وجود

... loading ...

وجود

مجھے کیوں نکالا؟

اتوار 03 مارچ 2024 مجھے کیوں نکالا؟

زرّیں اختر

سات سال کے وقفے کے بعدسابق وزیر ِ اعظم نواز شریف قومی اسمبلی تشریف لائے ۔ ان کے خطاب میں کیاتھا؟ زبان کو سامنے رکھتے ہوئے تجزیہ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا’اگر ہماری خدمت او ر حکومت کا تسلسل جاری رہتاتو پاکستان آج جی 20ممالک میں شامل ہوتا’۔ عوام کے حقیقی رہنما اسی طرح سوچتے ہیں او رانہیں سوچنا چاہیے کہ و ہ قوم کے خادم ہیںاور یہ اقتدار امانت ہے ۔لیکن ہوتایہ نہیں ہے اس لیے لفظ ‘خدمت’ اپنے معنی کھو دیتاہے۔ حکمران طبقے کی تنخواہیں اور مراعات عام آدمی تصور میں نہیں لاسکتا۔اس کے بعدجو انہوں نے کہااس پر غالب یاد آتے ہیںکہ :
ہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتاہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
یعنی ان کی حکومت برقرار رہتی تو پاکستان آج جی 20ممالک میں شامل ہوتا۔
نواز شریف نے کہا کہ ‘سپریم کورٹ نے 2017میں مجھے فارغ کیا ،آج وہ جج کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہیں ہیں،ایک جج جسے چیف جسٹس بننا تھا اس نے استعفیٰ دیا،ثاقب نثار آج کہاں ہیں’۔
یہ زبان بتا رہی ہے کہ نواز شریف صاحب کا نہ صرف مزاج نہیں بدلا بلکہ انہوں نے کچھ زیادہ سیکھا بھی نہیں۔ نہ سنجیدگی ان کے مزاج کا حصہ بنی نہ فراست ان کی سوچ کا۔ ان جملوں میں غصے کا اظہار بھی ہے اور تکبر کابھی کہ ہم دوبارہ پارلیمنٹ میں ہیں وہ کہاں ہیں؟ نیلسن منڈیلا بھی 27سال قید سے رہا ہونے کے بعد گوروں کو للکارتے کہ آج وہ کہاں ہیں جنہوں نے مجھے قید میں ڈالا؟کون کہاں یہ وقت کو ثابت کرنے دیں،فیصلہ تاریخ کرے گی۔ ویسے بھی یہ درباری مورخوں کا دور نہیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ ‘پاکستان آج جتنی زیادہ زخمی حالت میں ہے اس سے پہلے نہیں دیکھا،مسائل کا حل آج مشکل نظر آرہاہے، شہباز شریف نے 16ماہ جیسی کارکردگی اور ہمت دکھائی ،اگر میں شہباز شریف کی جگہ ہوتاتو حکومت چھوڑ چکا ہوتا’۔جن مشکلات کا نواز شریف تذکرہ کررہے ہیں وہ حکومت کرنے کی مشکلات عوامی مشکلات ۔باقی یہ خود مشکل وقت میں حکومت تو نہیں البتہ ملک ضرور چھوڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ‘ن لیگ کے عوامی منصوبوں کی تختیاں گنی جائیں تو مہینوں لگ جائیں گے،مگر اس کا صلہ کیا ملا، نواز شریف کا تختہ الٹ دیاگیا’۔
جہاں اپنے کارنامے خود بیان کیے جائیں ؟اپنا نام اپنے منہ سے الاپا جائے؟ مجھے وہ وڈیو یاد ہے جس میں نواز شریف اپنی بیگم کلثوم نواز جو اس وقت کوما میں تھیں ان کی عیادت کررہے ہیںاور کہہ رہے ہیں”بائو جی”، وہ اپنی بیگم کو نہیں پکار رہے تھے بلکہ وہ الفاظ بول رہے تھے جن سے وہ انہیں پکارتی تھیں۔ نواز شریف نے کہاکہ’ کراچی کے لوگ انہیں دعائیں دیتے ہیں’۔ اگر ان کے خیال میں کراچی کے لوگ جون 92بھول گئے۔ تاریخ کو کتنا بھلا کے آگے بڑھا جاسکتاہے؟
٭٭٭
کار ریس سوار اور فٹ پاتھیے
جہاں خا ندان کے خاندان فٹ پاتھ پر سوتے ہیں وہاںمن چلے نوجوان کار وں کی ریسیںبھی لگاتے ہیں۔ایک کار فٹ پاتھ پر چڑھ جاتی ہے اور پانچ بھائیوں میں سے تین سوتے میں بھگوان کو پیارے ہوجاتے ہیں(کیوں کہ ہلاک شدگان کا تعلق ہندو برادری سے تھا اور ہمارے مولوی حضرات مذہب کے معاملے میں بہت حساس ہیں اور ہمیں ان کی دل آزاری قطعی مقصود نہیں)۔ ان کار ریسو ںمیں جو کار آگے نکل گئی تھی وہ واپس آئی ، زخمیوں کو اٹھانے کے لیے نہیں بلکہ حادثے کے ذمہ دار کار سواروں کو بھگانے کے لیے ،کارسوارو ں میںسے جو ایک زخمی تھا ،ظاہر سی بات ہے کہ کسی خان دان کا چشم و چراغ تو جانے کس امیر پرور نے اس کے زخموں کا خیال کرتے ہوئے براہ ِمرہم پٹی اسپتال پہنچایا اور وہ وہاں سے موقع پا کر رفو چکر ہوگیا۔ اس کو تو تھانے پہنچانا تھا،پولیس اس کی مرہم پٹی کا بھی بندوبست کرتی ،لواحقین کی بھی داد رسی کے کچھ انتظام کی توقع کی جا سکتی ،پولیس والے اب اِن غریب کے لیے اُن ماں باپ کے چہیتوں کوکہاں تلاش کریںگے اور اگر کریں گے بھی تو کیاان مصیبت کے ماروں کے لیے ۔ ہلاک شدگان کی عمریں اٹھارہ سے بائیس سال۔والدین کی تیئس چوبیس سال کی کمائی تو گئی ،لیکن دنیا تو یہی کہے گی کہ قسمت کے لکھے کو کون مٹا سکتاہے اوروہ ریس سوار تو بس قسمت کا لکھا پورا کرنے کے لیے اوپر سے بھیجے گئے تھے وہ نہ ہوتے تو کوئی اور ہوتا۔ ان تینوں کی موت ایک ساتھ ایسی ہی لکھی تھی کہ گاڑی کے پہیوں کے نیچے ان کی ہڈیاں پسلیاں آئیں۔
٭٭٭
بیوی نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر 35سالہ شوہر کو جو ویلڈنگ کا کام کرتھا تھاقتل کردیا۔ قتل کی وجہ وہ بیوی کو مارتا پیٹتا تھا۔ بیوی اور باپ کی تصویر بھی شائع ہوئی ۔ خاصی صحت مند عورت اور اتنا ہی توانا اس کا باپ۔ کیاپٹنے والی عورت بھی اتنی صحت مند ہوسکتی ہے؟وہ تو ایک تھپڑ کے جواب میں دو کیا دس تھپڑ لگاسکتی تھی لیکن قتل۔ قتل کرنے کا سوچ سکتی ہے، باپ کے ساتھ مل کرشوہر کو قتل کرنے کا منصوبہ بناسکتی ہے، باپ کو بیٹی کی اتنی محبت کہ وہ اس منصوبے میں ساتھ دے سکتاہے اور وہ مل کر اس گھنائونے منصوبے کو عملی جامہ بھی پہنا دیتے ہیں۔ لسی میں نشہ آور دوائیں ملا کرپلائیں اور بے ہوشی کی حالت میں چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا۔ پٹائی کا بدلہ قتل؟
منظور کالونی میں بھی قتل کی ایک لرزہ خیز واردات کی خبرہے ۔
آدمی جس کے اندر شیطانیت حلول کرجائے ،خو ں خوار جانور سے بدتر ہے ۔معاشرے میں بہیمانہ وارداتوں کی خبریں بہت خوف ناک
ہیں۔ کسی فرد میں کیا اور کون چھپا بیٹھا ہے ،کب آدمی اپنے اندر اٹھنے والی منفی آوازوں کو دبانے کے بجائے ان پرعمل کرگزرے، جو یہاں سنبھل گیا وہ سدھر گیا جو نہ سنبھلا وہ دنیا سدھار ے۔پندرہ سالہ سفیان کے ہاتھوں بارہ سالہ ابان کا قتل ،ویسا ہولناک قتل جیسا اس نے فلم اینیمل میں دیکھا، حساس لوگوں سے فلم کا وہ منظر نہ دیکھاجائے جس پر سفیان عمل کرگزرا۔ قانون کی لاعلمی کو کوئی عذر نہیں تو بھیانک عمل کو کیسا عذر۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر