... loading ...
سمیع اللہ ملک
اب معاملہ چندافرادیاکسی گروہ تک محدودنہیں رہاتھا۔جمہوریت کوزیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے وعدے کے ساتھ قائم کیے جانے والے ملک کواستعماری اورنوآبادیاتی قوت میں تبدیل کرنے کاسوچاجارہاتھا۔ملک کوحقیقی استعماری قوت میں تبدیل کرنے کی باتیں اب واشنگٹن کے ایوانوں میں بھی گونجنے لگیں۔پھریہ ہواکہ پوری کی پوری قومی سیاست اِسی ایک مقصدکے گِردگھومنے لگی۔یہ گویا اِس امرکی طرف واضح اشارہ تھاکہ امریکاجس مقصدکے تحت معرض وجودمیں لایاگیاہے اسے بھلا کراب اسی راہ پرگامزن ہوناہے جس کی منزل انتہائی طاقتورحکمرانی ہے۔1894میں ریاست کنیکٹیکٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹراورویل پلیٹ نے کہامیں اِس بات پرپوری طرح یقین رکھتاہوں کہ ہمیں جب بھی اپنی سلامتی یاکاروباری معاملات کی توسیع کیلئے ملک سے باہرزمین کی ضرورت پڑے توبلاتاخیراورضرورت کے مطابق زمین پرقبضہ کرلیناچاہیے ۔اورویل پلیٹ نے جوکچھ کہاوہ محض اس کی ذاتی رائے یاخواہش کاعکاس نہ تھا۔امریکامیں ایک ایساگروپ پروان چڑھ چکاتھا جوانتہائی طاقتوراورریاستی قوت میں ناقابل یقین حدتک اضافہ کرکے آس پاس کی ریاستوں کوہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ دور افتادہ ممالک کے خلاف بھی جنگ چھیڑنے کی خواہش رکھتاتھا۔
امریکاکے قائدین نے جوکچھ سوچ رکھاتھااسے ٹھوس حقیقت کی حیثیت سے سامنے لانے کیلئے بہت بڑے پیمانے پرایسے اقدامات بھی درکارتھے جن میں کہیں کوئی بڑی خامی یا جھول نہ ہو۔امریکاکوحقیقی استعماری قوت بنانے کیلئے لازم تھاکہ اس کی بحری قوت غیرمعمولی ہواوراپنے مفادات کوتحفظ فراہم کرنے کیلئے دنیابھرمیں کہیں بھی تیزی سے کاروائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔یہ کام کسی ایسے انسان کی نگرانی اورقیادت ہی میں ممکن بنایاجاسکتاتھاجس میں غیر معمولی جوش اور بھرپورجذبہ ہو۔امریکی بحریہ کوعالمی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ذمہ داری تھیوڈورروزویلٹ کوسونپی گئی اورانہوں نے اس ذمہ داری سے بطریق احسن عہدہ برآہونے میں کوئی کسراٹھانہیں رکھی۔ تھیوڈور روزویلٹ نے1897میں کہاتھا۔میں کسی بھی ملک سے اورکسی بھی سطح پرجنگ کاخیرمقدم کروں گا۔میں پورے اعتماداور احساسِ ذمہ داری سے یہ بات کہتاہوں کہ اِس ملک کوجنگ کی ضرورت ہے۔تھیوڈور روزویلٹ نے جوکچھ کہاوہ محض ان کاذاتی بیان نہ تھابلکہ بہت حد تک ریاستی پالیسی کاآئینہ دارتھا۔روزویلٹ کوئی عام آدمی نہ تھاکہ کوئی بات کہتااورتوجہ نہ دی جاتی۔اسے اندازہ تھاکہ جنگ کوپسندکرنے کی ذہنیت سے متعلق بیان دے کر اس نے کس کی ترجمانی کی ہے۔وہ اسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے جوامریکاکوکسی بھی قیمت پراورکسی بھی حالت میں دنیاکے طاقتورترین ملک کے روپ میں دیکھنے کاخواہش مندتھا۔جولوگ امریکاکودنیاپرحکمرانی کے قابل ریاست بنانے کی راہ پر گامزن ہوئے تھے انہیں اچھی طرح اندازہ تھاکہ زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کاراستہ دوسروں کی طاقت میں کمی کی طرف جاتا ہے۔ کوئی طاقتوراسی وقت ہوتاہے جب کوئی اورکمزورہوتاہے۔ ہردورمیں چندممالک نے منظم ہوکراپنی طاقت میں اضافہ اسی وقت ممکن بنایا ہے،جب بہت سے دوسرے ممالک کوشدیدکمزوری سے دوچارکیاگیااورمعاملہ دوسروں کوکمزور کرنے تک محدودنہیں۔اپنے آپ کو طاقتور رکھنے کیلئے دوسروں کامستقل کمزوررکھنابھی ناگزیرہے۔جب کسی ریاست کوزیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرناہوتواس کی پالیسیوں میں بھی یہ مقصدواضح طورپردرآتاہے۔امریکانے ہردورمیں اپنی طاقت بڑھانے کوترجیح اورایساکرنے پرتوجہ دی ہے۔اِس کانتیجہ یہ برآمدہواہے کہ خارجہ اموراوردفاع سے متعلق اس کی تمام پالیسیاں کہیں نہ کہیں عسکری مہم جوئی جاری رکھنے کوبنیادی مقصدقراردینے پرمبنی رہی ہیں۔ جولوگ امریکاکواستعماری قوت میں تبدیل کرناچاہتے تھے ان کیلئے ناگزیرہوگیاتھاکہ اپنے عزائم کومکمل عملی شکل دینے کیلئے ایسی باتیں کھل کر کریں جن سے لوگوں کا ذہن جنگِ آزادی کے دوران سامنے والے آئیڈیلزسے ہٹ جائے۔یہ کوئی ایسا کام نہ تھاکہ ایک آدھ کوشش سے یا راتوں رات ہوجاتا۔لوگوں کے ذہنوں کومسخرکرنااوران کی سوچ میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی لانامحنت طلب کام تھا۔امریکی قائدین نے اہلِ وطن کے ذہن تبدیل کرنے کیلئے بھی جامع اوربے داغ قسم کی منصوبہ بندی کی۔آزادی سے وابستہ تمام تصورات یا آئیڈیلز کو رفتہ رفتہ ذہنوں سے دیس نکالادیاگیااورایک ایسے امریکاکاخواب آنکھوں میں سجایاگیاجودنیاکوبہت کچھ دینا چاہتا تھا تہذیب سکھانا چاہتا تھا اور جس کی مساعی کے بغیریہ دنیارہنے کے قابل نہیں ہوسکتی تھی!
جنگ کوناگزیرقراردینے پراِس قدرزوردیاجانے لگاکہ ایک عام امریکی بھی یہی سوچنے لگاکہ اقوامِ عالم میں اپنی دھاک بٹھانے اور کچھ کردکھانے کیلئے عالمی سیاست واقتصادیات کواپنی مرضی اورضرورت کے سانچے میں ڈھالناناگزیرہیاوریہ کہ ایسا کرنے کیلئے جنگ کی راہ سے ہوکرگزرے بغیرچارہ نہیں۔روزویلٹ کودوسری اقوام پرجنگ مسلط کرنے کے معاملے میں زیادہ انتظارکی زحمت بھی نہیں اٹھانا پڑی۔جس زمانے میں امریکی قائدین نے استعماری قوت بننے کے بارے میں اپنی سوچ کو عملی جامہ پہناناشروع کیا تب برطانیہ ، فرانس،پرتگال اوراسپین کاشماربڑی نوآبادیاتی قوتوں میں ہوتاتھا۔اِن یورپی ممالک نے ایشیا،افریقااورجنوبی امریکامیں بہت کچھ اپنی مٹھی میں کررکھاتھا۔امریکاچاہتاتھاکہ چند ایک ممالک اس کی مٹھی میں بھی آ جائیں۔ظاہرہے ایساآسان تونہ تھاکہ محض سوچنے سے ہو جاتا۔ امریکاکواستعماری سپرپاورمیں تبدیل کرنے کاخواب دیکھنے والوں کوبھی اندازہ تھاکہ کسی بھی خطے میں عسکری مہم جوئی کوئی بچوں کاکھیل نہیں۔ نوآبادیاتی قوت بننے کاعمل لوہے کے چنے چبانے جیساتھا۔لازم تھاکہ ہرمعاملے کے تمام پہلووں کاعمیق جائزہ لے کرجامع حکمتِ عملی اپنائی جائے تاکہ ناکامی کے امکان کوزیادہ سے زیادہ کم کیاجاسکے۔
پہلے مرحلے میں امریکیوں نے ایسے خطوں کی طرف دیکھناشروع کیاجہاں کمزوریاں تھیں۔یہ وہ علاقے تھے جہاں یورپی نوآبادیاتی قوتیں زیادہ مستحکم اوربہترحالت میں نہ تھیں۔ اسپین کیلئے اپنی قوت برقراررکھناانتہائی دشوارثابت ہورہاتھا۔وہ اندرونی کمزوریوں کے باعث بیرونی سطح پربھی اپنی کمزوریوں کودنیاکی نظروں سے پوشیدہ رکھنے میں کامیاب نہیں ہوپا رہاتھا۔ایسے میں امریکیوں نے ہسپانوی نوآبادیات پرنظریں جماناشروع کردیا۔جن ہسپانوی نوآبادیات پرامریکی قائدین کی رال ٹپکی ان میں کیوبااورفلپائن سب سے نمایاں تھے۔یوں امریکی قائدین نے اپنے ملک کواستعماری قوت میں تبدیل کرنے کے پہلے مرحلے میں اسپین کے خلاف جنگ چھیڑدی۔اسپین میں باغی فوجیں الگ ریاست قائم کرنے کیلئے لڑرہی تھیں۔یہ توامریکا کیلئیاندھاکیاچاہے،دوآنکھیںجیسامعاملہ تھا۔امریکی قائدین نے صورت حال کافائدہ اٹھاتے ہوئے ہسپانوی باغیوں کادامن تھام لیا۔ اسپین کے باغی امریکاکیلئے بہترین حلیف ثابت ہوئے۔جب امریکانے ہسپانوی باغیوں کوگلے لگایاتوہسپانوی حکومت اورفوج کمزورہوتی چلی گئی۔اسپین کی نوآبادیات میں بھی آزادی کی لہراٹھی۔اندرونی شکست وریخت اورکمزورسیاست ومعیشت کا نتیجہ یہ برآمدہواکہ اسپین تیزی سے جنگ ہار گیا۔ اِس پر دنیا کو کم ہی حیرت ہوئی۔
اسپین کوہرانے کے بعدامریکاکواپنے عزائم بے نقاب کرنے میں کچھ بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔امریکی قیادت نے اعلان کیاکہ فتح حاصل کرنے کے بعداب امریکی فوجی فلپائن سے آسانی سے نہیں ہٹیں گے۔یہ اِس بات کااعلان بھی تھاکہ امریکانے استعماری قوت بننے کاصرف ارادہ نہیں کرلیابلکہ اس پرعمل کرنے کی لگن اوربھرپورسکت بھی رکھتا ہے ۔ فلپائن کوزیرِنگیں کرنے کے بعدانڈیاناسے تعلق رکھنے والے سینیٹرالبرٹ بیورج نے کہا۔اب فلپائن ہمیشہ کیلئے ہمارارہے گا۔ اورفلپائن سے ذرا ساآگے چین کابہت بڑابازار ہے ۔ہم بحرِاوقیانوس کے کنارے رہتے ہیں مگراب بحرالکاہل ہی ہمارابحر ہے۔جو طاقت بحرالکاہل پر راج کرے گی پوری دنیاپراس کاغلبہ قائم ہوگا۔ اب بحرالکاہل پراقتدارکی لگام ہمیشہ امریکاکے ہاتھ میں رہے گی۔
البرٹ بیورج نے جوکہااس میں نیاکچھ بھی نہیں تھا۔دنیاکواندازہ توہوہی چکاتھاکہ اب امریکاعسکری مہم جوئی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ممالک کواپنے دائرہ اثرمیں لینے کی تیاری کررہاہے۔تمام کمزورممالک کوانتہائی برے حالات کا سامناکرنے کیلئے تیاررہناتھا۔یوں بھی یہ ان کیلئے بالکل نئی صورت حال نہ تھی۔وہ استعماری قوتوں کوبھگتتے آئے تھے۔فرق صرف اِتناتھاکہ اب کے استعماری قوت کاتعلق یورپ سے نہیں تھا۔نوآبادیاتی نظام کے احیاکی باتیں کی جانے لگیں۔واشنگٹن چونکہ دارالحکومت تھااِس لیے وہاں بھی اِن باتوں کاپھیلناغیرفطری اورحیرت انگیزنہ تھا۔نوآبادیاتی نظام کاجوازپیش کرنے کیلئے نسل پرستی اوردیگرعِلتوں پرمشتمل نظریات پیش کیے جانے لگے اوراِن نظریات کوواشنگٹن میں کھلے دِل سیباہیں پسارکرقبول کیاجانے لگا۔سفیدفام امریکیوں کی ذہن سازی کی جارہی تھی۔انہیں ایک ایسے دورکیلئے تیارکیاجارہاتھاکہ جس میں امریکاکوطاقت کے فقیدالمثال استعمال کے ذریعے بہت کچھ الٹنااور پلٹناتھا۔اِس معاملے میں نسل پرستی کوذہن سازی کے حوالے سے ہتھیارکے طورپراستعمال کیاگیا۔سفیدفام امریکیوں کے ذہنوں میں یہ بات پوری شِدت سے ٹھونس دی گئی کہ حکمرانی صرف ان کاحق ہے اورہرمعاملے میں قائدانہ کردارقدرت نے صرف ان کے مقدرمیں لِکھ دیاہے۔
انڈیاناکے سینیٹرالبرٹ بیورج نے کہاہم جس نسل سے تعلق رکھتے ہیں اسے دنیاپرراج کرناہے۔ہمیں یہ مشن خدانے سونپاہے اورہماری نسل اِس مشن کوکبھی نہیں بھولے گی۔اِس دنیا پرکسی کوتو،بلاشرکتِ غیرے،حکمرانی کرناتھی اِس لیے خدانے ہمیں منتخب کیاہے۔خداہی نے ہم میں پوری دنیاپرحکمرانی کرنے کی صلاحیت پیداکی ہے اورہمیں دنیاکے ہرخطے پر راج کرنے کا ہنرسکھایاہے۔اب ہم وحشی،غیر مہذب لوگوں پرقابوپانے کی صلاحیت اورسکت بھی رکھتے ہیں۔البرٹ بیورج کے الفاظ میں وہی دعوی ہے جویہودی آج تک کرتے آئے ہیں یعنی یہ کہ وہ خداکے پسندیدہ ترین بندے ہیں اور انہیں اِس دارِفانی پرحکمرانی کاحق حاصل ہے۔ البرٹ بیورج نے سفیدنسل کے بارے میں یوں رائے دی ہے جیسے وہ حرفِ آخر ہو۔سفیدفام نسل کوباقی دنیاسے بہتراورافضل قراردینے کی سوچ ہی نے امریکاکے ہاتھوں اِس قدر بگاڑکی راہ ہموارکی ہے۔ امریکی قائدین نے جب آزادی کے بعدذراحواس بحال کیے توسفیدفام امریکیوں کویقین دلاناشروع کیاکہ
اب انہیں صرف امریکا نہیں بلکہ پوری دنیا پرراج کرناہے۔سفیدفام امریکیوں کویہ یقین دلایاگیاکہ وہ دوسری تمام نسلوں اوراقوام سے واضح طورپربہتر اورمہذب ہیں۔یعنی یہ کہ انہیں باقی دنیاکوسکھاناہے کہ بہترزندگی کس طوربسرکی جاسکتی ہے اورکی جانی چاہیے۔
البرٹ بیورج نے سفیدفام امریکیوں کو برتر نسل ہونے کا یقین دلانے کیلئے خدا کا حوالہ دینا بھی ناگزیر جانا تاکہ سفید فام امریکیوں کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ یہودی نہیں بلکہ وہ خدا کے پسندیدہ اور منتخب بندے ہیں۔ آخر میں البرٹ بیورج نے صرف سفیدفام امریکیوں کومہذب اورباقی سب کووحشی اورغیرمہذب قراردے کرگویاقلم توڑکررکھ دیاہے!اِن الفاظ سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ امریکی قائدین بیشتراوربالخصوص سفید فام امریکیوں کے ذہنوں میں کیاٹھونسناچاہتے تھے اور یہ کہ ایساکرنے کاکیانتیجہ برآمدہوا ۔ ذہنوں میں کجی پیداکرنے ہی کایہ نتیجہ برآمدہواہے کہ آج امریکی پالیسیوں میں خودکوبرتر سمجھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کوکمتر،جاہل اورغیرمہذب سمجھنے کااحساس ممکنہ شِدت کے ساتھ پایاجاتاہے۔
ایساکیونکرہوسکتاہے کہ کسی ملک یاعلاقے پربیرونی افواج حملہ کریں اورکوئی مزاحمت ہی نہ کی جائے یعنی حملہ آوروں سے مرعوب ہوکرخاموشی اختیارکی جائے۔انتہائی کمزوراقوام بھی تھوڑی بہت مزاحمت توکرتی ہی ہیں۔فلپائن کے لوگ سینیٹر البرٹ بیورج اوران کے معتقدین کی باتوں کوقبول کرنے کیلئے تیارنہ تھے۔وہ یہ بات کیوں گواراکرتے کہ ان کے ملک پرحملہ کیاجائے،ان کی سرزمین پرقبضہ کرلیاجائے؟
جب امریکی فوج نے فلپائن پرلشکرکشی کی تواسے ویسی ہی مزاحمت کاسامناکرناپڑاجیسی مزاحمت کاسامنااسپین کی فوج کو کرنا پڑا تھا۔ امریکی افواج نے جب یہ دیکھاکہ مزاحمت کاروں پرقابوپانااورانہیں اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالناممکن نہیں تو انہوں نے فلپائن میں مزاحمت کچلنے کیلئے غیرمعمولی حدتک طاقت استعمال کی۔امریکاکی یہ روش کسی بھی اعتبارسے قابل قبول قرارنہیں دی جاسکتی تھی۔اِس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پرقتلِ عام ہوا،پوراملک شدیدعدم استحکام کی نذرہوا،معیشت اورمعاشرت دونوں کاسبھی کچھ الٹ پلٹ کررہ گیا اور فلپائن کے لوگوں کوبالآخرامریکاکی غیرمعمولی طاقت کے سامنے سر جھکاناپڑا۔امریکی فوجیوں کوحکم دیاگیاکہ سب کوجلادو،سب کو مار ڈالو اور انہوں نے اِس حکم کی تعمیل کرنے میں دیرنہیں لگائی۔جوبھی ہاتھ آیااسے موت کے گھاٹ اتارنے میں ذرابھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی گئی۔ جب فلپائن کی فوج نے ہتھیار ڈالے تب تک6لاکھ سے زائد فلپائنی مارے جاچکے تھے۔ملک تباہ ہوچکاتھا۔معیشت کاکچھ ٹھکانہ نہ تھا، معاشرے میں ایساعدم استحکام تھاکہ کسی کوکچھ اندازہ نہیں تھاکہ اب کیاکرناہے،کس سمت جاناہے۔ امریکیوں نے طاقت کے زعم میں فلپائن کا سبھی کچھ بربادکرکے رکھ دیاتھا۔
ہمیں ایسی تصویریں بھی آسانی سے مل سکتی ہیں جن میں امریکی فوجی جنگ میں مارے جانے والے فلپائنی باشندوں کی ہڈیوں کے ڈھیر پر کھڑے بہت فخرسے اپنی فتح کااعلان اور مسرت کااظہارکررہے ہیں۔سچ تویہ ہے کہ انسانی ہڈیوں کے ڈھیر پرمسرت کااظہارمحض فلپائن تک محدود نہیں رہا۔امریکیوں نے ہردورمیں ایسے ہی تماشے دکھائے ہیں۔امریکی افواج نے اپنے خطے میں اوراس سے باہرجہاں بھی طاقت کا بھرپورمظاہرہ کیاہے،اس کی کوشش رہی ہے کہ اہلِ جہاں کواس کی بھرپور طاقت کابخوبی اندازہ ہوجائے۔اِس مقصد کے حصول کیلئے کمزوراورنہتے لوگوں کوزیادہ سے زیادہ جبرکانشانہ بنانااس کا مطمحِ نظررہاہے ۔
امریکی فوج کی طرف سے طاقت کا بے دریغ اوربے لگام استعمال بالآخرکئی ممالک کی آزادی سلب کرنے کاسبب بنا۔جوملک آزادی، حقوق اورجمہوریت کے عظیم ترین آئیڈیلزکو حقیقی شکل دینے کیلئے دنیاکے نقشے پرنمودارہواتھااورجس کے بنیادی مقاصدمیں اِنسان کی رفعت سرِفہرست تھی اسی نے دنیاکانظام تہس نہس کرنے اورمعاشروں کوتلپٹ کرنے والی استعماری قوت کی شکل اختیارکرلی۔امریکی قائدین طاقت کے اظہارکاجوکھیل جاری رکھناچاہتے تھے اس کادائرہ کچھ اپنے خطے تک محدود نہ تھا۔کیوباتوپڑوس ہی میں تھا۔اسے دبوچنے کے بعدفلپائن کومٹھی میں کیاگیا۔پھرتویہ معاملہ طول پکڑتاچلاگیا۔1898میں فلپائن،پورٹوریکواورگوام امریکی نوآبادی میں تبدیل ہوئے۔ دوسری طرف کیوباکورسمی طورپر آزادی دی توگئی مگراِس سلسلے میں چندشرائط عائدکی گئیں۔سب سے اہم شرط یہ تھی امریکی فوج پلیٹ امینڈمنٹ کے تحت کیوباکی سرزمین پراپنااڈاہمیشہ رکھے گی۔ساتھ ہی یہ بھی کہ امریکاکیوبامیں اپنی فوج رکھے گااوراس کی دفاعی اورخارجہ پالیسی امریکاہی تشکیل دے گا۔
ادھرقسمت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ نسلی برتری کے زعم میں برترامریکاکوبالآخرافغان مجاہدین نے خاک چاٹنے پر مجبور کردیااوراب انہی طالبان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے ۔غزہ میں جاری ظلم وستم میں جوبھیانک کرداراداکیاہے،اس کی بھی بالآخرقیمت چکانی پڑے گی۔ حوثیوں کی جانب سیباب المندب میں جاری کاروائیوں کے جواب میں بھرپور جنگ کاخطرہ کھل کرسامنے آگیاہے۔حوثی جنگجوں کے پاس سب سے طاقتورافواج میں سے ایک ہے جس کی موجودگی سے دنیااکثرچونک جاتی ہے۔وہ ہراس بین الاقوامی بحری جہاز پر میزائل داغ دیتے ہیں جس کا انہیں امریکا،برطانیہ،اسرائیل سے تعلق نظرآتاہے،یااگرنہیں بھی نظرآتاپھربھی انہوں نے عالمی تجارت پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔کئی بحری جہازوں کوہزاروں میل دورتک اپنارخ موڑناپڑرہاہے۔امریکاکی جانب سے ان کے اڈوں پرفضائی کارروائیاں بظاہرانہیں روک نہیں سکیں بلکہ انہوں نے امریکااوربرطانیہ سے جڑے اہداف کے خلاف جوابی کاروائیوں کااعلان بھی کر رکھا ہے۔