... loading ...
حمیداللہ بھٹی
دنیاپربالادستی کے لیے کئی قوتیں متحرک ہیں جو اہداف حاصل کرنے کے لیے تجارتی ،دفاعی اور معاشی ہر محازپرہمہ وقت پُرجوش ہیں جس سے نئے اتحاد بننے اور ٹوٹنے کا عمل جاری ہے۔ علاقائی بالادستی کے کھیل میں رقبے اور آبادی کے حوالے سے نمایاں اوراب معاشی طاقت بننے والا بھارت بھی پیش پیش ہے جس سے ریاستی وسائل کا بڑا حصہ ہتھیاروں پرصرف ہوسکتا ہے جو امن کودائوپرلگانے کے مترادف ہے کیونکہ سالمیت کو لاحق خطرات کی وجہ سے علاقائی ممالک معاشی و تجارتی سرگرمیوں کی بجائے وسائل کا بڑا حصہ دفاع کے لیے مختص کرنے کی طرف راغب ہوسکتے ہیں جس سے نہ صرف تجارتی سرگرمیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے بلکہ غربت وبے روز گاری میں اضافے کے علاوہ سماجی بہبود کاشعبہ ناہموارہوسکتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں امن و امان کی صورتحال ہمیشہ غیر یقینی رہی ہے یہاں درجنوں علیحدگی کی تحریکیں موجود ہیں جو دہشت گردی میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے کئی ممالک رفاہی سے زیادہ سیکورٹی اسٹیٹ بن چکے ہیں پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے خطے میں فوجی ٹکرائوکاخطرہ بھی ہمیشہ موجود رہاہے۔ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات جوہری طاقت بننے کے بعدبہتر ہونے کے بجائے مزید گراؤٹ کا شکار ہیں بالخصوص مقبوضہ کشمیر کو یکطرفہ طورپر ضم کرنے سے سفارتی تعلقات پست ترین سطح پر ہیں ۔چند روز قبل چین سے اٹلی ساختہ مشنری لانے والا جہاز بھارت نے یہ کہہ کر ممبئی بندرگاہ پرروک لیا کہ اِس میں نیوکلیئراور بیلسٹک میزائل بنانے کے لیے استعمال ہونے والی مشنری ہے۔ حالانکہ پاکستان اور چین اِس کی تردید کرتے ہیں۔ ایک اور واقعہ میں بھارتی بحریہ اومانی بندرگاہ کی طرف سے ایک کشتی بزورگجرات لے گئی اور دعویٰ کردیا کہ اِس پر تین ہزارکلو منشیات ہے۔ نیز گرفتار ہونے والے پانچوں افراد پاکستانی ہیں، جبکہ پاکستانی بحریہ کے ترجمان کے مطابق کشتی بین الاقوامی سمندری حدودمیں تھی۔ ایسے اقدامات بحری گزرگاہ میں آمدورفت میں رخنہ کے مترادف ہیں جس سے نہ صرف سفارتی تلخی مزید بڑھ سکتی ہے بلکہ ٹکرائو کا امکان بھی رَد نہیں کیا جا سکتا ۔کسی حد تک صنعتی و تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ زمینی، فضائی اور بحری راستے سے آمدورفت بھی ہورہی ہے لیکن بھارت جس تیزی سے بری ،فضائی اور بحری طاقت میں اضافہ کررہا ہے، اس سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ اُسے امن قائم کرنے سے زیادہ بحری ناکہ بندی سے زیادہ دلچسپی ہے۔ یہ خیال یا سوچ امن کے لیے خطرناک اور جارحانہ عزائم کا آئینہ دار ہے دراصل چین کا مقابلہ کرنے کا تاثر دیکر بھارت خطے پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی روش پر گامزن ہے۔
بھارت کے جارحانہ عزائم کی وجہ سے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے اُس کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اسلحے کی خریداری سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ بھارت ہمسایہ ممالک کے خدشات دور کرنے میں سنجیدہ ہے بلکہ خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے چھوٹے ممالک کو مزید خوفزدہ کرنے کے اقدامات میں مصروف ہے جس سے ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں مزید تلخی آرہی ہے ۔ہر ملک کے عوام کو اپنی قیادت کے انتخاب کا حق حاصل ہے اور اِس حوالے سے کوئی بیرونی قوت کسی ملک کی عوام کو ہدایات نہیں دے سکتی مگر بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ ایشیا نہیں تو کم از کم جنوبی ایشیا کے ممالک میں اُس کی حامی حکومتیں معرض ِ وجود میں آئیں ۔ظاہر ہے ایسا کسی طورممکن نہیں جزائر پر مشتمل مالدیپ کے عوام سے یہ غلطی سرزد ہوئی ہے کہ انھوں نے گزشتہ برس کے صدارتی انتخاب میں محمد معیزوکوملک کا صدر منتخب کر لیا ہے جوملک میں بڑھتی بھارتی مداخلت کو پسند نہیں کرتے نیز ملک کا آزاد تشخص قائم رکھنے کے آرزومند ہیں۔ انھوں نے صدارتی انتخاب کے دوران وعدہ کیا تھا کہ صدر منتخب ہوکر ملک سے بھارتی فوجی نکال دیں گے۔ رواں برس جنوری میں صدر محمد معیزو نے چین کا سرکاری دورہ کیا۔ اِس دوران چینی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے کئی معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے جس سے بھارتی قیادت ناراض ہے ۔دورہ چین سے واپسی کے ایک دن بعد چودہ جنوری کو صدر معیزو نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ مالدیپ کی حدود بحیرہ ہند میں موجود اپنے تمام فوجیوں کو پندرہ مارچ تک واپس بلا لے، یہ مطالبہ یا بیان حیران کُن نہیں۔ ہر ملک کی قیادت عوام کی مرضی و منشا کے مطابق چلتی ہے تاکہ عوامی مقبولیت برقراررہے لیکن مالدیپ جیسے چھوٹے ملک کی قیادت آزادروش پر چلے بھارت کو یہ پسند نہیں اسی ناپسندیدگی کی وجہ سے جارحانہ اقدامات پر اُتر آیا ہے جس سے خطے میں ہتھیاروں کی نہ صرف دوڑ شروع ہونے کا خدشہ ہے بلکہ ریاستوں کے باہمی تعلقات متاثر ہونا بھی یقینی ہے۔
صدر معیزو نے مالدیپ میں مقیم جاسوسی طیارہ چلانے والے 89سیکورٹی اہلکاروں کو بھارت جانے کے لیے دوماہ کی مہلت دی تھی جن کا پہلا دستہ 10مارچ تک واپس روانہ ہونے والا ہے لیکن انسداد قزاقی ،انسدادِ منشیات وغیرہ کی آڑ میں بھارت نے سمندری حدود پر اجارہ داری قائم کرنے کے لیے نئے بحری اڈے بنانے پر کام شروع کر دیا ہے۔ بھارت کے لکشدیپ جزائر مالدیپ سے کچھ زیادہ دور نہیں بلکہ محض 130کلومیٹرکی دوری پر ہیں جہاں منی کوئے کے جزیرے پر ایک نیا بحرہ اڈا تکمیل کے قریب ہے اورچھ مارچ کو فعال ہونے والا ہے حالانکہ لکشدیپ کے کاواراتی نام کے جزیرے پر بھارت کا پہلے ہی ایک بحری اڈا موجود ہے نیا تعمیر کیا جانے والا اڈا 258 کلومیٹر کی دوری پر ہوگا۔ بھارتی بحریہ کے مطابق منی کوئے لکشدیپ کا سب سے جنوبی جزیرہ ہے جو مواصلات کی اہم سمندری خطوط پر ہے۔ بات یہ ہے کہ مالدیپ جیسے چھوٹی سی آبادی کے جزائر پر مشتمل ملک کو وہ اپنے تابع رکھنا چاہتا ہے جو کسی صورت بھارت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ البتہ بھارتی اقدامات سے خطے کے دیگر ممالک اپنے دفاع کے حوالے سے زیادہ حساس اور سنجیدہ ہوسکتے ہیں جس سے وسائل کا بڑا حصہ شہری فلاح و بہبود کی بجائے دفاع کے لیے مختص ہوسکتا ہے نیز ایسے اقدامات سے چین کو مداخلت کے زیادہ مواقع ملیں گے۔
مالدیپ جیسے کمزورملک سے بھارت کو خطرہ نہیں پھربھی ایک کمزور ملک کا صدر چین پر انحصار بڑھائے یہ بھارتی قیادت کوپسندنہیں۔ مالدیپ کی طرف سے بھارتی افواج کو گھر بھیجے جانے سے چند روز قبل نئے بحری اڈے کی تعمیر اِس خیال کو تقویت دیتی ہے کہ مالدیپ کے قریب تزویراتی لحاظ سے اہم جزیروں پربھارتی افواج کی تعیناتی دراصل علاقائی ممالک کو چین سے نہ صرف دور رہنے کا پیغام ہے بلکہ یہ اقدام بھارتی بالادستی قائم کرنے کی کاوش کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔ چندماہ سے بھارت اور مالدیپ کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں اور کشیدگی کا تاثر ہے بھارت نے اپنے شہریوں کو مالدیپ کی سیاحت سے بھی روک دیا ہے تاکہ سیاحت پر اُستوار معیشت کو نقصان سے
دوچار کیا جا سکے لیکن مالدیپ کی قیادت نے بھارتی پابندی کا اثر نہیں لیا اور پالیسی میں تبدیلی لانے کی بجائے چین سے شہریوں کو مالدیپ بھیجنے کی اپیل کر دی ہے بھارتی بحریہ کو جزیرہ نما ملک میں چین کی بڑھتی موجودگی کا شبہ ہے اُس کا خیال ہے کہ علاقے میں نیا اڈا بنا کر آپریشنل نگرانی کو توسیع دینے کے ساتھ بالادستی کو یقینی بنایاجاسکتا ہے لیکن جس طرح مالدیپ ا وربھارت ہم پلہ نہیں چین سے بھارت بھی دفاعی حوالے سے کم ترہے اورمیدان میں ایک سے زائد بار ہزیمت اُٹھا چکاہے تزویراتی لحاظ سے اہم جزیروں پر سیکورٹی ڈھانچے کو بتدریج بڑھانے اور مالدیپ کے گرد حصار بنا کر وہ سمندری حدودکی ناکہ بندی کرنے پرقادرتوہوگیا ہے لیکن ایسے اقدامات سے امن کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے بنگلہ دیش، نیپال اوربھوٹان بھی تو چینی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کررہے ہیں لیکن بھارتی قیادت اِس حد تک نہیں گئی جتنی عجلت مالدیپ کے گرد حصار قائم کرنے میں دکھائی گئی ہے اب ممکن ہے چین آبی گزرگاہ کو محفوظ بنانے کے لیے جوابی اقدامات کرے ایک بات طے ہے کہ آبی گزرگاہ کومحفوظ رکھنے کی آڑمیںبھارتی قیادت کے اقدامات سے خطے کا امن و سکون کو سمندربرد ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔