... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
حالیہ جنرل الیکشن میں ہونے والی دھاندلی نے ثابت کردیا کہ دھاندلی بھی ہمارا قومی کھیل ہے ۔لیکن جدید دور کے میڈیا نے اس دھاندلی کو نہ صرف بے نقاب کردیابلکہ مرحوم ارشد شریف کی پڑھی ہوئی نظم کے وہ الفاظ کہ پس آئینہ کوئی اور ہے کو بھی ننگا کردیا۔ یہ دھاندلی تو ہمیں آج کیمرے کی آنکھ نے دکھائی ہے ورنہ تو قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس گھنائونے کام میں ہمارے اہل ہوس ملوث تھے۔ اس وقت وہ جو چاہتے وہ ہوجاتا اور یہ انکی مرضی پر منحصر ہوتا تھا کہ وہ کسے ایوان اقتدار میںلانا چاہتے ہیں اور اور پھر کیسے اسے رخصت کرکے گھر،جیل یا پھرنشان عبرت بنانے کے لیے اور دوسروں کو سبق سکھانے کے لیے اسے تختہ دار تک پہنچا دیا جاتا تھا۔یہ ساری باتیں وہ ہیںجو آج سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں اور اب تو رہی سہی کسر مولانا فضل الرحمن اور علی وزیر نے پوری کردی ہے جس کی گونج نہ صرف پاکستان میں سنائی دے رہی ہے بلکہ دنیا بھر کے سوشل ،پرنٹ اور الیکڑانک میڈیاپر زیر گردش ہے ۔آج کا انسان چونکہ پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہے اور رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی ہے جس نے نہ صرف اس الیکشن کی دھاندلی کا پردہ چاک کردیا ہے بلکہ عوام کو بتا بھی دیا ہے کہ آپ کے ووٹوں پر اس طرح ڈاکہ پڑتا ہے؟
آپ ذرا اس دور کا تصور کریں جب موبائل کا تصور بھی نہیں تھا اورکیمرہ بھی کسی کسی کے پاس ہوتا تھا۔ پولیس اور دوسرے اداروں کا خوف اس قدر ہوتا تھا کہ انسان اپنے جائز حقوق کے لیے بھی ڈرکی وجہ سے تھانے نہیں جاتا تھا۔ ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی حضرات اپنے ضلع میں سیاہ کریں یا سفید کسی کو بولنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ بڑے سے بڑا سرمایہ دار ،جاگیر دار اور اپنے علاقے کا چودھری زندہ رہنے کے لیے انہی دونوں کرداروں کے ارد گرد گھومتا تھا۔ ان کی خوشنودی میںلگا رہتا تھا اور پھر انہی کی مہربانیوں سے وہ اسمبلیوں تک بھی پہنچ جاتا تھا۔ ان ہی طاقتور لوگوں کا کمال تھا کہ الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح جیسی ہستی کو بھی ہروادیا گیا جو پاکستان بنانے میں اپنے بھائی قائد اعظم کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلی ،کسی مشکل ،مصیبت اور آفت سے نہ گھبرائی لیکن اسے ہمارے اپنوں نے ہی شکست دیدی ۔اس الیکشن میں بھی عمران خان کو جس طرح عوام نے ووٹ دیا اور پھر مخصوص حلقوں نے اس ووٹ کو تبدیل کردیا لیکن اس بار ہوا کچھ یوں کہ لوگوں میں شعور بھی تھا ،علم بھی تھا اور پھر سوشل میڈیا بھی تھا۔جس کی وجہ سے ووٹوں میںملاوٹ کا دھندہ نہ صرف بے نقاب ہو گیا بلکہ بری طرح فیل بھی ہوگیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتیں کراچی سے خیبر تک اپنی ہار جیت سے ہٹ کر صرف اس لیے احتجاج کررہی ہیں کہ ووٹوں کی گنتی پر جو ڈاکہ مارا گیا ہے، اسے ختم کیا جائے اور جو بھی جیتا ہے اسے اسکا حق دیا جائے ۔اگر ایسا ہوجائے تو پھر میاں نواز شریف سمیت تمام بڑے بڑے نام سیاسی منظر نامے سے غائب ہوجائیں گے۔
سیاست کی یہ بساط اسی مقصد کے لیے بچھائی گئی تھی کہ میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے اور وہ اسی لیے پاکستان واپس آئے تھے کہ “ساڈی گل ہوگئی اے “اور اس کے لیے امریکہ نے سائفر کی صورت میںمداخلت کی عمران خان کو تنہا کر کے تمام سیاسی جماعتیں عمران خان کیخلاف جمع کی گئی۔ 35 سال سے ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے والے بغل گیر ہوگئے ۔رات کے بارہ بجے عدالتیں کھولی گئیں اورسازش کے تحت عمران خان کی حکومت گرائی گئی۔ اس کے بعد بھی انہوں نے بس نہیں کی بلکہ عمران خان کے خلاف مذہب کارڈ ،عورت کارڈ استعمال کیا گیا۔عمران خان کی نجی لائف کو مذاق بنادیا گیا۔ عمران خان کی طرف سے دو صوبوں کی حکومت چھوڑنے کے باوجود بروقت روک دیے گئے اورنگران حکومتوں نے الیکشن کروانے کی بجائے تحریک انصاف کو ختم کرنے پراپنی توجہ مرکوز کردی۔ عمران خان کو آئینی اور جمہوری حقوق سے محروم کرتے ہوئے لانگ مارچ سے جبراً روکنے سے لیکرنہتے کارکنان پر شیلنگ اور لاٹھی چارج شروع کردیا گیا ۔عمران خان پر قاتلانہ حملہ کروایا گیا ۔زمان پارک سے طاقت کا استعمال کر کے غیر قانونی گرفتاری کی کوشش کرنے سے لیکر سابق وزیر اعظم کو گربیان سے پکڑ کر گرفتار کر دھکے دیتے ہوئے لے جانا اور پھر میڈیا کے ذریعے ساری دنیا کو دکھا نا کہ ہم ایسا کرتے ہیں اسکے بعد 9مئی کا واقعہ ہونا اور پھر عورتوں بچوں بوڑھوں اورنوجوان نسل کو سڑکوں پر مارنے اور گھسیٹتے شدید تشدد کا نشانہ بنانا ،ارشد شریف کا قتل اورعمران ریاض سمیت عمران خان کے حق میںبولنے والوں کو زبردستی اٹھا لینا، گھروں پر حملے کر کے خواتین اور بچوں کو ہراساں کرکے پی ٹی آئی کو توڑنا اورپھر جبراً پریس کانفرنسوں کا سلسلہ شروع کرنا کارکنان پر بہیمانہ تشدد اور جھوٹے مقدمات کا سلسلہ آندھی اور طوفان کی طرح شروع ہونا، عمران خان کو توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ جیسے مقدمات میں گرفتار کرنا اور پھر راتوں کو سزا سنانا، پارٹی ختم کرکے انتخابی نشان چھننا، امیدواروں انکے تجویزاورتائید کنندگان کو گرفتار کرنا، جیسے حربے استعمال کیے جانے لگے ۔لیکن عوام نے سب پلان فیل کردیے۔ آج کل تاریخ کا ایک اور جھوٹ بولا جاتا ہے کہ 2018 میں بھی حالات ایسے تھے لیکن اس وقت ایسا نہیں کیا گیا تھا جو ظلم اور زیادتی 2024 میں تحریک انصاف پر کی گئی۔ اگر غور کریں تو 2018 تو دور پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں آج تک کسی الیکشن میں کسی بھی سیاسی پارٹی اسکے قائدین اور ورکروں پرایسا ظلم نہیں کیا گیا تھا جو اس بارکیا گیا لیکن اسکے باوجود عوام نے بغیر پارٹی ،بغیر نشان ،بغیر کسی انتخابی مہم کے قیدی کو ووٹ دیکر جتوا دیا لیکن دھاندلی ہمارا قومی کھیل ہے جو صرف الیکشن کے دنوں میں ہی کھیلا جاتا ہے ۔اس لیے اس الیکشن میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا لیکن اس بار دھاندلی کرنے والے اناڑیوں کو شاید علم نہیں تھا کہ انکا مقابلہ اس بار اس ایک کھلاڑی وہ بھی فاتح کپتان کے ساتھ ہے، جس نے پوری ٹیم کی مایوسی کے باوجود ورلڈ کپ جیت لیا تھااور اس بار تو کپتان کی ٹیم میں شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد ،علی محمد خان،چوہدری پرویز الہٰی،عمر چیمہ ،اعظم سواتی ،علی امین گنڈا پور،راجہ بشارت، حماد اظہر،محمود رشید،میاں اسلم اقبال،زبیر نیازی،اصغر گجر،شہزاد فاروق اورعالیہ حمزہ سمیت سینکڑوں ایک سے بڑھ کر ایک آل رائونڈر موجود ہیں اور پوری قوم عمران خان کویہ میچ جتوانے میں مصروف ہے تو پھر ہار کیسی اور ہار کا ڈر کیسا۔