... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
یقینامجھے اُس نسل کا مقدمہ لڑنا ہے جو سڑکوں بازاروں تربتوں کے قریب اپنے آپ کو نشے میں مخمور کرتی ہے اور پھر اِس نسل کو بات کرنے والے کا لہجہ بھی یاد نہیں رہتا۔ بے خود ہو کر پڑنے والی نسل کا کوئی تو ہو جو دکھ سمجھ سکے۔ کیا یہ اس نسل کے بڑوں کی بد اعمالیاں نہیں جو یہ اپنی ذات کے دکھ اپنے ،اپنی ناکامیوں اور اپنی خواہشوں کے نڈھال کندھوں پر لیے خود کو یہاں سے وہاں گھسیٹتی پھر رہی ہے ،جسے آنکھ کھولتے ہی ناخلف اور بے راہ روی کے راگ سننے کو ملیں ،جس کو بڑے ناکارہ سمجھ کر خود سے دور رکھتے ہوں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو سمجھا ہی نہیں گیا ۔وہ جیتنا بھی چاہیں تو ہار جاتے ہیں اور ہمارے نوجوان کے ساتھ ایک ٹریجڈی یہ بھی ہے کہ اُس نے جب بھی جوانی اور تجربے کے فاصلے کو مٹانا چاہا تو اُسے جونیئر رینک کا طعنہ ملا۔ جونیئر ہونا بُری بات نہیں مگر اس بات پر بڑے اتنا طنز کرتے ہیں کہ ہمارا نوجوان سنیارٹی سے وحشت زدہ ہو کر اندھیروں میں ڈوب رہا ہے اور آج نئی نسل یہ سمجھ رہی ہے کہ نشے کی لت میں پڑ کر وہ بے خودی کے اندھیرے میں چُھپ گئی ۔
نہیں معصوم نوجوانو!
تم اب بھی دنیا کی نظرمیں ہو بس تم لوگوں کا احساس اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔ ہمارے مورث نے جب یہ ملک حاصل کیا تھا تو سب کو لگن تھی ،محبت تھی ،اِس وطن سے اور سب اپنوں کی طرح رہتے تھے پھر سب اِس وطن کی ترقی اور تشخص کیلئے کام کرنے لگے۔ ترقی کی اس دوڑ میں سب بھاگتے رہے، پر وقت کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص طبقہ کے اصول بدل گئے یہ وہ طبقہ تھا جو اپنی جاگیریں بچانے کیلئے بانی پاکستان کے ساتھ علیحدہ وطن کی جدوجہد میں شامل ہوا۔ یہی وہ طبقہ تھا جس نے انگریز کے خلاف لڑی جانے والی آزادی کی جنگ میں غداروں کی فہرست میں اپنا نام لکھوایا، یہ طبقہ وطن کے بجائے اپنے گھر کو سجانے میں لگ گیا،اپنی چار دیواری اونچی سے اونچی کرتا رہا جس کی نگاہ میں محض اپنے مفادات رہ گئے اقبال نے جس کو شاہین کا نام دیا تھا، اِس طبقہ نے اُس شاہین کے پر نوچ ڈالے ۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے بڑے بھی اعتماد ،محبت اور یگانگت کا ورثہ سنبھال نہ پائے اور کرپشن کی اس جنگ میں وہ بھی شامل ہوگئے سچی محبت ،بے غرض خلوص ،اس کرپشن اور آگے بڑھ جانے کی ہوس میں ہمارے دلوں سے ہجرت کر گئے آج کتابی معاشرے اور اس معاشرے میں فرق محسوس کرنے کی ضرورت ہے جس میں ہم سب دکھ بھری الجھن میں سانس لے رہے ہیں، اس ادراک کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ ہماری کوئی شناخت ہے ،نہ ہی پہچان اور نہ ہی ہماری ذمہ داری ریاست قبول کر رہی ہے ؟
کیا کسی نئے جوش ولولے سے بھرے نوجوان کے عزائم اور خوابوں کو چکنا چور کرنے کیلئے ایک دانشور کی یہ بحث کافی نہیں ۔ہمارے ہاں ایک مثبت بحث کے دوران بد تمیزی اور نافرمانی جیسے طعنے بھی روز مرہ کا معمول ہیں ،کامیابی کی راہوں پر مطلب پرستی کے خار بچھائے جاتے ہیں ،خود داری کے گلے میں خود غرضی کی رسی ڈال کر دور تک کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔تجربہ اور جوانی ساتھ ساتھ چلے تو یہ دنیا ترقی کی راہ لگتی ہے مگر تجربہ اور جوانی جب اپنے اپنے مرکزوں ،اپنے اصولوں ،ضابطوں کے کھونٹوں سے بندھے ہوں اور اک دوجے سے منہ موڑے رکھیں تو فساد اور بغاوت جنم لیتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نفسیاتی طور پر ہماری آج کی نسل بے راہ روی ،بے دلی ،ناامیدی کا شکار ہے ۔ یہ ناامیدی بے زاری ،تشدد ،نفرت میں ڈھل کر دہشت گرد جنم دے رہی ہے ،نشے میں گرتے پڑتے بے خودوں کو جنم دے رہی ہے جن ہاتھوں میں قلم کتاب ہونا چاہیے اُن میں اسلحہ آگیا جو ہمیں ہی نہیں اِس زمین کو بھی پامال کر رہا ہے۔ آج کی نسل کا ایک نفسیاتی پہلو یہ بھی ہے کہ اُس میں اعتدال نہیں ،وہ ہمیشہ جذباتی دبائو میں رہتی ہے صرف اس لیے کہ اُس کو سمجھنے میں غلطی کی جاتی ہے ۔اُس کو آزمانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی ۔
بڑے کہتے ہیں کہ نوجوانوں کے پاس جذباتیت کے علاوہ کچھ نہیں اِس ایک لفظ کی تکرار ہی اُن کو ہپناٹائز کر دیتی ہے پھر اُن کاجسم بھی وہی حرکات کرتا ہے جو اُن کی سوچ میں ،دماغ میں بار بار شکوہ شکایت کرکے ڈال دیا جاتا ہے۔ ہر بات میں حکومت کی کمیشن رپورٹ کی طرح نوجوانوں سے خاموش رہنے کو کہا جاتا ہے ۔ہم قیام پاکستان سے لیکر آج تک اس خود غرض ڈھانچے کو نہیں بدل سکے۔ اِ س لیے اے معصوم نسل کے نوجوانو !تم اپنے رویئے کو بدل دو اپنے آپ کو خود ہی سنبھالو کیونکہ پروفیسرز کو ذہنی مریض چاہیے ہوتے ہیں ،ڈیبیٹرز کو واہ واہ کرنے والے بے خود ناکارہ نوجوان چاہئیں، یہاں تو کچھ دن سکون رہے تو خود ہی اپنا کوئی بہن ،بھائی ،مار دیا جاتا ہے ۔یہاں اچھے بھلے انسان کو بیٹھے بٹھائے مریض بنا دیا جاتا ہے۔ یہاں نعرہ ہے کہ غربت نہیں غریب کو مٹائو ۔دنیا طاقت کا ساتھ دیتی ہے معصوم نوجوانو! سمجھ جائو اِس بات کو کہ نشہ تمہیں مکمل ناکارہ کر دے گا تم دنیا سے نہیں دنیا تم سے بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔