... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو،بچپن میں غربت بہت زیادہ دیکھی، یہاں تک کہ جب میٹرک میں تھے اس وقت اسکول جانے کیلئے آٹھ آنے ملاکرتے تھے۔صرف اسکول آنے جانے کیلئے اس وقت بس کا کرایہ جو اسٹوڈنٹ کیلئے تیس پیسے ہوتاتھادونوں اطراف کا کرایہ ساٹھ پیسے بنتا تھا۔ اس زمانے میں کے ٹی سی کی لال بسیں پورے کراچی میں چلا کرتی تھیں۔۔ تو ہم پیدل اسکول جایا کرتے تھے اور روزانہ پون گھنٹے اسکول پہنچنے اور واپسی کا بھی اتنا ہی ٹائم لگتا تھا۔۔ یہ کوئی اتنی پرانی بات نہیں۔انیس سو اٹھاسی کا ذکر کررہے ہیں۔۔ جس اسکول میں چھٹی سے دسویں تک تعلیم حاصل کی وہ انگریزی میڈیم تھا، جہاں بچوں کو ان کے والدین کاروں، بائیکس پر چھوڑنے آتے تھے اور جنہیں چھوڑنے نہیں آتے تھے وہ اپنی سائیکل پر آتے تھے۔۔ لیکن ہمارا ان سے کیا مقابلہ۔۔
بات ہورہی تھی۔۔ قنات پسندی کی۔۔ ہمیں بچپن میں ”قناتیں” بہت پسند تھیں، جہاں قنات لگی دیکھی، وہاں گھس گئے اور پیٹ بھر کر کھانا کھالیا۔۔اس زمانے میں بریانی اور قورمہ کے علاوہ تیسری کوئی اور ڈش قناتوں میں نہیں پائی جاتی تھی۔ میٹھے میں ہمیشہ پیلے رنگ کا زردہ ہی دستیاب ہوتا تھا۔۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ کبھی کسی بیگانی شادی میںعبداللہ دیوانے کو کسی نے پکڑا نہیں۔۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ہم صاف ستھرے رہا کرتے تھے۔ ڈریسنگ شاندار رکھتے تھے اور بال سلیقے سے بنے ہوتے تھے۔ لوگ ہمیں مہمان سمجھ کر اسی طرح ٹریٹ کرتے تھے۔۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں ”قنات پسندی” کی لت کیسے لگی؟ چونکہ ہماری طبیعت میں ”قناعت” کوٹ کوٹ کر بھری تھی اس لئے قنات کو پسند کرتے تھے۔۔ویسے آپ لوگوں سے سوال ہے کہ لڑکے زیادہ قناعت پسند ہوتے ہیں یا لڑکیاں؟؟ ہم نے باباجی سے بھی یہی سوال کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ۔۔ لڑکے قناعت پسند اور لڑکیاں قنات پسند ہوتی ہیں۔۔ کوئی شادی کی تقریب ہو ، خاندان میں یا باہر۔۔لڑکے شادی میں جانے کے بجائے اپنے دوستوکو ٹائم دینا پسند کرتے ہیں، لیکن لڑکیاں شادی میں شرکت کے لئے پاگل ہوئی پھرتی ہیں، جس کے لئے وہ کئی روز پہلے سے تیاریاں بھی شروع کردیتی ہیں۔
لڑکیاں پیپر والے دن بھی موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر کتاب میں جھانک رہی ہوتی ہیں۔ کہ کوئی سوال رہ تو نہیں گیا۔ کمرہ جماعت میں آدھا گھنٹا پہلے پہنچتی ہیں اور یوں منہ ہی منہ میں بیٹھ کر سوالات دہراتی رہتی ہیں گویا کوئی جن قابو کرنے کیلئے چلہ کاٹ کر رہی ہوں۔ شکی مزاج اس قدر کہ دس بارہ بال پن ساتھ لے کرجاتی ہیں اور باری باری سب بال پنز کو چیک کرتی ہیں کہ چل رہے ہیں یا نہیں۔ اور جیسے ہی امتحانی پرچہ ان کے ہاتھ آتا ہے تو گردن ایسے جھکا کر بیٹھتی ہیں گویا گردن میں اتفاق اسٹیل کا سریا ڈل گیا ہو۔ فضول خرچ انتہا قسم کی کہ ایک سوال پر تین تین شیٹس لگا دیتی ہیں۔ ممتحن بھی جلدی کرکے زیادہ ذہین لڑکی کے قریب نہیں آتا کہ کہیں ایکسٹرا شیٹ ہی نا مانگ لے۔ اگر کوئی دوسری لڑکی غلطی سے ان سے پوچھ لے کہ فلاں سوال کا جواب بتانا تو کہہ دیں گی کہ بہن میں نے بھی نہیں کیا جبکہ محترمہ کو وہی سوال سب سے زیادہ یاد ہوتا ہے۔المیہ تویہ ہے کہ امتحانات میں 95.6فیصد نمبر لینے کے بعد بھی ناشکریوں کی طرح روتی ہیں کہ میرے 99.9 فیصد نمبر کیوں نہیں آئے؟ اور تین دن تک کھانا نہیں کھاتیں۔۔۔جب کہ جتنے مارکس وہ لیتی ہیں اتنے میں تین لڑکے آسانی سے پاس ہوجاتے ہیں۔۔دوسری طرف لڑکے ہیں ماشاء اللہ۔ چشم بددور، شاکر قلب، قناعت پسندی کی اعلیٰ مثالیں۔ امتحانات سے قبل آخری رات بھی دوستو کے ساتھ بیٹھے فلمیں دیکھ کر دوستی کا حق ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور صبح صبح اہم اہم سوالات پر نظر دوڑا کر پیپر دینے نکل پڑتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اپنی ذہانت پر کامل یقین ہوتا ہے۔ اور کمرہ امتحان میں پندرہ منٹ تو یہ سوچ کر لیٹ پہنچتے ہیں کہ کون فضول میں ممتحن صاحب کا لیکچر سنے۔قناعت پسند اس قدر کہ گھر سے صرف ایک ہی بال پن لیکر جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ پورے امتحانات میں یہی ختم ہوجائے تو بڑی بات ہے۔ امداد باہمی کے قائل اس قدر کہ گھر سے ہیڈنگز کیلئے مارکر اورا سکیل ہرگز نہیںلے جاتے کہ کون اضافی بوجھ لادے پھرے۔ آزو بازو والے سے مانگ لیں گے۔ مدد اور ایثار کا جذبہ اس قدر کہ اگر کوئی پوچھ لے کہ بھائی اس سوال کا جواب بتانا تو انہیں جواب آتا ہو یا نا آتا ہو سامنے والے کی مدد ضرور کرتے ہیں اور اپنے پاس سے جواب گھڑ کے کہہ دیتے ہیں کہ بھائی مجھے تو یہ جواب لگتا ہے آگے تیری قسمت۔ اور کفایت شعاری میں لاجواب کہ ملی وسائل کا بے دریغ استعمال ترک کرتے ہوئے دوبارہ شیٹ نہیں مانگتے اور ایک ہی شیٹ پر پورا پرچہ حل کر آتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو ساری امتحانات کے جوابات ایک ہی شیٹ پر درج کردیں۔ شاکر قلب اس قدر کہ امتحانات میں %33 نمبر سے پاس ہوکر بھی پورے محلے میں مٹھائیاں تقسیم کرتے پھرتے ہیں۔
چلیں یہ بات تو طے ہوگئی کہ لڑکیوں سے زیادہ لڑکے قناعت پسند ہوتے ہیں۔ اب لڑکوں کی درجہ بندی کی جائے تو ان میں شادی شدہ زیادہ قناعت پسند ہوتے ہیں یا کنوارے۔۔ باباجی کہتے ہیں کہ ۔۔ کنوارے بندے کو یہ بھی بڑا فائدہ ہے کہ وہ رات کو گلی میں چارپائی ڈال کر بھی سو سکتاہے۔۔شادی شدہ بندے کی یہ بڑی پرابلم ہے کہ وہ کنوارہ نہیں ہوسکتا’ البتہ کنوارہ بندہ جب چاہے شادی شدہ ہوسکتاہے۔فی زمانہ جو کنوارہ ہے وہ زندگی کی تمام رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کا حق رکھتا ہے۔۔وہ کسی بھی شادی میں سلامی دینے کا مستحق نہیں ہوتا۔۔اُس کا کوئی سُسرال نہیں ہوتا۔۔اُس کے دونوں تکیے اس کی اپنی ملکیت ہوتے ہیں۔۔اسے کبھی اپنے موبائل میں خواتین کے نمبرزمردانہ ناموں سے save نہیں کرنے پڑتے۔۔اسے کبھی کپڑوں کی الماری میں سے اپنی شرٹ نہیں ڈھونڈنی پڑتی۔۔اسے کبھی بیڈ روم کے دروازے کا لاک ٹھیک کروانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔۔اسے کبھی موٹر سائیکل کے دونوں شیشے نہیں لگوانے پڑتے۔۔اسے کبھی ماں کو غلط نہیں کہنا پڑتا۔۔اس کی کنگھی اور صابن پر کبھی لمبے لمبے بال نہیں ملتے۔۔اسے کبھی بدمزہ کھانے کو اچھا نہیں کہنا پڑتا۔۔اسے کبھی میٹھی نیند کے لیے ترسنا نہیں پڑتا۔۔اسے کبھی کھلونوں کی دُکانوں کے قریب سے گزرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا۔۔اسے کبھی صبح ساڑھے سات بجے اٹھ کر کسی کوا سکول چھوڑنے نہیں جانا پڑتا۔۔اسے کبھی اتوار کا دن چڑیا گھر میں گزارنے کا موقع نہیں ملتا۔۔اسے کبھی باریک کنگھی نہیں خریدنی پڑتی۔۔اسے کبھی سستے آلوخریدنے کے لیے چالیس کلومیٹر دور کا سفر طے نہیں کرنا پڑتا۔۔اسے کبھی الاسٹک نہیں خریدنا پڑتا۔۔اسے کبھی سبزی والے سے بحث نہیں کرنا پڑتی۔۔اسے کبھی فیڈر اور چوسنی نہیں خریدنی پڑتی۔۔اسے کبھی سالگرہ کی تاریخ یاد نہیں رکھنی پڑتی۔۔اسے کبھی پیٹی کھول کر رضائیوں کو دھوپ نہیں لگوانی پڑتی۔۔اسے کبھی دال ماش اور کالے ماش میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔۔اسے کبھی نیل پالش ریموور نہیں خریدنا پڑتا۔۔اسے کبھی کرکٹ میچ کے دوران یہ سننے کو نہیں ملتا کہ ”آفریدی اتنے گول کیسے کرلیتا ہے؟”۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر میرا جسم میری مرضی ہوتی تو کوئی بھی عورت اپنا وزن 54 کلو سے زیادہ نہیں ہونے دیتی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔