... loading ...
زرّیں اختر
سات سال کے وقفے کے بعدسابق وزیر ِ اعظم نواز شریف قومی اسمبلی تشریف لائے ۔ ان کے خطاب میں کیاتھا؟ زبان کو سامنے رکھتے ہوئے تجزیہ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا’اگر ہماری خدمت او ر حکومت کا تسلسل جاری رہتاتو پاکستان آج جی 20ممالک میں شامل ہوتا’۔ عوام کے حقیقی رہنما اسی طرح سوچتے ہیں او رانہیں سوچنا چاہیے کہ و ہ قوم کے خادم ہیںاور یہ اقتدار امانت ہے ۔لیکن ہوتایہ نہیں ہے اس لیے لفظ ‘خدمت’ اپنے معنی کھو دیتاہے۔ حکمران طبقے کی تنخواہیں اور مراعات عام آدمی تصور میں نہیں لاسکتا۔اس کے بعدجو انہوں نے کہااس پر غالب یاد آتے ہیںکہ :
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتاہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
یعنی ان کی حکومت برقرار رہتی تو پاکستان آج جی 20ممالک میں شامل ہوتا۔
نواز شریف نے کہا کہ ‘سپریم کورٹ نے 2017میں مجھے فارغ کیا ،آج وہ جج کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں ہیں،ایک جج جسے چیف جسٹس بننا تھا اس نے استعفیٰ دیا،ثاقب نثار آج کہاں ہیں’۔
یہ زبان بتا رہی ہے کہ نواز شریف صاحب کا نہ صرف مزاج نہیں بدلا بلکہ انہوں نے کچھ زیادہ سیکھا بھی نہیں۔ نہ سنجیدگی ان کے مزاج کا حصہ بنی نہ فراست ان کی سوچ کا۔ ان جملوں میں غصے کا اظہار بھی ہے اور تکبر کابھی کہ ہم دوبارہ پارلیمنٹ میں ہیں وہ کہاں ہیں؟ نیلسن منڈیلا بھی 27سال قید سے رہا ہونے کے بعد گوروں کو للکارتے کہ آج وہ کہاں ہیں جنہوں نے مجھے قید میں ڈالا؟کون کہاں یہ وقت کو ثابت کرنے دیں،فیصلہ تاریخ کرے گی۔ ویسے بھی یہ درباری مورخوں کا دور نہیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ ‘پاکستان آج جتنی زیادہ زخمی حالت میں ہے اس سے پہلے نہیں دیکھا،مسائل کا حل آج مشکل نظر آرہاہے، شہباز شریف نے 16ماہ جیسی کارکردگی اور ہمت دکھائی ،اگر میں شہباز شریف کی جگہ ہوتاتو حکومت چھوڑ چکا ہوتا’۔جن مشکلات کا نواز شریف تذکرہ کررہے ہیں وہ حکومت کرنے کی مشکلات عوامی مشکلات ۔باقی یہ خود مشکل وقت میں حکومت تو نہیں البتہ ملک ضرور چھوڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ‘ن لیگ کے عوامی منصوبوں کی تختیاں گنی جائیں تو مہینوں لگ جائیں گے،مگر اس کا صلہ کیا ملا، نواز شریف کا تختہ الٹ دیاگیا’۔
جہاں اپنے کارنامے خود بیان کیے جائیں ؟اپنا نام اپنے منہ سے الاپا جائے؟ مجھے وہ وڈیو یاد ہے جس میں نواز شریف اپنی بیگم کلثوم نواز جو اس وقت کوما میں تھیں ان کی عیادت کررہے ہیںاور کہہ رہے ہیں”بائو جی”، وہ اپنی بیگم کو نہیں پکار رہے تھے بلکہ وہ الفاظ بول رہے تھے جن سے وہ انہیں پکارتی تھیں۔ نواز شریف نے کہاکہ’ کراچی کے لوگ انہیں دعائیں دیتے ہیں’۔ اگر ان کے خیال میں کراچی کے لوگ جون 92بھول گئے۔ تاریخ کو کتنا بھلا کے آگے بڑھا جاسکتاہے؟
٭٭٭
کار ریس سوار اور فٹ پاتھیے
جہاں خا ندان کے خاندان فٹ پاتھ پر سوتے ہیں وہاںمن چلے نوجوان کار وں کی ریسیںبھی لگاتے ہیں۔ایک کار فٹ پاتھ پر چڑھ جاتی ہے اور پانچ بھائیوں میں سے تین سوتے میں بھگوان کو پیارے ہوجاتے ہیں(کیوں کہ ہلاک شدگان کا تعلق ہندو برادری سے تھا اور ہمارے مولوی حضرات مذہب کے معاملے میں بہت حساس ہیں اور ہمیں ان کی دل آزاری قطعی مقصود نہیں)۔ ان کار ریسو ںمیں جو کار آگے نکل گئی تھی وہ واپس آئی ، زخمیوں کو اٹھانے کے لیے نہیں بلکہ حادثے کے ذمہ دار کار سواروں کو بھگانے کے لیے ،کارسوارو ں میںسے جو ایک زخمی تھا ،ظاہر سی بات ہے کہ کسی خان دان کا چشم و چراغ تو جانے کس امیر پرور نے اس کے زخموں کا خیال کرتے ہوئے براہ ِمرہم پٹی اسپتال پہنچایا اور وہ وہاں سے موقع پا کر رفو چکر ہوگیا۔ اس کو تو تھانے پہنچانا تھا،پولیس اس کی مرہم پٹی کا بھی بندوبست کرتی ،لواحقین کی بھی داد رسی کے کچھ انتظام کی توقع کی جا سکتی ،پولیس والے اب اِن غریب کے لیے اُن ماں باپ کے چہیتوں کوکہاں تلاش کریںگے اور اگر کریں گے بھی تو کیاان مصیبت کے ماروں کے لیے ۔ ہلاک شدگان کی عمریں اٹھارہ سے بائیس سال۔والدین کی تیئس چوبیس سال کی کمائی تو گئی ،لیکن دنیا تو یہی کہے گی کہ قسمت کے لکھے کو کون مٹا سکتاہے اوروہ ریس سوار تو بس قسمت کا لکھا پورا کرنے کے لیے اوپر سے بھیجے گئے تھے وہ نہ ہوتے تو کوئی اور ہوتا۔ ان تینوں کی موت ایک ساتھ ایسی ہی لکھی تھی کہ گاڑی کے پہیوں کے نیچے ان کی ہڈیاں پسلیاں آئیں۔
٭٭٭
بیوی نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر 35سالہ شوہر کو جو ویلڈنگ کا کام کرتھا تھاقتل کردیا۔ قتل کی وجہ وہ بیوی کو مارتا پیٹتا تھا۔ بیوی اور باپ کی تصویر بھی شائع ہوئی ۔ خاصی صحت مند عورت اور اتنا ہی توانا اس کا باپ۔ کیاپٹنے والی عورت بھی اتنی صحت مند ہوسکتی ہے؟وہ تو ایک تھپڑ کے جواب میں دو کیا دس تھپڑ لگاسکتی تھی لیکن قتل۔ قتل کرنے کا سوچ سکتی ہے، باپ کے ساتھ مل کرشوہر کو قتل کرنے کا منصوبہ بناسکتی ہے، باپ کو بیٹی کی اتنی محبت کہ وہ اس منصوبے میں ساتھ دے سکتاہے اور وہ مل کر اس گھنائونے منصوبے کو عملی جامہ بھی پہنا دیتے ہیں۔ لسی میں نشہ آور دوائیں ملا کرپلائیں اور بے ہوشی کی حالت میں چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا۔ پٹائی کا بدلہ قتل؟
منظور کالونی میں بھی قتل کی ایک لرزہ خیز واردات کی خبرہے ۔
آدمی جس کے اندر شیطانیت حلول کرجائے ،خو ں خوار جانور سے بدتر ہے ۔معاشرے میں بہیمانہ وارداتوں کی خبریں بہت خوف ناک
ہیں۔ کسی فرد میں کیا اور کون چھپا بیٹھا ہے ،کب آدمی اپنے اندر اٹھنے والی منفی آوازوں کو دبانے کے بجائے ان پرعمل کرگزرے، جو یہاں سنبھل گیا وہ سدھر گیا جو نہ سنبھلا وہ دنیا سدھار ے۔پندرہ سالہ سفیان کے ہاتھوں بارہ سالہ ابان کا قتل ،ویسا ہولناک قتل جیسا اس نے فلم اینیمل میں دیکھا، حساس لوگوں سے فلم کا وہ منظر نہ دیکھاجائے جس پر سفیان عمل کرگزرا۔ قانون کی لاعلمی کو کوئی عذر نہیں تو بھیانک عمل کو کیسا عذر۔
٭٭٭