... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
اسٹیٹس کو بچانے والے عمران کے خلاف جمہوریت کے نام پر چاہے جتنی چیخ و پکار کریں عوام کے ذہن کو جنجھوڑنے والوں نے عوام کو خواب غفلت سے جگاکر ثابت کر دیا کہ جمہور دشمن کون ہیں،عمران نے اُن کے چہرے پر پڑا منافقت کا نقاب اُتار پھینکا ہے ۔عمران کے نظریہ نے 24کروڑ لوگوں کو یہ باور کرادیا ہے کہ حقیقی جمہوریت کا تصور کیا ہے ؟گوالمنڈی کا جعلی ”نیلسن منڈیلا” اس خوف کے تسلسل میں گھرا ہواہے کہ اُس کے گھر میں نقب لگا کر تحریک انصاف نے میدان مار لیا۔ بھٹو کی پارٹی پر ناجائز قابض اس لیے خائف ہیں کہ عر صہ ہوا بھٹو کا ورکر حقیقی قیادت کی تلاش میں تحریک انصاف کی چھتری تلے پناہ لے چکا !
جس طرح زرداری کوبھٹو کی کھال پہنا کرجعلی بھٹو بنایا جارہا ہے اور نظریاتی ورکر اُسے اب قبول کرنے کو قطعاًتیار نہیںتھے اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناح کے وارث مسلم لیگ کواپنے نام کا لاحقہ لگا کر ایک صنعتکارکو قائد کی حقیقی جماعت کو یر غمال بنانے پر عوام کا خون کھول رہا ہے ، ان عوام دشمن بچے جمہوروں کے چہرے سے جمہور نے اب جمہوریت کا نقاب نوچ پھینکا ہے کہ دھوکے کی بنیاد پر 24کروڑ لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔مفاہمت کی پچ پر جعلی کامیابی کا فارم 47تھام کر بھی کئی چہروں کی ہوائیاں اُڑی ہوئی ہیں اور وہ حواس باختہ ہیں ۔ 8فروری کو کئی روز گزر گئے مگر ن لیگ ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کا سہولت کار سلطان سکندر راجہ نتائج کو مذکورہ جمہور دشمن پارٹیوں کے حق میں ہموار کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔
مشرف دور میں ”این آر او ” جیسے کالے اور عوام دشمن معاہدے کے تحت اپنی کرپشن کو چھپانے کیلئے ایک آمر کی دہلیز پر سجدہ ریز کون ہوا؟ بھٹو کے نام کی جتنی چاہے ملمع کاری کرکے اور خاندان ِ شریفیہ سے گٹھ جوڑ کے تحت آئندہ باری کو پکا کرنے کیلئے جتنے ہتھکنڈے استعمال کر لیے جائیں عوام اب بھٹو اور قائد اعظم کے جعلی وارثوں کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے جمہوریت کے چہرے پر خاندانی بادشاہت نے جتنے چرکے لگائے جمہوریت کا ناتواں بدن اب اس زخم زخم چہرے کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب جمہور ایسی جمہوریت کی ناتواں لاش کو زبردستی اُٹھانا گوارا نہیں کریں گے ۔جس کی بربادیوں کا سماں یہ ہے کہ تھر میںبھوک ،ننگ،افلاس ،غربت کا قہر معصوم جانوں پر ٹوٹ رہا ہے، جہاں مائوںکے پاس دو ہی رستے بچے ہیں کہ زندہ لاش بن کردو خاندانوں کی جمہوریت کے کرب سے گزریں یا موت کو گلے لگا لیں۔ایک ایسی جمہوریت جس میں دو خاندانوں نے اپنی دولت اور ہوس کی وحشت میں ایسے جرائم کیے جن کو سرزد کرنے میں تاریخ کے بڑے بڑے جابروں کے دل دہل گئے، خاندانی بادشاہت کے شطرنج کا کھیل پسماندہ ،محروم اور برباد انسانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ میڈیا کے جن دلالوں پر عمران تنقید کرتا ہے اُنہیں ”صحافیوں ”کانام دیکر حکومتی کارندے ”محب وطن صحافیوں ”پر تنقید کا ڈھول بجانے میں مصروف ہیں مگر اب عوام کا حافظہ کمزور کرنے کی ساری کاوشیں ناکام ہوں گی ۔وہ جانتے ہیں کہ ”لفافہ صحافت ”کے نام پر 31کروڑ لے کر کس کا ضمیر بکا اور 20کروڑ کونسے ضمیر فروش اور فتویٰ فروش ”مولویوں ”نے لئے باری کا نیٹ ورک جب تک نہیں ٹوٹے گا نام نہاد جمہوریت کا ”بھوت ”یونہی منڈلاتا رہے گا مگر اس غیر یقینی کیفیت میں حکومتی ”افواہ ساز فیکٹریاں ”جتنی چاہیں افواہیں پھیلائیں حکمران اور اُن کے پارٹنر اس دلدل سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔
دو خاندانوں کی یہی جمہوریت عوام کے دکھوں کا مداوا ہے جس میں غرباء کیلئے علاج ایک معاشی عذاب بن گیا ہے ۔دور شہباز میں پنجاب میں اسی خاندانی جمہوریت کی ”گڈ گورننس”نے پہلے وہاڑی ،پھر سرگودھا کے مراکز مسیحائی میں معصوم بچوں کے گلے گھونٹے سرگودھا میں مرنے والے بچوں کی شرح تھر میں ہونے والی اموات سے زیادہ تھی ،اب نمونئے ، اسی جمہوریت کی رعونت کے تیور ہیں کہ ذلت اور استحصال کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ الیکشن مہم کے دوران جوش خطابت میں 300یونٹ فری دینے کے دعویداروں کا استدلال ہے کہ آئی ایم ایف سے پوچھ کر فیصلہ کریں گے جس ڈرامہ باز نے اپنا نام تبدیل کرنے کی نوید سنائی۔ اس کے چہرے پر کسی قسم کی شرمندگی یا جھوٹ بولنے سے ہونے والی ”ہتک”نظر نہیں آتی۔ اعلیٰ خدمت کا اعزاز یہ ہے کہ اقلیت کے عیاش محل پھیلتے جارہے ہیں اور اکثریت روزی روٹی سے محروم ہوتی چلی جارہی ہے۔ اسی جمہوریت کو بچانے کیلئے تن من دھن کا زور لگایا جارہا ہے جس میں خاندان کے 26افراد اقتدار کے منصب پر بیٹھ کر ہماری قسمت کے فیصلے کر یں گے ، اسی جمہوریت کا ڈھونگ فریب ہے، سماج کا جسم سسک اور کراہ رہا ہے۔ اسی جمہوریت کے سائے میں ایک خونخوار گروہ جو کالے دھن سے اپنی تجوریاں بھرنے کی خاطر غریب عوام کو امریکی اور یورپی ساہوکاروں کے چنگل سے نکلنے نہیں دیتا جمہوریت کے نام پر ایک مخصوص جمہوری ٹولہ عوام کو ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ”سلاٹر ہائوس ”میں دھکیل رہا ہے۔ اب زرخرید صحافت اور سیاست کے دلالوں کے ذریعے عوامی احساس کو گھائل اور شعور کو مسخ کرکے یہ سلسلہ طوالت نہیں چلے گا۔ عمران خان کے گرد اُن لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا ہے جن کے دکھ اور غم غیظ و غضب میں بدل چکے۔ نام نہاد جمہوریت سے غصہ اور نفرت بغاوت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور کروڑوں انسانوں کا غیظ و غضب مشترکہ پکار بن رہا ہے جس کی گونج سے جعلی حکمرانوں کے عالیشان ایوان لرزتے نہیں کھنڈر ہو جاتے ہیں۔ یہ انقلاب ہوتا ہے یہ ایک بار پھر ہونے والا ہے۔ واقعات اور شعور کے ملاپ سے اپنی محنت کی مشترکہ طاقت کے احساس سے اور غلامی کی زنجیروں کی برداشت کے خاتمہ سے خاندانی جمہوریت اور ”اسٹیٹس کو ”کا تسلط اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے اب کوئی بھٹو نہیں بچا اور مسلم لیگ کی قیادت کیلئے بانی پاکستان کا کوئی جانشین نہیں۔