... loading ...
حمیداللہ بھٹی
یہ درست ہے کہ قومی اسمبلی میں کسی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں البتہ یہ تصور کرلینا کہ حکومتی تشکیل ہی ناممکن ہوگئی ہے غلط ہے۔ دور کیوں جائیں پی ڈی ایم محض تین ووٹوں کی اکثریت سے حکومت بناکر بڑے آرام سے سولہ ماہ گزارگئی۔ اب بھی حکومتی تشکیل میں کوئی امر مانع نہیں تھا۔ البتہ صورتحال میں تاخیر کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کابہتر سودے بازی کے لیے چند دن نخرے کے طورپر بلاول بھٹوکا دوبرس کے لیے وزیراعظم نہ بننے اور وزارتیں نہ لینے کااعلان کرنا تھا۔ مگر سیاسی نبض شناس پُرامید تھے کہ ناں کا مطلب ہاں ہی ہے۔ بظاہرانکار کے باوجود پسِ پردہ مرکز سمیت صوبہ پنجاب کے اقتدار سے حصہ لینے کے لیے جاری گفت وشنید سے بھی اسی جانب اشارہ ہورہاتھا۔ اب تومسلم لیگ ن ا ور پی پی میں شراکت ِاقتدار کا فارمولا طے پاگیا ہے جس کے مطابق شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم جبکہ آصف زرداری صدرکا منصب سنبھالنے والے ہیں۔ حالانکہ کچھ لوگوں کی خواہش تھی کہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیرِ اعظم بنایا جائے مگر وہ جس طرح ہوتا ہے کہ بڑی کے لیے رشتہ لیکر آنے والے تابعدار چھوٹی کو پسند کر جاتے ہیں بس ایسی ہی کچھ بات ہوئی ہے۔ بڑی امیدیں و توقعات لیکر آنے والے کو اقتدار چھوکر گزرگیا ہے اور حالات دیکھ کر نہ چاہتے ہوئے بھی نواز شریف افہام و تفہیم پرراضی ہیں ۔
اگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں جماعتوں کے ممبرانِ قومی اسمبلی کی بات کریں تو وہ 140کے لگ بھگ ہیں۔ خصوصی نشستیں بھی شمار کر لی جائیں تو یہ تعداد 180ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم ،جمعیت ،ق لیگ کوساتھ ملاکر سادہ اکثریت تو ایک طرف دوتہائی اکثریت ثابت کرنا بھی ممکن ہوجاتا ہے ۔انتخابی نتائج کی روشنی میں اِس وقت اتحادی حکومت بنانے کے سواکوئی چارہ تو نہیں،اسی لیے مسلم لیگ ن مرکز سمیت پنجاب میں بھی شراکت اقتدارپر آمادہ ہوئی ہے۔ مرکز سمیت تمام صوبوں میں اتحادی حکومتیں تشکیل پانے کا امکان ہے۔ کے پی کے جہاں پی ٹی آئی کو واضح اکثریت حاصل ہے ،وہاں بھی چند ایک چھوٹی جماعتیں شاملِ اقتدار ہو سکتی ہیں۔ ایسا ملک میں پہلی بار نہیں ہورہا کہ اتحادی حکومتیں تشکیل پانے والی ہیں، بلکہ ماضی میں ایک سے زائد بار ایسا ہو چکا اور دنیامیں جہاں جہاںپارلیمانی جمہوریت رائج ہے نہ صرف اتحادبنتے اور ٹوٹتے رہے ہیں بلکہ اتحادی حکومتیں نہ صرف مسائل حل کرتیں بلکہ سیاسی استحکام کا بھی موجب بنتی ہیں لیکن پاکستان میں یہ تجربہ کیسا رہتا ہے؟ پردہ اُٹھنے کی منتظرہے نگاہ۔
اکثریتی جماعت کو اقتدار سے زیادہ دیر باہر رکھنا ممکن نہیں۔ ہوسکتا کئی ممالک میں ایساہواکہ بڑی جماعت کوچھوٹی جماعتوں کے اتحاد نے اقتدار سے باہر کردیا لیکن جلد ہی حیلے بہانے ختم ہوئے اور اکثریتی جماعت اقتدار میں آگئی۔ پاکستان میں بھی اب تو اتحادی حکومت یہ معرکہ سر کر لے گی لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ جب کبھی ملک میں عام انتخابات ہوئے پی ٹی آئی موجودہ اکثریت سے بھی زیادہ حیثیت سے پارلیمان میں جلوہ افروز ہو سکتی ہے۔ اسی لیے بہتر تو یہ ہے کہ متوقع حکومت ملک میں عدم برداشت کا رویہ ختم کرنے کے لیے سیاسی انتقامی کاروائیاں ختم کرنے کا لائحہ عمل اپنائے ۔ایسا ہونے سے سیاسی عدمِ استحکام کم کرنے میںبھی مدد مل سکتی ہے۔ نیز سرمایہ کاری کے لیے بھی ماحول سازگار ہوگا۔ لیکن اِس کے لیے بڑے ظرف کے ساتھ سیاسی فوائد سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہو گا۔ اگرحسب ِروایت سیاسی فوائد پر نظر رکھی گئی تو سیاسی استحکام کا خواب پوراہونا مشکل ہے ۔سیاسی افہام و تفہیم کے لیے آصف زرداری کی صلاحیتوں سے کام لینے سے اکثریتی جماعت کے خدشات آسانی سے دور کیے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں بہ حیثیت صدرِ مملکت وہ اپنے شدید ترین مخالفین کو نہ صرف ساتھ ملانے میں کامیاب رہے بلکہ وہ قربت اب تک برقرارہے۔ ذہن میں رکھنے والی بات یہ ہے کہ نوجوانوں کا ووٹ بینک فیصلہ کُن حیثیت حاصل کر چکا ہے ۔پی ٹی آئی سے وابستہ یہ نوجوان جن کی بڑی تعدادسوشل میڈیا پر بھی متحرک ہیںکو اگر مسلسل نظر انداز رکھا گیا تو ری ایکشن بھی اسی حساب سے زیادہ سخت آسکتا ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اقتدار و اختیار پر نظر رکھتے ہوئے اکثریت کو دیوار سے لگانے کا سلسلہ اب ترک کردیا جائے۔
ملک کے اگر بڑے مسائل کا ذکر کیا جائے تو قرضوں میں جکڑی تباہ حال معیشت متوقع حکومت کی اولیں توجہ کی متقاضی ہے۔ اِس وقت اندرونی اور بیرونی قرضوں اور واجبات کا حجم 77660 ارب ہو چکا ہے ۔یہ رقم ڈالرمیں 271ارب بنتی ہے۔ دراصل ہر آنے والی حکومت نے پیداواری معیشت بنانے کی بجائے قرض لیکر حکومت کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی جس سے حالات دگرگوں ہوتے گئے۔ معیشت کو پیداواری نہ بنانے اور معاشی شرح نمو میں بہتری نہ لانے سے ملکی و غیر ملکی قرضوں میں ہونے والا اضافہ ایسا بوجھ بن گیاہے جو معاشی استحکام کی راہ میں ناقابلِ عبور رکاوٹ ہے۔ اگرمتوقع حکومت نے عوامی اعتماد کو برقرار رکھنا اور نفرت میں بدلنے سے روکنا ہے تو اُسے ماضی کی حکومتوں کومسائل کا ذمہ دارٹھہرانے اور کوسنے کی بجائے معیشت بہتر بنانے پر توجہ دیناہوگی ۔مزید قرضے حاصل کرنے اور عوام کو مہنگائی کے سیلاب میں بے یارومددگارچھوڑنے سے مہنگائی روکنے اور معیشت بہتر بنانے جیسے مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔
ایک دہائی قبل پاکستان کا فی کس قرضہ 823ڈالر تھا جو2023میں 1122ڈالر ہو گیا۔اِس دوران فی کس آمدنی میں بھی گراوٹ آتی گئی ۔2011میں جو فی کس آمدن 1295 ڈالرتھی۔ 2023میں چھ فیصد کم ہو کر1223ڈالر رہ گئی۔ یہ آمدنی سے قرض بڑھنے کی طرف اشارہ تھا لیکن کسی حکومت نے ادراک نہ کیا اب تو حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملکی آمدن کا پچاس فیصدسے زائد قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال ملکی معیشت کے لیے کسی حوالے سے بھی اچھی نہیں ۔بلکہ تشویشناک ہے متوقع حکومت نے رواں مالی سال کے دوران بیرونی ادائیگیوں کے لیے کم از کم پچیس ارب ڈالر کا انتظام بھی کرنا ہے۔ اگر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو مدِ نظر رکھیں تو یہ رقم تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے اربوں ڈالر قرض ادائیگی کے لیے بیرونی مدد کی ضرورت ہے۔ اسی لیے حکومت کو لامحالہ عالمی مالیاتی اِداروں سے مزید قرض لینا ہوگا۔ ایسے حالات میں جب متوقع حکومت کے معاشی ماہرین ابھی سے آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر لینے کے لیے اگلے ماہ مارچ یا اپریل میں بات چیت کی تیاریوں میں ہیں ،آئی ایم ایف کو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف بانی پی ٹی آئی خط لکھ کر صورتحال سے آگاہ کرنے والے ہیں تاکہ مذاکرات سے قبل آئی ایم ایف جیسا مالیاتی اِدارہ دھاندلی والے حلقوں کے آڈٹ کا مطالبہ کرے ۔اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت سیاست چمکانے کے لیے ہرحربہ اختیار کر سکتی ہے جسے کسی صورت سراہا نہیں جا سکتا۔متوقع حکومت کی طرف سے عالمی مالیاتی اِداروں سے قرض لینے کے لیے شرائط تسلیم کرنااور مہنگائی کوبے لگام چھوڑ دینا مقبول ترین اپوزیشن کے لیے آئیڈیل صورتحال کا باعث بن سکتاہے اوروہ مزاحمت و احتجاج کی طرف آکر حکومت کو زچ کر سکتی ہے ،کیا ہونے جارہونے جارہا ہے؟ پردہ اُٹھنے کی منتظرہے نگاہ۔