر وہ مالی مدد کا مطالبہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جوبائیڈ ن اور لینڈسے گراہم اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ایوان صدر سے باہر نکل کر جب یہ دونوں افغانستان جانے کے لیے اپنے جہاز میں بیٹھے تو دونوں ہی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگے: کیا آپ کی سمجھ میں کچھ آیا وہ کیا چاہتا تھا؟ دونوں نے ہی کندھے اُچکائے۔ ان دونوں نے صدر زرداری کے لیے ایک سستا لفظ استعمال کیا۔ تفصیلات پڑھنے کے شوقین باب ووڈ ورڈ کی کتاب ”اوباماز وارز” کی ورق گردانی کریں۔ ایک تسلی ضرور ہوگی کہ صدر زرداری کی بات صرف ہم ہی نہیں جوبائیڈن کی بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ اُن کی بات سمجھنے کے لیے آئن اسٹائن چاہئے یا پھر ”فسانۂ آزاد” کا کردار خوجی۔ ہنری ہیری سن کے الفاظ دُہرائیں:کچھ لوگ اتنے احمق ہیں کہ اُنہوں نے اس کلرک اور گنوار دیہاتی کو امریکا کا صدر بنانے کا منصوبہ بنا لیا”۔ قوم کو فارم 47 کا صدر زرداری ایک بار پھر مبارک ہو!!!
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔