... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، شب برات کے موقع پر برصغیر پاک و ہند میں ”حلوے” کی روایت ایک عرصہ سے چلی آرہی ہے۔ لاہور میں ایک خاتون کو علم نہیں تھا کہ مہینہ شعبان کا چل رہا ہے جس میں شب برات بھی آتی ہے، موصوفہ اپنے لباس پر ”حلوہ” لئے بازار میں گھوم رہی تھیں،اب یہ قوم تو حلوے پر ایسے لپکتی ہے جیسے مکھیاں ”گڑ” پر یا ”گند” پر۔۔ یہ تو اللہ نے بڑا کرم کیا کہ خاتون کی جان بچ گئی۔ لیکن نادانوں نے اپنی ناک نیچے نہیں ہونے دی، پھر بھی خاتون سے معافی منگوا کر جان چھوڑی۔ ان بے وقوفوں سے کوئی یہ پوچھے کہ کیا عربی زبان میں اگر قرآن پاک تحریر ہے تو کیا عربی میں کچھ اور تحریر نہیں کیا جاسکتا۔ گزشتہ دنوں ہم عمرے کی ادائیگی کے سلسلے میں حجاز مقدس تھے، وہاں گٹر کے ڈھکنوں، کھانے پینے کے پیکٹوں، صابن، شیمپوز، غرض ہرچیز پر عربی درج تھی، تو کیا ہم سعودی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیتے ؟؟لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی سے کسی عربی نے ایک باربڑا دلچسپ جملہ کہا تھاکہ۔۔ مسلمان تو ہم بھی ہیں لیکن آپ پاکستانی تو کلمہ پڑھ کر باؤلے ہی ہوجاتے ہیں۔
بابا جی کہا کرتے ہیں کہ تین قسم کے بیوقوف ایسے ہوتے ہیں جن کو اپنی بیوقوفی کا احساس تک نہیں ہوتا۔پوچھنے پر بتانے لگے کہ ایک بیوقوف وہ ہوتا ہے جو گھر سے کسی کام سے بھوکا نکلتا ہے اور جہاں جاتا ہے وہاں اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا کھانا کھاؤ گے؟اور وہ جواب دیتا ہے نہیں میں کھا کر آیا ہوں،اسے کہتے ہیں ایک دن کا بیوقوف جس نے مروت اور شرم میں اپنے پیٹ کے ساتھ برا کیا اور سارا دن بھوکا رکھا۔دوسرا ہوتا ہے چھ ماہ کا بیوقوف۔یہ وہ بیوقوف ہوتا ہے جو جوتا لینے جاتا ہے اور جوتا پاؤں میں پہن کر اچھی طرح چیک نہیں کرتا نا ہی چل کر دیکھتا ہے اور یہ تھوڑا سا تنگ جوتا پہن کر یہ سوچتا ہے کہ یہ کھل ہی جائے گا۔جبکہ ایسا نہیں ہوتا اور وہ بیوقوف چھ ماہ تک اسی تنگ جوتے کے ساتھ گزارا کرتا ہے اور اپنے پیروں کو چھ ماہ تک اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اذیت میں رکھتا ہے۔تیسرا ہوتا ہے ایک سال کا بیوقوف یہ وہ بیوقوف ہے جو عید کی عید کپڑے سلوانے کے لئے درزی کو ناپ دیتے وقت کہتا ہے کہ پورا پورا ناپ رکھنا جبکہ ناپ بھی سانس کھینچ کر دیتا ہے،اب جب سوٹ سل کر آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ جسم پر کافی حد تک تنگ ہے۔۔اور وہ اپنے سانس کھینچ کر ناپ دینے کا خمیازہ سارا سال دیتا ہے اور پورا سال تنگ سوٹ پہنتا ہے (ہمارے بچپن میں میں جوتا سیزن کی سیزن جبکہ سوٹ عیدکے عید ہی بنا کرتے تھے)۔بابا جی کی اس بات سے ذہن میں آتا ہے کہ چند بیوقوفوں کی وجہ سے گزشتہ 76 سال سے یہ قوم۔۔ ملک اسلامی اور قانون انگریزی لئے آدھے تیتر آدھے بٹیر نہ مسلمان بن پا رہے ہیں نہ انگریز درمیان والی راہ یعنی منافق بنے بیٹھے ہیں۔
آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی بازگشت ابھی تک ختم نہیں ہوسکی ہے۔ آٹھ فروری ہونے والے انتخابات میں نو فروری کو کامیاب ہونے والی جماعتوں نے حکومت سازی شروع کردی ہے۔ ہم کئی بار سوچتے ہیں کہ حکومت بنانے کو حکومت سازی کیوں کہاجاتا ہے؟ ”ساز” تو باجا ہوتا ہے جو بجتا ہے، اور اسے بجانے والے کو ”سازندہ” کہاجاتا ہے، اب کا پتہ نہیں لیکن جب ریڈیو کا دور تھا تو گانوں کے پروگرام میں ”سازندہ” کی تکرار کافی سننے کو ملتی تھی۔الیکشن کے حوالے سے رہ رہ کر تین مشہور مغربی دانشوروں کے قول یاد آ رہے ہیں۔کارل مارکس کہتا ہے کہ ہر کچھ سالوں بعد مظلوموںکو یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ ظالموں کا کون ساطبقہ اب اُن کا نمائندہ ٹھہرے گا۔اور پانچ سال اُن کا استحصال کرے گا۔مارک ٹوئن فرماتے ہیں۔گر ووٹنگ سے واقعی کوئی فرق پڑتا تو وہ ہمیں کبھی ووٹ نہ ڈالنے دیتے۔اور معروف مغربی دانشور رالف نیڈر کہتا ہے،جب آپ دو برائیوں میں سے کم تر برائی کا انتخاب کرتے ہیں تو بھی آپ برائی ہی چن رہے ہوتے ہیں۔
الیکشن کے نتائج کا حساب کتاب کسی کے سمجھ نہیںآرہا، جو جیتا ہے وہ بھی حیران نظر آرہا ہے اور جو ہارگیا وہ بھی پریشان ہی نظر آرہاہے۔ جو آٹھ فروری کو جیتے وہ نو فروری کو ہار گئے اور جو آٹھ فروری کو ہارے وہ نو فروری کو جیت گئے۔الیکشن کے نتائج کچھ اس طرح سے تھے کہ ایک شخص کی بیوی نے بچے کو جنم دیا اور اپنے شوہر سے کہا کہ جا کر مٹھائی لائے اور محلے میں بانٹ دے۔ وہ مٹھائی لا کر بانٹنے لگا تو لوگوں نے پوچھا کہ کس خوشی میں منہ میٹھا کرایا جا رہا ہے؟اس نے بڑے فخر سے کہا کہ میرے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔محلے والوں نے حیرت سے کہا کہ تمہاری شادی کو تو صرف تین مہینے ہوئے ہیں۔ بچہ تو نو ماہ میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ بچہ تمہارا نہیں۔وہ بیچارہ پریشان ہو کر گھر آیا اور بیوی سے کہا کہ بچہ تو نو ماہ میں ہوتا ہے۔ یہ بچہ کیسے تین ماہ میں پیدا ہو گیا؟ یہ کس کا بچہ ہے؟بیوی نے بڑے پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے پوچھا۔۔آپ کی شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟شوہر نے کہا، تین ماہ۔بیوی نے اگلا سوال کیا۔۔میری شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟شوہر نے جواب دیا، تین ماہ۔بیوی نے دوبارہ پوچھا۔۔ہم دونوں کی شادی کو کتنا عرصہ ہوا ہے؟ شوہر نے پھر کہا۔ تین ماہ۔۔بیوی مسکرا کو بولی۔۔ سرتاج، یہ تینوں ملا کر ہو گئے نا پورے نو ماہ۔ یہ آپ کا ہی بچہ ہے۔ آپ مٹھای بانٹیں۔الیکشن کے بعد جس طرح کے لوگ حکمران بن رہے ہیں، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں۔ایک پاگل شخص عمارت کی چھت پر چڑھ گیا اور چیخنے لگا۔مَیں کُدّن لگا جے۔لوگ اکٹھے ہو گئے،پولیس والے آ گئے،ایمبولینس بھی پہنچ گئی،پولیس والا اسپیکر میں زور سے بولا۔نیچے آ جا،گر جاؤ گے۔پاگل بولا۔مَیں یہاں کوئی آم لینے نہیں آیا،کودنے کے لیے آیا ہوں،پچھے پچھے ہٹ جاؤ،مَیں کُدّن لگا جے۔۔پولیس والے نے اسپیکر پو چھا۔۔مگر تُم کیوں کودنے لگے ہو؟
پاگل نے دھمکی لگائی۔مجھے بادشاہ بنا دو ورنہ مَیں کُدّن لگا جے۔پولیس تو اسے اتارنا چاہتی تھی۔ اس لئے اسے کہاگیا کہ ٹھیک ہے بادشاہ سلامت،نیچے تشریف لے آئیں،رعایا استقبال کی منتظر ہے۔پولیس والوں کے اشارے پرمجمع شور مچانے لگا۔ساڈا بادشاہ زندہ باد،ساڈا بادشاہ زندہ باد۔پاگل پھر اڑ گیا، کہنے لگا۔مَیں نیچے نہیں آ سکتا،مَیں کُدّن لگا جے۔پولیس والے نے پریشان ہوکر پوچھا ۔مگر کیوں،اب تو آپ بادشاہ سلامت بھی بن گئے ہیں!پاگل چلایا، جو قوم پاگلوں کو بادشاہ بنا لے، مَیں اُن میں نہیں رہ سکتا،مَیں کُدّن لگا جے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔آپ راشی، بدکردار اور شرابی کو ہمیشہ خوش اخلاق، ملنسار اور میٹھا پائیں گے کیونکہ وہ نخوت، سخت گیری اور بدمزاجی افورڈ ہی نہیں کرسکتا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔