... loading ...
حمیداللہ بھٹی
ہم ایسے لوگ ہیں جو نقصان کے باوجود سیکھتے نہیں بلکہ خود کو بری الذمہ سمجھ کرکسی اورکو ذمہ دار ٹھہراکر مطمئن ہونے والے ہیں ۔بات یہاں تک ہی محدودنہیں اگر کبھی غلطی کے اعتراف کی نوبت آ بھی جائے تو بھی یا تو حالات یا پھر خود نمائی کی خواہش سے مجبورہوکرایساکرتے ہیں اکثر ستائش حاصل کرنا مقصد ہوتاہے لیکن اس دوران بھی اتنی تاخیر کر دی جاتی ہے کہ غلطی کے ازالے کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ چھ مارچ کو سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے عدالتی فیصلے پر اُٹھائے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ یہاں معصومانہ سا سوال ہے کہ کیا غلطی کے اعتراف تک محدودرہنا ہے یامعلوم ہوجانے کے بعد اِدارہ جاتی غلطیاں درست بھی کرناہیں؟مجھے کہنے دیں کہ تب تک غلطی کے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں جب تک ایسا طریقہ کار نہیں بنایا جاتا جس سے مستقبل میںغلطیوں سے بچنے میں مدد ملے ۔اگر محض غلطی کے اعتراف تک محدود رہنا ہے تو یہ محض پوائنٹ ا سکورنگ ہو گی۔
ذوالفقار علی بھٹو کو 1979 میں ایک ایسے قتل کیس میں تختہ دار پر چڑھادیا گیا جس سے اُن کا براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ مشورے کے ملزم تھے۔ یہ پاکستان کی چھہتر سالہ تاریخ کا واحد کیس ہے جس میں مشورے کے ملزم کو پھانسی دی گئی۔ ظاہرہے مشورے کے ملزم کو ایسی کڑی سزا کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یہ سب کچھ مقبول سیاسی رہنما کو منظرِ عام سے ہٹانے کے لیے کیا گیا اسی لیے کچھ لوگ اسے عدالتی قتل قرار دیتے ہیں۔ اب چوالیس برس بعد سپریم کورٹ نے اِدارہ جاتی غلطی کاتو اعتراف کر لیا ہے جس پر پیپلز پارٹی اور مخصوص قانونی ماہرین اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں مگر یہ اعتراف نامکمل ہے کیونکہ یہ اعتراف محض کاغذوں تک محدود رہنے کا امکان ہے۔ جب ایک غلطی کا اعتراف کرنے میں نصف صدی کے قریب وقت لگ گیاتوسوچیں ازالے کے لیے کتنی مدت لگ سکتی ہے؟ نیزسوموٹو اختیارات ہونے کے باوجود یہ اعتراف ازخود نہیں کیا گیا بلکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011میں ریفرنس دائر کیا جس میں سپریم کورٹ کے مشاورتی دائرہ اختیارکے تحت پیپلز پارٹی کے بانی کو سنائی گئی سزائے موت پر نظر ثانی کے لیے رائے مانگی گئی تھی۔ کئی چیف جسٹس ملک کی سب سے بڑی عدالت میں انصاف کی کرسی پر براجمان رہے مگر تیرہ برس تک یہ مقدمہ سنا نہ جا سکابلکہ زیرِ التوا رہا جس سے یہ سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ ہمارے ملک کی عدالتوں میں مقدمات کس رفتار سے چلتے ہیں ۔اسی بناپر برسوں تک فیصلے کی نوبت نہیں آتی جو باعث ِتعجب ہے ضرورت اِس امر کی ہے کہ اگر اِدارہ جاتی غلطیوں کے اعتراف کا حوصلہ کر ہی لیا گیا ہے تو مستقبل میں ایسا نہ ہونے کا ایسا طریقہ کاربھی بنالیاجائے جونہ صرف آسان اور تیز ہو بلکہ جس سے ا نصاف کے تقاضے بھی پورے ہوں۔ علاوہ ازیںذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے اُن کا نام تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالنے کاحوصلہ کیا جائے ۔اِس سے آئندہ طاقت کے بل بوتے پر کسی بے گناہ کو سزادلانے کی حوصلہ شکنی ہوگی اور عدالتوں کا وقاربھی بہتر ہوگا۔
ستائش و خود نمائی انسانی جبلت میں شامل ہے مگر یہ جنون بن جائے تو آدمی نرگسیت کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ بیماری یا روگ کردار و اعمال کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ہماری سیاسی قیادت کی اکثریت اسی میں مبتلا ہے کسی کی صفائی نہیں دینا چاہتا ۔البتہ اتنی آرزو ہے کہ سیاسی قیادت بھی حقائق سے روگرادانی نہ کرے اور اِدارے بھی فرائض کی ادائیگی میں نرگسیت کا شکار نہ ہوں۔ بشری خامیاں سبھی میں ہوتی ہیں لیکن غلطی کا اعتراف کرنے سے کسی کے قد کاٹھ یا کردار پر اثر نہیں پڑتا۔ اہل فہم و دانش غلطی کے اعتراف میں کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ احمق ضد پر اڑتے ہیں ۔ہمارا طرزِ عمل بھی غلطی پر اڑ جانے والا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا چوالیس برس غلطی کے اعتراف میں لگتے ؟نیز تیرہ برس تک ملک کی اہم ترین جماعت کی عرضی سُننے سے پہلو تہی ہوتی؟اگر اب بھی ستائش تک محدود رہنا ہے تو یہ اعتراف بے معنی ہے۔
مقدمات کی بھرمارکو بالائے طاق رکھتے ہوئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میںنو رُکنی لارجر بینچ نے تیرہ برس قبل دائر کیے جانے والے صدارتی ریفرنس پر رائے کا اظہارتو کردیا ہے جس سے بس اتنی امید پیداہوئی ہے کہ ممکن ہے اب ہی سہی تاریخی غلطیاں درست کرنے کی نوبت آجائے مگر یہ اعتراف کئی حوالے سے ادھورا ہے اور محض اتنا ہواہے کہ ہمارے نظامِ انصاف میں کئی ایک سقم ہیں جن سے انصاف کا عمل طویل، مشکل اور پیچیدہ ہو چکاہے معلوم ہوجانے کے باوجود غیر ضروری تاخیر کااگر اب بھی خاتمہ نہیں ہوتا توغلطیوں کاصیح معنوں میں ازالہ ممکن نہیں ہو سکتا ۔البتہ اتنا ضرور ہواہے کہ ایک مقدمہ کو نمٹانے کا عمل مکمل ہو گیا ہے لیکن عدلیہ کے دامن پر دبائو کی وجہ سے مصلحت کیش ججوں کے قلم سے لگنے والے داغ دھونے کا عمل بددستورادھوراہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ دبائو کی وجہ سے ایسا فیصلہ دینے کے عمل میں شریک نہ صرف تمام نام عدالتی لسٹ سے خارج کیے جائیں بلکہ اُن کو حاصل تمام مراعات واپس لے کر اُن کی مذمت بھی کی جائے۔
صدارتی ریفرنس میں دریافت کیے گئے پانچ سوالوں کے جواب چیف جسٹس نے پڑھ کر سنائے ۔ایک سوال کیا بھٹو کوپھانسی دینے کا عمل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا کہ جواب میں غیر مبہم اعتراف کیا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں مقدمے کی کارروائی اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کے دوران آئین کے آرٹیکل چار اور نو کے تحت فیرٹرائل اور ڈیو پراسس کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا۔ابھی کچھ سوالات کے جوابات نہیں آئے ۔ عین ممکن ہے تفصیلی فیصلے میں ان کی بھی وضاحت کردی جائے جن سے یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ وہ کون سے بڑے آئینی اور قانونی سقم تھے جو منصفانہ ٹرائل اورانصاف کے تقاضوں کویقینی بنانے میں مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ خیر یہ بھی غنیمت ہے کہ مصلحت پسندی کی بجائے منصفانہ سماعت اور انصاف کے تقاضے پورے کر نے کا موقع فراہم نہ کرنے کو تسلیم کر لیاگیا۔کاش انصاف حاصل کرنے میں تاخیر کا باعث بننے والے عوامل کا بھی خاتمہ کر دیاجائے۔
عدالتی اعتراف سے موجودہ اتحادی حکومت میں شامل مسلم لیگ ن اور پی پی کی قیادت دونوں خوش ہیں۔ اپنی اتحادی جماعت پی پی کو خوش کرنے کے لیے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سنگین غلطی کاازالہ تو ممکن نہیں البتہ سنگین غلطی کے اعتراف سے ایک نئی تاریخ اور نئی روایت قائم ہوئی ہے وگرنہ چندبرس قبل اُن کے خیالات مختلف تھے اور وہ سرِ عام پی پی کے بانی کوملک توڑنے کا زمہ دار قرار دیتے تھے۔ پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹونے عدالتی رائے آنے پر کہا ہے کہ چوالیس برس بعد تاریخ درست کی جا رہی ہے اور سپریم کورٹ کی رائے آنے سے ملک کا جمہوری اور عدالتی نظام ترقی کرے گا مگر بات پھر وہی ہے جب تک غلطیاں درست نہیں کی جاتیں تب تک اعتراف بے معنی اور بے وقعت رہے گا ۔
ہماری سیاسی قیادت اگر ذمہ داری کامظاہرہ کرے تو مستقبل میں غلطیوں کی گنجائش کم ہو سکتی ہے۔ خوش قسمتی سے موجودہ اتحادی حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ اِس لیے آئینی ترامیم اور قانونی سازی کوئی مسئلہ نہیں مگر یہ تبھی ممکن ہے جب وقت گزارنے کا معمول ترک اور فرائض کی بجاآوری پر توجہ دی جائے۔ اگر اب بھی فرائض سے روگردانی کی جاتی ہے تو جس طرح ماضی میں ملک کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو ایک حملے کے دوران شہید کیا، بے نظیر بھٹو پر راولپنڈی میں حملہ کیا اور مقبول لیڈر کو بڑے ہجوم میں شہیدکر دیا۔ اب ڈیالہ جیل کے باہر سے بھی دہشت گرد گرفتار ہونے لگے ہیں ۔یہ دہشت گرد ہر بار راولپنڈی کیوں آتے ہیں اور سیاسی قیادت پر ہی حملہ آور کیوں ہوتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنا سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے اگر سیاسی قیادت کسی سوال کے جواب میں تساہل کا شکاررہتی ہے تو نہ صرف مقبول قیادت پر حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا بلکہ عدالتیں بھی بے گناہوں کو سزا دینے میں معاونت کرتی رہیں گی۔