وجود

... loading ...

وجود

آخر جمہوریت کا معیار کیا ہے؟

هفته 24 فروری 2024 آخر جمہوریت کا معیار کیا ہے؟

جاوید محمود

پاکستان میں سیاسی بحران نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مجروح کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ڈیموکریسی انڈیکس 2023 کے مطابق پاکستان اس برس ایشیائی ممالک میں وہ واحد ملک ہے جسے اسکور میں تنزلی کے بعد اسے ہائبرڈ کی فہرست سے نکال کر اتھارٹیرین یعنی آمرانہ طرز حکومت والے ممالک کی فہرست میں ڈالا گیا ہے۔ دی اکانومسٹ کے مطابق ایسے ممالک جہاں صاف و شفاف انتخابات نہیں ہوتے شخصی آزادیوں پر پابندیاں ہوتی ہیں، میڈیا تو صرف سرکاری ہوتا ہے یا پھر اشرافیہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے، وہ آمرانہ نظام کے حامل ملک کہلاتے ہیں۔ ایسے ممالک میں حکومت پر تنقید کے برے نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور یہاں عدلیہ بھی آزاد نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق ایسے ممالک میں جمہوری ادارے ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ پاکستان کا شمار جمہوریت کی جگہ ہائبرڈ نظام والے ممالک میں کیوں ہے؟
دی اکنامسٹ کے مطابق پاکستان کے سیاسی نظام پر تنقید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو انتخابات سے قبل دباؤ میں رکھا گیا جس کی وجہ سے ان کی سیاسی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور متعدد رہنما پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔یاد رہے کہ پاکستان میں نگراں حکومت نے ہمیشہ ایسے دعوؤں یا کسی مخصوص سیاسی جماعت کے خلاف کارروائیوں کی ہمیشہ تردید کی ہے ۔اٹلانٹک کونسل کے نان ریزیڈنٹ فیلو تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ان کے لیے پاکستان کو اتھارٹیرین قرار دیا جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسا ملک جہاں انتخابات اپنی آئینی مدت سے آگے بڑھائے جائیں۔ میڈیا کو ایک سیاسی جماعت یا اس کے لیڈر کی کوریج کرنے سے منع کیا جائے۔ سیاسی کارکنان اور رہنما رو پوش ہوں، ایسے ملک کو آمرانہ نظام کا حامل قرار دیا جانا حیرانی کی بات نہیں۔ ایک خاص نقطہ نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں نے دی اکانومسٹ کی رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جس رپورٹ میں پاکستان کی تنزلی کی گئی ہے، اسی رپورٹ میں یونان کی ترقی کی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جو دائیں بازو کے نظریات کے مزید قریب ہو گیا ہے اور اس کی پالیسیاں یورپ میں بہتر زندگیوں کی خواہش رکھنے والے پناہ گزینوں کی موت کا سبب بنی ہیں ۔تاہم ان کے مطابق پاکستان میں نظام میں موجود کمزوریاں مغربی اداروں کو پاکستان پر تنقید کرنے کا موقع دیتی ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں مسلسل مداخلت اور عوام کی مرضی کو مجروح کرنے کا سلسلہ مغربی اداروں کو پاکستان کو ہدف ِتنقید بنانے کے مواقع فراہم کرتے رہیں گے۔ ماہرین سیاست کا کہنا ہے کہ سات عشروں سے بھی زائد عرصہ قبل قائم ہونے والی اسلامی جمہوری ریاست پاکستان کو جس میں کئی دہائیوں تک کسی نہ کسی صورت میں متحدہ فوجی حکمران ہی اقتدار میں رہے ہیں۔ آج تک یہ موقع ہی نہیں مل سکاکہ اس کا کوئی ایک بھی منتخب وزیراعظم اپنے عہدے کی پارلیمانی مدت پوری کر سکے ۔پاکستان میں کسی جمہوری حکمران کو اگر فوج نے مارشل لاء لگا کر برطرف نہ کیا تو اسے یا تو خود صدر مملکت نے اس کے عہدے سے ہٹا دیا یا پھر وہ کسی عدالتی فیصلے کے تحت اقتدار سے باہر کر دیا گیا۔ اس کی ایک تازہ مثال وزیراعظم نواز شریف کا حال ہی میں نا اہل قرار دیا جانا بھی ہے جو کسی عدالتی فیصلے کے بعد اپنے منصب سے محروم ہونے والے کوئی پہلے پاکستانی سربراہ حکومت نہیں تھے۔
دنیا بھر میں جمہوری نظام کا جائزہ لینے والے بین الاقوامی ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں رائج طرز حکمرانی کو اتھارٹیرین یعنی آمرانہ قرار دیا ہے۔ بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کی ڈیموکریسی انڈیکس 2023 رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے 150 سے زائد ممالک میں رائج نظام حکومت کاجائزہ لیا گیا۔ گزشتہ برس دی اکانومسٹ کی رپورٹ میں پاکستان کا جمہوریت میں 105 واں رینک تھا اور یہاں قائم حکومت کو ایک ہائبرڈ یعنی مرکب نظام حکومت قرار دیا گیا تھا۔ تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کی رینکنگ میں تنزلی دیکھنے میں آئی ہے اور اب پاکستان گزشتہ سال کی رینکنگ میں 11 درجوں کی تنزلی کے بعد اقوام عالم میں 118 نمبر پہ آگیا ہے۔ گزشتہ برس ڈیموکریسی انڈیکس میں پاکستان کا اسکورکم ہو کر3. 4تھاجو اس برس کم ہو کر 25 .3ہو گیاہے۔ اس رپورٹ میں امریکہ، انڈیا ،برازیل اور انڈونیشیا جیسے ممالک کو فلاڈ جمہوریت قرار دیا ہے۔ فلاڈ جمہوریت سے مراد وہ نظام ہے جہاں انتخابات تو صاف و شفاف ہوتے ہیں لیکن وہاں موجود جمہوری نظام میں مسائل ہوتے ہیں جیسے کہ میڈیا پر دباؤ نظام میں کمزوریاں اور لوگوں کی سیاسی نظام میں دلچسپی میں کمی ۔اس فہرست میں انڈیا کا رینک 41 ہے ۔دی اکانومسٹ نے ناروے نیوزی لینڈ اور آئس لینڈ کو مکمل جمہوریت والی اس فہرست میں سب سے اوپر رکھا ہے۔ اگر اپ دی اکانومسٹ جیسے اداروں کی رپورٹوں کا جائزہ لیں تو وہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کے حوالے سے منفی فتوے جاری کرتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے حوالے سے ان کے فتوے مثبت ہوتے ہیں ۔واضح رہے کہ امریکہ کو آزاد ہوئے 247سال ہو چکے ہیں، جب امریکہ کی بنیاد رکھی گئی تو وہاں یہ حقوق صرف سفید فام مردوں کے پاس تھے بلکہ صرف سفید فام زمیندار مردوں کے پاس تھے۔ اگر آپ کے پاس زمین نہیں تھی تو آپ کو ووٹ کا حق نہیں تھا ۔سیاہ فام افراد کو غلام بنایا جا سکتا تھا اور ان کی خرید و فروخت بھیڑ بکریوں کی طرح کی جاتی تھی۔ عورتوں کو ووٹ کا حق 125سال کے بعد 1920 میں 19 ویں ترمیم کے ذریعے ملا ۔آج حالات وہ نہیں ہیں مگر آج بھی امریکہ میں اقلیتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سیاہ فام افراد آئے روز پولیس کی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں برابر کے کام میں کم اجرت ملتی ہے۔ نسل پرستی پدر شاہی چاہے آئین میں ختم کر دی گئی ہے، معاشرے سے ختم نہیں ہوئی ہے ۔ملک کے پہلے غیر سفید فام صدر کو آنے میں دو صدیوں سے زیادہ لگ گئے۔ خاتون صدرتو ابھی بھی ایک خواب ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ امریکہ سے اچھا ہے۔ پاکستان میں دو مرتبہ بے نظیر وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری نبھا چکی ہیں۔امریکہ میں موجودہ صورتحال میں آنے والے انتخابات میں کوئی صدر مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر انتخاب نہیں جیت سکتا ۔امریکہ میں نوجوان مسلمان اپنے فلسطین حامی موقف پر دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ مسلم نوجوان مظاہروں میں حصہ لینے سے ہچکچاتے ہیں۔ اپنی سوشل میڈیا فورس کی وجہ سے اپنے اسکالرشپ تعلیمی کیریئر نوکریاں کھونے سے پریشان ہیں۔دی اکنامکس نے ان حالات میں امریکن جمہوریت کو فلاڈ جمہوریت کا رینک دیا ہے۔ کیا امریکہ کو یہ رینک دینا انصاف پر مبنی ہے ۔نا انصافی کی حد تو یہ ہے کہ بھارت کو 41 نمبر پر رکھا گیا ہے۔ بھارت میں سی این این کے مطابق 230 ملین مسلم کہتے ہیں کہ انہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں پسماندہ اور پسماندہ کیا جا رہا ہے۔ سی این این کے مطابق اپریل اور جون 2022 کے درمیان پانچ ریاستوں میں مسلمانوں کی کل 128 جائیدادوں کو سرکاری حکام نے بلڈوز کر دیا تھا۔ مسماریوں نے کم از کم 617 افراد کو بری طرح متاثر کیا جن میں مرد خواتین اور بچے بھی شامل تھے یا تو انہیں بے گھر کر دیا گیا یا ان کی واحد روزی روٹی سے محروم ہو گئے۔ مصنف مکو یادو نے کہا یہ ایک 360 ڈگری اسلام و فوبک مہم ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں جاری ہے۔ دہلی کے مہرولی ضلع میں بہت سے مسلمانوں میں مایوسی کا احساس ہے جہاں سرکاری حکام نے گزشتہ ماہ کے آخر میں 600 سال پرانی خوند جی مسجد کو زمین بوس کر دیا تھا۔کوئی دی اکانومسٹ سے پوچھے کہ آخر کس بنیاد پر بھارت کو 41 رینک دیا گیا۔آخر یہ کیا معیار ہے جمہوریت کاگراف دیکھنے کابھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و بربریت کا کھیل جاری ہے، اس بنیاد پر اسے بدترین ملک قرار دینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر