... loading ...
زریں اختر
اس نعرے نے بڑی مقبولیت اور بدنامی سمیٹی ہے ۔ نہیں معلوم کہ اس نعرے کا خالق کون،کیا یہ کسی عورت کی ذاتی زندگی کا المیہ تھا جس نے اجتماعی آواز کی شکل اختیار کر لی؟ اس کا مطلب کیاہے جس کی بناء پر یہ مقبول ہوا؟ اور وہ کون سے معنی ہیں جس نے اسے بدنام کیا؟ نعروں میں کوئی گہرائی ہوتی بھی ہے یانہیں؟ مجھے نعرے ایک چیخ معلوم ہوتے ہیں، کیا ہمیں اس چیخ پہ کان دھرنا ہوں گے تاکہ فیصلہ کرسکیں گے کہ یہ کتنا مقبول صحیح ہے یا کتنا بدنام درست ہے؟
بدنامی تو عورت مارچ کے حصے میں بھی کم نہیں آئی ۔ہم بڑے تحفظات کا شکار معاشرہ ہیں۔
آئینِ نو سے ڈرنا طرز ِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
ہمیں ہر نئی بات سے ڈر لگتاہے کہ یہ کسی پرانی بات سے بدل نہ جائے،کوئی نیا خیال جیسے ہمار ے کسی دیرینہ خیال کی جگہ لے لے گا، کوئی دن جو کبھی نہیں منایا گیا اس کی اب کیوں ضرورت پیش آگئی؛ہمیں تاخیر کبھی نہیں لگتی ہمیں تو بس یہ لگتاہے کہ اب بھی کیوں؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ کے ہمارے استاد پروفیسر انعام باری نے مضمون ‘معاون ِ ترقی ابلاغ ‘کی کلاس لیتے ہوئے کہا تھا کہ” اگر کسی خرابی کا شعور پہلے سے موجود ہے تو ابتدا خرابی کی درستگی سے ہوتی ہے اور کام تیزی سے آگے بڑھتاہے لیکن اگر کہیں خرابی کا شعور ہی نہ ہو،یہاں استاد ِ محترم نے مثال گھر کے ساتھ بنی نالی سے دی تھی کہ اگر گلی محلے والوں سے کہاجائے کہ یہ نالیاں ایسی کھلی نہیں ہونی چاہئیں تو یہ بھی سننے کو مل سکتاہے کہ یہ توہم اپنے بچپن سے اسی طرح دیکھ رہے ہیں یہ کہاں جائیں گی۔ اب کام خرابی کی درستگی پر بعد میں پہلے تو سوچ پیدا کرنی ہوگی”۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ تو بڑی انتہا کی مثال ہے کیاایسا بھی ممکن ہے؟یہ بالکل ممکن ہے اور اسی طرح ممکن ہے جس طرح فرانسیسی شہزادی کا یہ کہنا ممکن ہے کہ اگر عوام کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں تو یہ کیک کیوں نہیں کھالیتے۔
عالمی یوم ِ خواتین یا عورت مارچ میں ایک مسئلہ یہ بھی نظر آتاہے کہ یہ اونچے طبقات کی عورتوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے منایا جاتاہے ایسے میں گائوں، دیہاتوں یا شہری عورتوں کے مسائل بھی ”فیشن ”بن جاتے ہیں۔ یہ سوال مذہبی طبقات کے ذہن میں نہیں پڑھے لکھے لوگوںکے ذہن میں بھی اٹھتاہے کہ ان خواتین کے کیا مسائل ہیں؟ اور پھر بات جاتی ہے غیر ملکی فنڈنگ اور ایجنڈا کی طرف۔ ایسے میں مذہبی سوچ کے حامل افراد کا خیال مغرب کی ان سماجی معیارات کی طرف جاتاہے جنہیں وہاں قبولیت اور قانونی تحفظ دونوں حاصل ہوچکے ہیں اور جو ہماری مذہبی اور سماجی قدروں سے براہِ راست متصادم ہیں۔ مغرب کی موجودہ سماجی معیارا ت کا یہاں تک کا سفر ان ہی رستوں سے گزرا ہے جن کے ہم مسافرہیں اور یہ قطعی ضروری نہیں کہ ہمارے انتخاب بھی وہی ہوں ،تہذیب کا سفر فطری اصولوں پہ جاری رہنے والا ہے ،اس میں بہت کچھ کام کرتاہے یہاں تک کہ یہ رکاوٹیں اور مزاحمتیں بھی جو ان کو پیش آتی ہیں۔ یہ سمجھ لیں کہ بند ،روک اور رکاوٹ کام نہیں کرے گی ، مغرب میں تعلیم اور فکری تحریکیں بنیاد بنیں ،یہاں نہ تعلیم اور نہ فکرکی آبیاری کی تسلی بخش صورت ،پانی اپنا رستہ خود بناتاہے اور جہاں رستہ نہ ملے وہاں کچھ عرصے بعد جمع ہونے لگتاہے پھر یہ سڑنے لگتاہے،بدبو دینے لگتاہے ۔ہمارا وطیرہ کیاہے ؟ غیرت کے نام پر قتل، اسلام کہتا ہے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے ، اب مذہبی طبقات خاموش کیوں؟
دن بھی منانے دیں ،نعرے بھی لگانے دیں ، فنڈنگ بھی آنے دیں ، کتھارسس کی کوئی تو صورت کوئی تو کھڑکی کھلی رکھیں۔ تمام تحفظات اور شکایات ایک طرف رکھ دیں۔ تھوڑا ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرتے ہیں۔
میں یہاں اعتراف کرتی چلوں کہ یہ نعرہ ‘میرا جسم میری مرضی ‘ میرے نزدیک سطحی ،فضول اور بوگس نعرہ تھا۔ خان دان کی اکائی جو مرد اور عورت وجود میں لاتے ہیں ،مرد بھی ذمہ داریاں اٹھاتا ہے اور عورت بھی ،پھر ان کے بچے ہوتے ہیں۔سب ٹھیک چل رہاہوتا ہے کہ اچانک باہر کی آوازیں اور شور میرے خان دان کا سکون متاثرکرنے کہاں سے اورکیوں آ دھمکے ۔باہر نکلیں تومزدور مرد، مستری مرد،دکان دار مرد، ڈائیور مرد، کنڈکٹر مرد ،نائی مرد،قصائی مرد،بڑھئی مر، درزی مرد، باروچی مرد، چپراسی مرد، چوکیدارمرد، مالی مرد، مولوی مرد،موذن مرد، گورکن مرد؛باہر کی دنیا مردوں کی دنیاہے ،وہ باہر رہ کر خان دان کی کفالت کے لیے سارادن بھاگ دوڑ کرتا ہے ،یہ عورت کو کہاں سے سوجھ رہی ہے ‘میرا جسم میری مرضی ‘، اس مرد کی کتنی مرضی ہے؟دوسری طرف یہ بھی نظر آتا ہے کہ عورت گھر کی مالکن ہی نہیں بلکہ ملکہ،ہر کام کے لیے نوکر اور گھر کے فیصلوں اور معاملات پر بھی اس کی گرفت۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ایسے گھرانے نہیں ہیں۔
یہ بات اصل میں اتنی ہے نہیںنہ یہ مسئلہ اتنا سادہ ہے ۔ مسئلہ ہے مرد اور عورت کے بارے میں سماجی معیارات کے فرق کا ،ایسے معیارات جس کی جڑیں اور حقیقتیںاتنی گہری اور واضح ہیں کہ خود عورت نے اسے طرح تسلیم کرلیا ہے جیسے مردوں نے گھر کے باہر بنی کھلی نالیوں کو تسلیم کرلیاہے ۔ یہاں عورت کی جسمانی ساخت اس کے آڑے آتی ہے اور مرد اپنی جسمانی قوت کی بنا ء پر اس پر اپنا فیصلہ مسلط کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔یہاں مذہبی طبقہ اسلامی تعلیمات اور شریعت کی اپنی مرضی و منشاء کے مطابق تشریح کرتاہے ،یوں عورت کے اپنے جسم سے لے کراس کے خاندان اور سماج سب اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔
وہ جو آج ایک بظاہر سطحی ، کھوکھلااور بے شرم نعرہ ہے کل عورت کے اپنی زندگی کے فیصلے خودکرنے کی فکری بنیاد بنے گا، ہم پڑھیں ، نوکری کریں یا شادی کرکے اُمور ِ خانہ داری سنبھالیں ،ہم بس یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہماری زندگی کے فیصلے ہیں ،ہمیں خود کرنے دیںجیسے آپ اپنے کرتے ہیں ،غلطیاں کرتے ہیں اور سیکھتے ہیں ،ہمیں بھی غلطیاںکرنے اور سیکھنے کے ایسے ہی مواقع چاہئیں۔ کیوں کہ آپ کی سمجھ میں ہمارا جسم ہی آتا ہے ہمارا دماغ ہماری سوچ نہیں آتی تو ہم نے بھی بے حیائی سے کہہ دیا کہ چلو یہیں سے آغاز کرتے ہیں’میرا جسم میری مرضی’۔
٭٭٭