... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
ہم تاریخ کی سب سے بڑے احتجاجی ماحول کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔لاکھوں افراد شاہرات پر نکلے تو طاقتور اور کمزور کیلئے بنائے گئے قانون کو اپنے پائوں تلے روند ڈالیں گے۔ حکمران جب سرمائے کے فرار کی کرپشن میں لگے ہوں تو محب وطن عناصر خود ساختہ حدود و قیود سے باہر نکل آتے ہیں۔ عوامی سیل ِ رواں کے مد مقابل ڈراوے ،دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں ثابت ہوتی ہیں، ایسے میں احتجاج کرنے والوں کا جذبہ خود ساختہ قوانین کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ یہ تاریخ کا اقرار ہے کہ حقوق سلب ہونے کا تسلسل جاری رہے تو انسانوں کا چیختا ، چنگھاڑتا سمندر سڑکوں پر ہوتا ہے ، عدل کے بغیر مضبوط ریاستوں کا خواب ادھورا ہوا کرتا ہے، ہمارے ہاں یہی ہورہا ہے ۔
پاکستان کی وہ تعداد جو فارم 47پر” جیتی ”نے ضمیر کی لاش پر پائوں رکھ کر گزشتہ روز اللہ تعالیٰ کے 99ناموں کے نیچے کھڑے ہوکر جس طرح حلف اُٹھایا ،اسے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا شرمناک ترین لمحہ قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد پارلیمانی سیشن کے پہلے دن ‘پارلیمانی تاریخ’ میں اک نئے باب کااضافہ دیکھنے کو ملا ۔ریحانہ ڈار کے مد مقابل شہر اقبال سے ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے ”جیسے الفاظ کی گٹھڑی اُٹھائے خواجہ صفدر کے بیٹے ایوان بالا میں پہنچے ۔یوں جمہوریت کا سب سے بڑا مندرجعل سازی سے منتخب پارلیمان کی تذلیل کا ایک اسٹیج بن گیا۔قوم کو شرمسارکرنے والی جو پارلیمانی تصویر29فروری کو منظر عام پر آئی ہے،اس کا خلاصہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چھپارستم ہے توکوئی اعلانیہ!۔
رائے ونڈ کے شریفوں نے سرمائے کے فرار اور عوامی مینڈیٹ پر ڈکیتی سے متوقع احتجاج کو دانستہ طاقت فراہم کی ، محض دو ہفتہ سے بھی قلیل عرصہ میں رائے عامہ کے تجزیوں میں بھاری مینڈیٹ والے اپنی ساکھ گنوا چکے۔ اب جعلی مینڈیٹ والوں کے ساتھ تماشہ ناگزیر ہو چکا کہ اُن کی لوٹ مار اور کرپشن کے عمل نے محب ِوطن عوامی حلقوں کو مشتعل اور متحرک ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہ موقع اور مرحلہ ہے کہ قائد کے پاکستان میں جمہور کے ”حق خود ارادیت ”کے خلاف پیش قدمی کو تیز کیا جائے۔ کیا ہم اس سچائی کو پس منظر میں دھکیل دیں گے کہ حالیہ الیکشن تاریخ کے بد ترین الیکشن تھے ؟85کے بعد بدعنوانی ایک خاندانی نظام کی آکسیجن بن کر رہ گئی ۔مزدور کو اُس کے حقوق دینے کی صلاحیت سے عاری ایک سرمایہ دار طبقہ اپنے مجرمانہ کاروبار کو تحفظ دینے کیلئے ایک آمر کے توسط سے کاروبارِ سیاست میں داخل ہوا مجرمانہ زندگی کو دوام بخشنے اور ایک محفوظ قانون شکنی کیلئے قانون ساز ادارے اس طبقہ کی رکھیل بن گئے ۔
یہ تباہی ایک ایسا سفر ہے جس میں ممکنہ مزاحمت اور احتجاج کو اُبھرنے سے پہلے ہی اپنے لے پالک غنڈوں کے ذریعے کچلنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ۔سانحہ ماڈل ٹائون اس کی واضح مثال ہے ۔پی ڈی ایم ٹولے کی حکمرانی کی سابقہ ہوس کے بعد معیشت حالت ِ نزع میں ہے۔ عالمی ساہوکار اداروں کے قرضوں کا بوجھ معیشت کے ناتواں کندھے سہار نہیں پارہے مگر مکار سیاست کے بے ہودہ تنخواہ دار دانشور سب اچھا کا راگ الاپ رہے ہیں ۔ دبئی میں اپنے صنعتی ایمپائر کو وسعت دینے والے سابقہ وزیر خزانہ نے اپنے سابقہ پیش روئوں کو پچھاڑ دیا ۔
کیا ایسا نہیں کہ ہم احمقوں کی ایسی جنت میں رہتے ہیں ؟جہاں نظام ِ زر میں اصلاحات کی گردان ہمارے بہرے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ ہوس اور لالچ کی انتہا پر کھڑا ہمارا اقتداریہ طبقہ وطن عزیز کے باسیوں کے لہو کا آخری قطرہ نچوڑنے کے درپے ہے۔
سامراج کا حواری ایک خود ساختہ معیشت دان جو اپنے آقائوں کا پڑھایا ہوا سبق طوطے کی طرح دُہرا رہا ہے اور اس بات پر اترا رہا ہے کہ عالمی ساہوکار ادارے آئی ایم ایف قرض دینے میں تامل نہیں کرے گا ۔تماشے کے اُس بندر کی طرح ہے جو مداری کی ڈگڈگی پر ناچتا ہے جس نے 24کروڑ عوام کے ٹیکسوں ،خون پسینے کے گارے سے تعمیر کئے گئے منافع بخش اداروں کو کوڑیوں کے بھائو منظور ِ نظر افراد کو بیچنے پر کمر باندھے رکھی ۔ یہ ٹریکل ڈائون معیشت کا بے ہودہ مفروضہ ہے جس کے پس منظر میں مراعات ،سہولیات ،اور عیاشیوں کے تاج محل تعمیر کیے جارہے ہیں جن کے اندر بیٹھے نو دولتیئے سرمایہ دار وں کا شرح منافع بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔
ماضی کی تحاریک کا تناظر بھی یہی ہے ہم شاہرات پر ہفتہ کے روز نکلنے والے کاررواں اور قافلے کو ، سیاسی جمود کو یکسر تبدیل کرنے کی صلاحیت کہہ سکتے ہیں ،خوف اور دہشت کے ہتھیار سے عوام کا حق ِ خود ارادیت چرانے والوں کے منہ پر فافن ،فچ ،کی رپورٹس اور عالمی میڈیا کا دھاندلی پر واویلاکسی تھپڑ سے کم نہیں، انتخابات میں تحریک انصاف کو ملنے والا کثیر ووٹ بنک ضمانتیں ضبط ہونے کی ذلت کا شاخسانہ بنا ،تب نتائج بدلنے کا کھیل شروع ہوا ۔خون میں لتھڑی ہوئی جمہوریت کے بزرجمہروں کے ہاتھ کی چھڑی ،بکائو میڈیا کا ناٹک اور لفافہ صحافیوں کی تکرار کو سماجی انتشار کی کیفیت سے ہی موسوم کیا جاسکتا ہے ۔
عمران خان نے پسے ہوئے طبقات کو اُن کی حقیقی طاقت کا احساس دلایا ، ایک ایسا احساس جو جدوجہد کو ایک خاص مرحلے پر عام فرد ِ وطن تک پھیلانے کا موجب بنتا ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کے آئینی حق پر سکندر راجہ کا غیر آئینی انکار ایک ذہنی کیفیت کا غماز ہے، اسے ہم الیکشن کمیشن کی طرف سے اس بات کا اظہار کہہ سکتے ہیں کہ 77برسوں سے سیاسی اُفق پر چھائی سیاست حسب روایت رعونت اور وحشت کے خطوط پر استوار رہے گی ، ضیا ء آمریت کی فونڈری میں بننے والی ن لیگ ایک ہذیانی کیفیت سے دوچار ہے جس کی غلطیوں اور غلط حکمت عملیوں کے تکرار کے تسلسل نے اُسے اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ اس کا اپنا صوبہ تو کجا اپنا آبائی شہر بھی ہاتھ سے نکل گیا ، عوام کا جمہوری حق چھین کر 9مئی کے خود ساختہ سانحہ سے خوف و ہراس کی فضا پیدا کی گئی مگراس بار اپنے حق خود ارادیت کی چوری کے خلاف نکلنے والا انبوہ خوف کی تمام زنجیروں کو توڑنے کا عزم لیکرنکلے گا اور مخصوص ٹی وی چینلز پر بیٹھے ریڈی میڈ تجزیہ نگاروں کے تناظر پر پانی پھیر دے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔