... loading ...
رفیق پٹیل
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ موجودہ دنیا تیزرفتاری سے تبدیل ہونے والی دنیا ہے جدید مواصلات کے نظام ،ٹیکنالوجی ،اور برق رفتای سے اطلاعات کی فراہمی نے دنیا کو گلوبل ولیج یعنی ایک ایسے گائوں میں تبدیل کردیا ہے جس میں کسی بھی واقعے کی معلومات پلک جھپکتے ہی ہر جگہ پہنچ جاتی ہے ۔ 8 فروی کی شام کو انٹرنیٹ کی بندش اور رات گیارہ بجے کے بعد سے انتخابی نتائج کے جاری رہنے وا لے اعلانات کو اچانک روک دینے سے نے دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی اور ہر طرف دھاند لی دھاند لی کا شور شروع ہوگیا ۔دنیا بھر کے نمائندوں نے اس کا نوٹس لے کر اپنے اپنے میڈیا کے اداروں اور حکومتوں کو اس کی رپورٹ فوری طور پر پہنچادی جس کی وجہ سے دنیا بھر میں میڈیا میں دھاندلی کی خبروں کا سلسلہ شروع ہوا جو ،اب تک جاری ہے۔ امریکا ، مغربی ممالک اور اقوام متحدہ نے بھی دھاندلی پر تشویش ظاہر کردی۔ دھاندلی مزید فارم 45کے ذریعے بے نقاب ہوئی۔ یہ فارم تما م ہارنے والی جماعتوں کے پاس تھے جس میں متعلقہ پریزائیڈنگ افسر کے دستخط اور انگوٹھے کے نشانات تھے جبکہ جن نشستوں پر دھاندلی کا دعویٰ کیا جارہا ہے، وہاں جیتنے والے امیدوار اپنا فارم 45ظاہر نہ کرسکے نہ ہی الیکشن کمیشن نے مقررہ مدّت گزرجانے کے باوجود فارم 45الیکشن کمیشن کی ویب سائٹس پر لوڈ کیے، جبکہ قانونی طور پر یہ کا م14دن کی مدّت تک ہر صورت مکمّل کیا جاناتھا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ اس بات کا کسی کو کیوں احساس نہیں تھا کہ دور حاضر میں اس طرح کے اقدامات کا کتنا نقصان ہوگا؟ ملک کی کتنی بدنامی ہوگی پاکستان کی اپنی ساکھ کس قدر مجروح ہوگی ؟ پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں کو کس نگاہ سے دیکھا جائے گا؟ اس طرح کی تحقیقاتی خبروں اور رپورٹس کی وجہ سے بے ایمانی اور فراڈ کا داغ ہم کیسے دھو پائیں گے ؟ہمارا جو وفد بھی باہر جائے گا اسے کن نظروں سے دیکھا جا ئے گا ؟اگر حقیقی نتائج کا اعلان ہوبھی جاتا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی ۔نوازشریف اعلان کرتے کے ہم نے شکست تسلیم کرلی ہے تو ان کی قدرو منزلت میں کس قدر اضافہ ہوتا۔ انہیں غور کرنا چاہیے کہ اپنی بیٹی کو جس طرح سے اقتداردلوایا ہے وہ اس کے مستقبل کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ ہے۔ اسی طرح اگر بلاول یہ اعلان کرتے کہ جمہوریت کے خون میں لتھرے ہوئے ایوان میں وہ نہیں بیٹھیں گے۔ فیصلہ انصاف سے ہونا چاہیے ۔چاہے اس سے کسی کی بھی نشستیں کم ہوجائیں تو خود بلاول اپنی ساکھ کو مزید بلند درجے پر لے جاکر ملک میں اپنے بہتر مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔ لیکن شہباز شریف کی حمایت کرکے انہوں نے جس تاریک راستے کے سفر کا انتخاب کیا ہے، اس میں روشنی کی دور دور تک امید نہیں ہے۔ انتخابی مہم میں انہوں نے جو موقّف اختیار کیا تھا اس سے پیچھے ہٹ کرکس طرح اپنی ساکھ بحال کریں گے جتنا وہ اس کی وضاحت کریں گے، اتنی ہی ان کے لیے مشکلات ہوں گی حقیقی نتا ئج کے اعلان سے پی ٹی آئی کو فوراً دوسرے روز حکومت نہیں ملتی۔ اس دوران بہت کچھ طے ہوسکتاتھا لیکن پاکستان کے اداروں کی اس طرح رسوائی نہ ہوتی کچھ جلوس نکلتے اور سب اپنے معاملات طے کرنے میں لگ جاتے لیکن اب مزید ہیرا پھیری کرنے سے جو طوفان جنم لے گا ہمارے خطّے کے حالات کی وجہ سے شاید اسے دنیا کی بڑی طاقتیں بھی نہ روک سکیں گی۔ وقتی طور پر قابو پابھی لیا گیاتو دوسری صورت میں اندر ہی اندر یہ طوفان بڑھ کر مزید پھیل جائے گا اس کاواحد حل آئین ،جمہوریت اورانصاف کا راستہ ہے اسی سے ہر خطرے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے حالیہ انتخابات ایک ایسامقابلہ تھا جس میں ایک طرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کو تمام سہولتیں اور سرکاری سرپرستی حاصل تھی جبکہ مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کو عملی طور پر انتخابی عمل سے باہر کردیا گیا تھا۔ یعنی اس کے پاس اس کا انتخابی نشان بھی نہ تھا جس کا فیصلہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے کیاتھا۔ اس مقابلے میں ایک پہلوان یعنی تحریک انصاف کے ہاتھ پیر باندھ دیے گئے تھے۔ دوسری جانب دوسرے پہلوانوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ہر قسم کی آزادی تھی ریفری بھی ان کے ساتھ تھامقابلے میں پہلے ہی وار میں ہاتھ پائوںبند ھے ہوئے پہلوان نے مدمقابل پر برتری حاصل کرلی اور ایک پہلوان اکھاڑے میں گرگیا۔ سب حیران تھے یہ کیا ہوا ریفری نے مقابلہ روک کر گرے ہوئے پہلوان کومشکل سے کھڑا کیا اور دونوں پہلوانوں کو آپس میں ایک کرکے ہاتھ پیربندھے ہوئے پہلوان کے مقابلے میں کامیاب قرار دے کر ٹرافی دینے کااعلان کیا۔ اب اس کی تقریب کی تیاری کی جارہی ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے اس تماشے کوساری دنیا دیکھ رہی تھی۔ ہر جگہ سے شور برپا ہورہاہے کہ دھاندلی ہوئی، بے ا یمانی ہوئی ہے، مغربی دنیا اس قسم کے انتخابات کو الیکشن فراڈ کا نام دیتی ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ اس قصے کو بھلا دیا جائے اور آگے بڑھا جائے جیسا کہ ماضی میں ہوتا چلا آرہا تھا۔ ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم ایک بد لی ہوئی دنیا میں رہ رہے ہیںجہاں ا نفارمیشن ٹیکنالوجی کے بغیرگزارا نہیں ہے ۔
کوئی ملک بھی تنہائی میں ترقی نہیں کر سکتا ہے ملکوں کا ایک دوسرے پر دارومدار بڑھ چکاہے۔ آج پاکستان سے جانے والا سامان یورپ اورامریکا کی منڈ یوں میں فروخت ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں ڈا لر آتے ہیں، جب ان ملکوں میں یہ اطلاع جاتی ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ بند ہوگیا ہے تو اس کے منفی ا ثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کئی روز سے ٹوئٹربند ہے۔ ممتاز صحافی عمران ریاض جو کچھ ہی عرصہ قبل چار ماہ تک غائب کیے جانے کے بعد منظر عام پر آئے تھے اور وہ بات کرنے میں شدید دشواری محسوس کرتے تھے اب وہ ٹھیک ہونے کے بعد دوبارہ اپنا کام کرنے لگے تو انہیں گرفتارکرلیا گیا ۔اسی طرح ا یک اور صحافی ا سد طور بھی گرفتا رہوگئے۔ اس سے صحافیوں میں بھی بے چینی پیدا ہوگئی۔ بین الاقوامی سطح پر مزید منفی اثرات پیدا ہونگے۔ حال ہی میںانتخابی دھاندلی کے خلاف ایک ملک گیر کنونشن کا اہتمام کیا گیا جس میں شامل مختلف جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ جس کا جو حق ہے وہ اسے دیا جائے۔بصورتِ دیگر ملک میں افراتفری کی کیفیت ہوگی۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ سویت یونین کے پاس بہت طاقتور فوج تھی لیکن عوام اس کے ساتھ نہ تھے۔ اس لیے ملک قائم نہ رہ سکا۔ اس وقت ضروری ہے کہ ملک کو جمہوریت کی پٹری سے نہ اترنے دیا جائے۔ منصفانہ نتائج کا اعلان کیا جائے۔ انصاف کے بغیر ملکوں کا چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پختون خواہ ملّی عوامی پارٹی کے ساتھ بھی رابطہ کرلیا ہے۔ اسی طرح وہ ملک بھر کے چھوٹے بڑے تما م سیاسی گروپوں سے رابطہ کر کے انہیں دھاندلی کے خلاف تحریک کے لیے آمادہ کررہی ہے ۔سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور دیگر جماعتیں پہلے ہی ایک اتحاد تشکیل دے کر تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ مزید پھیل سکتا ہے۔ یہ دھاندلی پاکستان کی اچھی شناخت کے لیے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔