... loading ...
زریں اختر
ایجنڈا سیٹنگ نہیں بلکہ ایجنڈابلڈنگ۔یہ علم ابلاغیات کے پیش کردہ نظریات ہیں جنہوں نے اوّل الذکر سے موخر الذکر تک کا فکری سفر طے کیاہے۔ پہلا نظریہ سماجی مظہر کی تفہیم کرتا ہے جب کہ اس کے بطن سے پیداہونے والا دوسرا نظریہ سماجی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتاہے۔ یہ نظریات کیاہیں؟
پہلے ایجنڈا سیٹنگ کے نظریے کی طرف آتے ہیں۔بادی النظر میں یہ نظریہ اس خیال کی تائید کرتاہے کہ صحافت اور سیاست ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔یہ وہ خیال ہے جس کو زمان و مکاں کا اعتبار حاصل ہے ۔جب قلمی اخبار کا دور تھا تب بھی بادشاہ ِ وقت کی خبریں صفحہ ٔ اوّل پر نمایاںجگہ پاتی تھیں اور موجودہ برق رفتار برقی دور میں بھی جمہوری حکمرانوں کی خبریں ہی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بنتی ہیں۔ یہ صورت ِ حال رہی ۔ ایجنڈا سیٹنگ ایک دوسرے معاشرتی عمل کی طرف توجہ مبذول کراتاہے جو اس سے براہ ِ راست وابستہ و منسلک ہے اور وہ ہے عوام کی اپنے لیے سماجی ،ذہنی اور فکری ترجیہات کا تعین ۔ اس نظریے کے مطابق وہ خبریں جو اخبار میں صفحہ ء اوّل پر نمایاں جگہ پاتی ہیں اور برقی ذرائع ابلاغ میں بعنوان خاص خاص خبریں نشر ہوتی ہیں ان کا اورعوام کا واقعات کو اہمیت دینے کی درجہ بندی کا آپس میں راست تعلق ہے۔ میں کسی بھی دن طالب علموں کو بغیر بتائے کہ ان پر کسی نظریے کی جانچ کی جارہی ہے اس نظریے کے اثبات میں شواہد اکھٹے کرسکتی ہوںبلکہ کوئی بھی کرسکتاہے ۔ آپ اپنے گھر میں ، دوست سے ، پڑوسی سے کسی سے بھی پوچھیںکہ بھئی آج کی اہم خبر کیاہے ، نوے فیصد کا جواب ملک کی سیاسیات پرمبنی ہوگا۔ عوام کے نزدیک وہی خبراہم ہے جو ورقی و برقی ذرائع ابلاغ شائع و نشر کررہے ہیں۔ صرف اتنا نہیں بلکہ اس کا اگلا جو نتیجہ برآمد ہوتاہے وہ یہ کہ لوگوں کی گفتگو کا موضوع ان کی اپنے مسائل سے زیادہ سیاسی صورتِ حال بنتی ہے۔ یہ ان کو سماجی سطح پر باخبر یا باشعور ثابت کرتی ہے ، یا لوگوں کے درمیان بات چیت میں اپنے مسائل سے اغماض برتنے میں کردار اداکرتی ہے یا اپنے مسائل سے جز وقتی فرار کا موقع فراہم کرتی ہے ، یا عوام کو یہ بھی لگتاہو کہ ان کے گلی محلوں کے مسائل کو حل ان سیاست دانوں کے ہی ہاتھوں ممکن ہے اور سیاسی خبروں کی واقفیت سے ہی معلوم ہوگا کہ اس حکومت سے ان مسائل کے حل کی کوئی توقع یا موہوم امید بھی رکھی جاسکتی ہے یانہیںنیز یہ کہ یہ تو انہیں اخبار کی نمایاں خبریں ہی بتائیں گی۔ بس یہی ایجنڈاسیٹنگ ہے ،شعوری یا لاشعوری ، بائے ڈیفالٹ یا بائے چوائس،ایک عملی مظہر کی تفہیم کرتاہوانظریہ۔
اس نظریے کا عملی اطلاق دیکھتے ہوئے جواگلانظریہ عمرانی ، عوامی اور فلاحی نکتہ نظر سے پیش کیاگیا وہ ”ایجنڈا بلڈنگ” ہے ۔اس نظریے کے مطابق جب ذرائع ابلاغ عوام کے مسائل کو نمایاں شائع اور نشر کریں گے تب عوام اپنے مسائل کو اہم جانیں گے ،اس پر گفتگو کریں گے، ان مسائل سے حل کے متعلق ان کی معلومات میں اضافہ ہوگا، رائے عامہ بنے گی ،لوگوں کو ان مسئلوں پہ بات کرتے ہوئے یہ نہیں ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی مسائل بیان کررہے ہیں کیوں کہ اب وہ مسائل سماجی اور ابلاغی نکتہ نظر سے ذرائع ابلاغ کا بھی موضوع بن چکے ہوں گے۔ یہ نظریہ ”ایجنڈا بلڈنگ” ہے ۔ سماج کی بلڈنگ، عوام کی بہتری اور مسائل کے حل کی جانب پیش رفت۔
ایسا ممکن نہیں ہے کہ سماجی انسانی المیے خبروں میں جگہ نہ پائیں ،یوں بھی ہوتاہے کہ ایسے واقعات یا خبریں افتتاحی اداریوں کا نہ سہی لیکن شذرات کا موضوع ضرور بنتے ہیں۔ سیاسی خبروں کے مقابلے میںیوں بھی نہیں کہ ایسی خبریںاخبار میں جگہ نہ پائیں (ڈیجیٹل میڈیا اس تحریر میں مدّ ِ نظر نہیںکیوں کہ معاشرے میں پائیدار فکری تبدیلی لکھے او ر پڑھے جانے والے الفاظ لاتے ہیں ،بولے اور سنے جانے والے الفاظ فوری ردّ ِ عمل کی وصولی کے لیے موثرکردار ادا کرنے کا مہلک ہتھیار ثابت ہوتے ہیں، اس پر ہر شخص کا اپنا نکتہ نظر ہوسکتاہے)۔ایجنڈا بلڈنگ نظریے کے پیشِ نظر مقبول ِ عام صحافت (مین اسٹریم میڈیا) کے ساتھ متبادل ذرائع ابلاغ اور مقامی صحافت(کمیونٹی جرنلزم) کا تصور آیا۔ علمی سطح یعنی جامعات میں شعبہ ابلاغیات میں پہلے بھی ایسے مضامین معاشرہ اور ابلاغ ِ عامہ ،معاون ِترقی ابلاغ پڑھائے جاتے تھے اور اس میں اضافہ بھی ہوا ہے ،کہہ سکتے ہیں کہ ایجنڈا بلڈنگ نظریہ اپنی جگہ بنا رہاہے لیکن ابھی اس سطح تک نہیں پہنچا جہاں اسے ذہنی و فکری سماجی تبدیلی اور عمرانی اشاریے میں تبدیلی کا اہم ،بنیادی یا نمایاںعامل قرار دیا جاسکے ۔
خبروں کی طرف آتے ہیں۔گزشتہ روز ایک بڑے اُردو اخبار کی شہ سرخی کے نمایاںالفاظ ”زرداری کل پھر صدر مملکت”ہے تو دوسرے اخبار کی شہ سرخی ”مظاہر نقوی مس کنڈکٹ کے مرتکب قرار ،برطرفی کی سفارش ” ہے ۔ یہ بھی بہرحال تبدیلی کا اشاریہ ہے کہ سیاسی خبرکے بجائے عدالتی خبر کو شہ سرخی بنایاگیا۔ پہلے اخبار نے کراچی میں بڑھتے ہوئے جرائم اور قتل کی خبرکو صفحۂ اوّ ل پر دوکالمی اس ذیلی سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے کہ ”ڈاکو راج پر اعلیٰ حکام کی پراسرار خاموشی”۔لفظ ‘پراسرار’ لکھ کر کسی اسرار کی نشان دہی کررہے ہیں یا سنسنی پھیلارہے ہیںیا سنسنی خیزی سے باز نہیں آرہے۔ دوسرے اخبار نے یہی خبر صفحہ دو بنام میٹرو پولیٹن پر پانچ کالمی اس ضمنی سرخی کے ساتھ لگائی ہے کہ ”آئی جی سندھ نے بھی شہر میں مزاحمت پرڈاکوئوں کی فائرنگ کے واقعات پر خاموشی اختیار کرلی”۔اس اخبار نے آئی جی سندھ کو براہِ راست مخاطب کرنے کی بہرحال جرأت دکھائی ہے ۔
جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات ،ان کے اعداد وشمار گنواتے ہوئے کیسے ہی شعبدہ بازی کے مظاہرے کیے جائیںیا ان کا موازنہ بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے ملکوں میں جرائم کے زیادہ واقعات گنواکرکیاجائے، وہ ہونہار نوجوان طالب علم لاریب ہو یا پانچ بچوں کا باپ جس کی ایک بیٹی کی عمرپندرہ دن بھی نہیں ہوئی ،ان گھرانوں میںزندگی بھر کا المیہ جنم لے چکاہے ۔ہم آئی جی سندھ کی خاموشی کو اعلیٰ حکام کی پراسرار خاموشی نہیں بلکہ ”مجرمانہ غفلت اورمجرمانہ خاموشی ”ہی لکھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔