وجود

... loading ...

وجود

2مارچ ،یقین کی ہلاکت

پیر 04 مارچ 2024 2مارچ ،یقین کی ہلاکت

ب نقاب /ایم آر ملک

آزادی کی خاطر آپ کی جدوجہد اگر کامیاب ہو جائے تو انقلاب ورنہ بغاوت آپ کے ایسے جرم میں شمار ہوتی ہے جو آپ کو سامراج کے کسی پٹھو یا کٹھ پتلی حکمران کے ہاتھوں تختہ دار تک لے جاتاہے ۔تھامس سنکارا کو بر کینا فاسو میں وہی مقام حاصل ہے جو کیوبا میں چی گویرا کو، وہ بائیں بازو کا ایک محب وطن انقلابی تھا ۔فرانسیسی غلامی سے نجات دلانے کیلئے اُس نے اپنی قوم میں انقلاب کی نئی روح پھونک دی ۔
برکینا فاسو مغربی افریقہ کا ملک ہے۔ فرانسیسی سامراج کے تسلط کے زیر اثر اس ریاست کی آزادی کیلئے تھامس سنکارا کی روح ہمیشہ بے چین رہی ۔وہ چاہتا تھا کہ اُس کے ملک کے باسی آزادی کی فضا میں سانسیں لے سکیں۔ ایک آزاد ریاست میں اُن کو بھی جینے کا حق ہو۔ فرانسیسی سامراج کے خلاف تھامس سنکارا نے ایک منظم جدوجہد کی بنیاد رکھی ۔آزادی کے متوالے اُس کے ساتھیوں نے قربانیوں کی ایک طویل تاریخ اپنے لہو سے لکھی پھر 1983میں ایک روز فرانسیسی سامراج کے تسلط کو اس جدوجہد کے تسلسل نے پارہ پارہ کر دیا ۔سنکارا آزاد قوم کا نجات دہندہ بنا اورعوامی طاقت سے اقتدار کا تاج اُس کے سر پر سج گیا۔ جس دھرتی کی آزادی کی خاطر سنکارا اپنے لوگوں ،اپنی قوم کا ہراول بنا۔ اُسی دھرتی کو سنکار ا نے ”برکینا فاسو (دیانت دار انسان کی سر زمین )”کا نام دیا ۔سنکارا محب وطن تھا ،دھرتی کا بیٹا تھا وہ دھرتی کو اپنی ”ماں ”کہتا تھا۔ سو اُس نے اپنی مٹی کے ساتھ یہ عہد کیا ،یہ قسم اٹھائی کہ وہ ہر اُس لعنت سے اُسے نجات دلائے گا جو غلامی کی کسی بھی شکل میں دھرتی ماں کے ساتھ جڑی ہوئی ہوگی ۔اُس نے پہلا کام یہ کیا کہ برکینا فاسو کے تمام زمینی اور معدنی وسائل کو نیشنلائز کیا ،سامراج کے ساہو کار اداروں آئی ایم ایف ،ورلڈ بنک جن کے چنگل میں ملک کی معیشت سسک رہی تھی سے تمام تعلقات توڑ ڈالے۔ اُس نے بڑے پیمانے پر زرعی اصلاحات نافذ کیں جس کے نتیجے میں اناج کی ریل پیل ہو گئی، بر کینا فاسو خوراک میں خود کفیل ہو گیا ۔سنکارا نے اقتدار میں آتے ہی صحت ،تعلیم کے مسائل کو ہنگامی حالت میں حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اپنی نو آزاد ریاست کے 25لاکھ بچوں کی ویکسی نیشن کر ڈالی۔ تعلیم پر توجہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے دو سالوں میں برکینا فاسو کے تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعداد دُگنی ہو چکی تھی ۔سنکارا کا نظریہ تھا کہ کسی بھی دھر تی پر انقلاب اور آزادی شانہ بشانہ چلتے ہیں، آزادی کوئی خیرات نہیں بلکہ انقلاب کی فتح کی بنیادی شرط ہوتی ہے ۔سنکارا کے وزراء کی تنخواہیں انتہائی قلیل اور مراعات محدود تھیں ۔سنکارا کو جہاں اپنے عوام کے حقوق کی جانگسل جدو جہدکا سامنا تھا وہاں دو بڑے دشمن اُس کی تاک میں تھے ایک وہ طبقہ جو فرانسیسی سامراج کا لے پالک اُس کی ریاست کے اندر تھا اور ایک فرانسیسی سامراج جو ریاست کی سرحدوں سے باہر سنکارا کے عوام دوست عوامل سے خائف سازشوں کے تانے بانے بننے میں مصروف تھا ۔سازشیں عروج پکڑتی چلی گئیںاور ایک انقلابی حکومت سامراج اور اُس کے پالتو غنڈوں کیلئے ناقابل برداشت بنتی گئی۔ ایک غدار وطن اور سامراج کے دست راست کمپیئورے کی مدد سے بالآخرریاستی سازش اپنے انجام کویوں پہنچی کہ سامراجی قوت نے اقتدار پر شب خون مار کر سنکارا کو قتل کر کے جسمانی طور پر برکینافاسو کے عوام سے الگ کردیا۔
عوامی خواہش پر پائوں رکھ کر ایک غدار وطن کا اقتدار 1991سے شروع ہوا۔ سامراج کا یہ لے پالک کارندہ چار مرتبہ اقتدار کے سنگھاسن پر عوامی خواہش کے برعکس مسلط ہوتا رہا ۔مگر جب اُس نے پانچویں مرتبہ ایک خود ساختہ آئینی ترمیم کے ذریعے ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہونے کیلئے خود ساختہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا توایک آمر کے مظالم سے ستائے لاکھوں افراد نے پارلیمنٹ کی طرف مارچ شروع کر دیا۔ سخت سکیورٹی کے حصار کو توڑتے ہوئے باغی عوام نے پارلیمنٹ کو آگ لگا دی ۔عوامی یلغار نے صدارتی محل کا رخ کیا تو اُس کو آنسو گیس کی شیلنگ اور گولیوں کی بوچھاڑ سے روکنے کی ناکام کوشش کی گئی ۔عوام کے بپھرے ہوئے جذبات نے حکمران جماعت کے دفاتر جلا ڈالے۔ صدر کے رشتہ داروں کے گھر وں کو آگ کے شعلوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آرمی چیف کی وارننگ اور کرفیو کا اعلان بے سود ثابت ہوا اور عوام نے دارالحکومت کے مرکزی چوک پر قبضہ کر کے اُس کا نام قومی چوک سے تبدیل کر کے ”انقلابی چوک ” رکھ دیا ۔یہ عوامی تحریک عوام کی جیت پر متنج ہوئی۔
30اکتوبر2014کو امریکہ کا اہم اتحادی اور عوام پر ناجائز طور پر قابض ، دارالحکومت میں 2007سے امریکی اڈہ قائم کرکے امریکہ کیلئے جاسوسی کرنے والا دھرتی کا غدار کمپیئورے داستانِ عبرت بن گیا ۔ عوام کے اندر کئی برسوں سے پکنے والا لاوا غم و غصے اور تحریک میں بدلاتو 27برسوں سے اقتدار پر قابض امریکہ کا ایک ایجنٹ اُس کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔ 2011میں بھی اس آمر نے عوام کے غصے ، نفرت ، احتجاج کو طاقت کے ذریعے ،جبر اور ریاستی تشدد سے روکا ، سراپا احتجاج لوگوں کو پابند سلاسل کیا ۔ مگر عوامی غصے کو ،تحریک کو احتجاج کو، وقت کے آمر کچھ وقت کیلئے ،کچھ عرصہ کیلئے شاید روکنے میں کامیابی کے دعویدار ٹھہریں ،اقتدار کی اندھی طاقت کے زعم میں عقل کل کہلائیں مگر اُن کی یہی منطق ،اقتدار کی اندھی طاقت کازعم نوشتۂ دیوار بن کر تاریخ کا حصہ بن جایا کرتا ہے۔ اپنی جعلی جیت کے بعد کئی روز سے میں حکومتی اکابرین ،حواریوں کو اس منطق میں مبتلا دیکھتا ہوںجو طاقت کے اس خمار میں گھرے ہوئے ہیں کہ ہم نے ایک خود ساختہ سانحے کی آڑ میں سراپا احتجاج افراد پر اپنے گلو بٹوں سے گولیاں چلوا کر بے گناہ خواتین اور نوجوانوں ،بزرگوں کو پابند ِسلاسل کرکے عوامی تحریک کے سیلاب کے آگے بند باندھ دیا ،8فروری کو اپنے لے پالک سلطان سکندر راجہ سے عوام کے حق خودارادیت کو بزور طاقت چھین لیا ،مگر وہ شاید بھول رہے ہیں کہ اب کی بار جب عوام باہر نکلے تو اُنہیں نہ تو کوئی اقتدار کی اندھی طاقت روک پائے گی اور نہ ہی ریاستی جبر اور تشدد عوامی جذبات پرچوٹ لگا سکے گا ۔ 2مارچ کو شہروں کو منجمد کر دینے والے احتجاج نے حکومت وقت کے جسم میں خوف کی ایک لہر دوڑا کر ثابت کردیا کہ ہم اپنا چھینا گیا حق واپس لے کر دم لیں گے ،انسان اندھی طاقت کے زعم میں مبتلا ہوجاتا ہے مگر تقدیر دور کھڑی مسکرا کر یقین کی ہلاکت کے دھاگے بنتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر