... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
ہم ایک طویل عرصہ سے شریف سرکار کے مینجمنٹ میڈیا کے حصار میں گھرے ہوئے ہیں ۔
صحافت کی انتہائی قلیل مقدار جو اپنے پیشے کی آبرو بچانے کی تگ و دو میں ہے ،میں روشنیوں کے شہر میں اپنے مربی محمد طاہر کا نام لینا زیادہ باعث فخر سمجھوں گا جس نے ہمیشہ جھوٹ کے آگے جھکنے سے انکار کیا ،اس کے تجزیاتی عکوس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ طاہر کا ذہن اپنے خمیر میں بے باکانہ وصف رکھتاہے جو کسی بھی طرح کے خارجی یا داخلی دباؤ کی زد میں نہیں آتا اور وہی کہتا ہے جو اس کا ضمیر چاہتا ہے یا اسے کہنے کے لیے کہتا ہے۔
عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سرمایہ کاروں کے ٹی وی چینلز نے جو طوفان بد تمیزی کھڑا کیا وہ شاید قوم کی یادوں سے کبھی معدوم نہ ہوپائے ،اسے ہم استحصالی گروہ کا چہرہ کہہ سکتے ہیں ،جس پر جھوٹ کی ملمع کاری کی گئی ،عوام کے مینڈیٹ پر ڈالے گئے ڈاکہ جو تاریخی دھاندلی کی شکل میں ہوا کیا ان ٹی وی چینلز پر ہونے والے ”پلانٹڈ احمقانہ مباحثوں ”کو بھلا بھلایا جا سکتا ہے ؟
حالت یہ ہو گئی ہے کہ بحث میں شریک چند لوگ اگر سچ بات کہتے ہیں تو دوسرے روز کسی مباحثہ میں اسے بلایا ہی نہیں جاتا ۔8فروری کے بعد ایک اقلیت بلاشرکت غیرے ملک پر قابض کردی گئی ،یا ہوگئی یہ بھی اسی لے پالک میڈیا کا کمال ہے کہ عوام دشمن حکمرانی کا ہم دوسرا ”ٹریلر ”دیکھ پائیں گے۔8فروری کو اس مجرمانہ صحافت کے پشت پناہ شریف خاندان کے سارے منصوبوں پر سوشل میڈیا نے پانی پھیر دیا ، میڈیا کی اسی چاپلوسی، سرکار پرستی، نفرتی ایجنڈہ اور بے ریڑھ کا ہو جانے کی وجہ سے سرکاری چینلز رینکنگ میں نچلی ترین سطح پر پہنچ چکے اور اس گراوٹ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے،جمہوریت کی سب سے بڑی’ ”چیمپئن ”سیاسی جماعت کی طرف سے سینیٹ میں اس قرارداد کا پیش ہونا کہ سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جائے دراصل اس خوف کا ہی شاخسانہ ہے جوزرداری ،شریف اتحاد کی شکل میں پورے گروہ پر حاوی ہو چکا ہے ۔
اس سارے پیش منظر اور پس منظر کے بعد ایک سوال یہ جنم لے رہا ہے کہ کیا صحافیوں کی کوئی شناخت ممکن ہے؟کیا صحافی وہ ہیں جو اخبارات یا چینلوں کے مالک ہیں؟ یا پھر ان کے ملازمین صحافی ہیں؟ اگر کوئی ملازم، صحافی ہوگا تو اس کا ذہن اپنا ہوگا اور نہ ہی اس کا دماغ تو ملازم کیسے صحافی ہوسکتا ہے؟ ایسے میں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ملازمت میں آزادی کہاں ؟ چینل مالکان تو اس زعم میں ہیں کہ ملازم کی سانسوں پر بھی ان کا حق ٹھہرا ۔ وہ جب چاہیں جو چاہیں اپنے ملازم سے کراتے پھریں ۔ اب یہ بات غور طلب ہے کہ ایک مالک کسی ایسے لیڈر سے ملا ہوا ہے جو عوام کو تباہ و برباد کررہا ہو تو وہ اپنے ملازم سے وہی جھوٹی تعریفیں عوام کو جھوٹے خواب دکھائے گا۔ کیوں لوگ حق کی بات نہیں کرتے؟ کیا انسانوں کے اندر سے انسانیت ختم ہوگئی ہے کیا ان کا ضمیر مرگیا ہے؟
پریس کی آزادی جمہوریت کی بقا کی اولین شرط ہے لیکن کیا پاکستا نی پریس کو ہم واقعی آزاد کہہ سکتے ہیں ؟ کیا اس کی آزادی کا پیمانہ اس کے ذریعہ اپوزیشن کے خلاف چلائی جا رہی اس کی مہم سے لگایا جائے گا؟ یا حکومت سے سوال پوچھنے کی آزادی حکومت کو ایکسپوز کرنے کی آزادی، عوامی مسائل اٹھانے کی آزادی، عوام کے کھڑے ہونے کی آزادی سے لگایا جائے گا؟ یا پریس کی آزادی کے نام پر ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ سماج کو متحد کرنا پریس کا فرض ہے یا منقسم کرنا؟ کبھی پریس کو مستقل مخالف کہا جاتا تھا، یعنی سرکار چاہے جس پارٹی کی ہو اس پر نظر رکھنا، اس کی غلطیوں کو اجاگر کرنا، اس سے سوال پوچھنا میڈیا کا فرض ہوتا، مگر اب لے پالک میڈیا اپوزیشن سے سوال کرتا ہے اور حکومت کے ایجنڈا کو آگے بڑھاتا ہے۔
صحافت کبھی سچائی کا مضبوط قلعہ ہوا کرتی تھی۔ صحافی ہر طرح کی تفریق سے بلند تھے ۔۔ یہ وہ میڈیا تھا جس کی راسیں مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر ،شورش کاشمیری کے ہاتھ میں تھیں ،وہ صحافت جس نے برٹش سامراج کے چھکے چھڑا دیے ۔ مولوی باقر نے پھانسی قبول کی تھی مگر قلم کا تقدس نہیں مٹنے دیا ۔ جنگ آزادی کے دور میں ہر زبان کے ان گنت صحافیوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، بھوک کا شکار رہے، پھٹے کپڑوں اور بھوکے پیٹ رہ کر بھی اپنے قلم کو تلوار بنائے رکھا۔ آزادی کے بعد بھی گو کہ کچھ ناپسندیدہ واقعات ہوئے لیکن مجموعی طور سے میڈیا آزاد ہی رہا، لیکن اب میڈیا نے جو رخ، رویہ اور طرز عمل اختیار کیا ہے وہ افسوسناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے۔ قریب 35 سال سے اس پیشے میں رہنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہم کہاں تھے اور کہاں پہنچ گئے۔ اور بات اس نہج پر آپہنچی ہے کہ اپوزیشن اس مخصوص میڈیا کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرنے پر تلی ہوئی ہے ،بہتر ہوتا کہ میڈیا خود اپنا محاسبہ کرتا اور سوچتا کہ ملک کی 60 فیصد سے زائد عوام کی نمائندہ جماعت کو اس پر عدم اعتماد کیوں ہے؟ اپوزیشن کے اس انتہائی قدم کے باوجود بھی یہ میڈیا اپنا محاسبہ کرنے کے بجائے حکومت اور حکمران پارٹی کے ایجنڈے کو ہی آگے بڑھا رہا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ ان کے بائیکاٹ کا فیصلہ نہ صرف درست بلکہ حق بجانب ہوگا ۔
٭٭٭