... loading ...
رفیق پٹیل
موجودہ انتخابی عمل اور اس کے نتائج کے بعد کی صورتحال پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا مظہر ہے۔ کسی بھی سابقہ انتخابات کے ساتھ اس کی مماثلت نہیںہے ۔کسی بھی سابقہ انتخابات سے اس کاموازنہ کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ حالت یہ ہوچکی ہے کہ دنیا کی دو انتہائی معروف یونیورسٹیوں ہاروردڈ اور مشی گن میں اس پر نصابی تحقیق(CASE STUDY)کا آ غاز کیا جارہا ہے جس میں ممکنہ طور پر اس تمام عمل اور بعد کی صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے گا۔ اس کا مرکزی نکتہ یہ بھی ہے کہ جب عمران خان جیل میں تھے ۔انہیں 31سال کی سزا بھی ہوچکی تھی ،دیگر قیادت بھی جیل میں تھی۔ ہزاروں کارکن بھی جیلوں میں تھے ۔میڈیا پر بھی عمران خان کے نام لینے پر پابندی تھی۔ انتخابی مہم کی اجازت بھی نہیں تھی ۔اس کے بعد یہ کیسے ممکن ہوا کہ تحریک انصاف نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کرلی؟ اس کے علاوہ دنیا بھر کا میڈیا ان انتخابات میں دھاندلی کے بارے میںجو ہولناک تصویر پیش کررہا ہے اس کی مثال بھی نہیں ملتی۔ تحریک انصاف کے انتخابی نشان کو چھیننے کا بھی ان رپورٹس میں خصوصی ذکر ہے۔ اس طرح الیکشن کمیشن اور عدالتی عمل کی بھی منفی تصویر سامنے آرہی ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ کی اس تصویر کشی کے بعد دھاندلی زدہ حکومت کو عالمی سطح پر ذرہ برابر بھی پزیرائی نہیں ملے گی۔ عمومی طور پر الیکشن کی چوری کو اہم جمہوری ممالک خصوصاً مغرب اور امریکا میں جرم تصور کیا جاتا ہے ۔پاکستان کے آنے والے حکمرانوں کو الیکشن چوراور الیکشن فراڈ کا تاج سرپر سجانا خود ان کی اپنی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔ ہو سکتا ہے دنیا بھر کے میڈیا کے اثرات سے چشم پوشی سے وہ خو د کو وقتی طور پر تسلّی دے رہے ہوں لیکن جس درجے کا طوفان عالمی میڈیا پر جاری ہے ۔شاید ہی دنیا کے کسی بھی ملک کا اس طرح سے باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہو گا، جس طرح پاکستان کے انتخابی عمل کا لیا جارہا ہے۔ اب پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر بھی مزید دبائو بڑھ جا ئے گا۔ ہارس ٹریڈنگ کے ذمہ داربھی عالمی میڈیا کے ہاتھوں ایسی رسوائی کا سامنا کریں گے جس کا انہیں تصور بھی نہ ہوگا۔ ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا نے پاکستان کا خوردبین سے جائزہ لینا شروع کردیا ہے ۔امریکہ میں بعض پاکستانیوں نے اپنی گاڑیوں پر LOVE 804 کی نمبر پلیٹ لگانا شروع کردی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ مزید پھیل سکتا ہے۔
13فروری2024 برطانوی اخبار دی گارڈین نے جو رپورٹ شائع کی ہے وہ پاکستان کے حکمرانوں کی رہی سہی ساکھ کو خاک میں ملا رہی ہے۔ اس رپورٹ کامکمل ترجمہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ کی صورت حال کی وجہ سے شائع نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے چند چیدہ حصے اس طرح ہیں اس کا عنوان ہے ( موجودہ انتخابی ہنگامہ پاکستان پر ایک کمزور اور غیرمقبول حکومت کا باعث بناہے ) اس کی ذیلی سرخی ہے (حکومت نواز شریف کی جماعت بنائے گی لیکن جیل میں بند عمران خان کی مقبولیت کے پیش نظر یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گی )۔رپورٹ میں کہا گیا ہے ” انتخابات کے روز سہ پہرکو بعض اہم ذرائع سے یہ رپورٹ مقتدر حلقوں کو موصول ہونا شروع ہو چکی تھی کہ زمینی صورتحال منصوبے کے مطابق نہیں جا رہی ہے۔ ان اطلاعات کے بعد ووٹ ڈالنے کے عمل کو سست کیا گیا۔ موبائل سروس سیکوریٹی کے نام پر معطّل کی گئی۔ لیکن اس کا اصل مقصد ووٹ دینے والوں خصوصاً عمران خان کے حامیوں کو پولنگ اسٹیشنوں سے دور رکھنا تھا۔ یہ حکمت عملی ناکام ہوگئی۔ عمران خان کے حامیوں نے تمام حربوںکو ناکا م بناکر اکثر نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی۔ پی ٹی آئی کے ووٹرز گھروں سے نکلے لیکن مسلم لیگ ن کے ووٹرز نہیں آئے۔ ابتدائی نتائج میں پی ٹی آئی بڑے پیمانے پر جیت رہی تھی۔ اس وقت اندازہ ہوا کہ معاملات ہاتھ سے نکل رہے ہیں ۔اس کے بعد طویل تعطل پیدا ہوا۔ اس موقع پر برطانوی وزارت خارجہ نے نتائج کی تاخیر اور دھاندلی کی رپورٹوں پر تشویش ظاہر کی ”۔رپورٹ میں اہم ادارے کو بعض معاملات میں ذمہ دار ٹہرایا گیا ہے ۔ رپورٹ کے آخری حصے میں پاکستانی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کاتبصرہ بھی شامل کیا گیا ہے کہ نئی حکومت کے پاس نہ ہی کوئی معاشی منصوبہ ہے نہ ہی یہ منتخب حکومت کہلائے گی، نہ ہی یہ زیادہ عرصے قائم رہے گی۔
ایک بھارتی چینل نے پاکستانی معیشت کو انتہائی شدید بحران میں مبتلا قرار دیتے ہوئے پاکستان ایک اہم انگریزی اخبار کی رپورٹ کا ذکر کیا ہے جس کے مطابق پاکستان کے بڑے سرمایہ دار اور تاجر اپنا کاروبار اور سرمایہ بیرون ملک منتقل کررہے ہیں ۔ایک اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں بتایا گیا ہے کہ ” کس طرح پاکستا نی نوجوانوں کی اکثریت نے انٹرنیٹ کے استعمال سے اس انتخابی مہم میں شامل ہوکر روایتی سیاست کو شکست دے دی نوجوانوں میںمعیشت کی تباہ حالی سے بھی مایوسی پھیلی ہوئی ہے جبکہ وہ ملک میں دو خاندانوں کی حاکمیت کو بھی تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں ہیں”۔ ان رپورٹوں کے علاوہ ملک بھر کے عوام میں دھاندلی کی وجہ سے شدید بے چینی اور غم و غصہ ہے اس کیفیت کا اندازہ کرتے ہوئے ملک کی مختلف چھوٹی بڑی سیاسی جما عتیں اور گروپ احتجاج کے لیے میدان مین آگئے ہیں جس میں جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین ، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس،اور بلوچستان کے مختلف گروپوں اور دیگر جماعتوںکے ہمراہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کا احتجاج جاری ہے۔ بلوچستان میں اس کی شدّت بہت زیادہ ہے ۔یہ سلسلہ آسانی سے ٹل نہیں سکے گا ،نہ ہی تشدّد سے اسے روکا جا سکے گا۔ یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ملک کے دیگر تمام سیاسی گروپوں سے تعاون حاصل کرنے کے لیے کوشش شروع کردی ہے۔ کراچی میں حافظ نعیم الرحمان نے اپنی جیتی ہوئی سیٹ واپس کردی ہے جس کی وجہ سے انہیں پی ٹی آئی کے حلقوں میں کافی پزیرائی ملی ہے۔ سرکاری نتائج کے مطا بق پی ٹی آئی حکومت کی تشکیل میں تنہا کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایک اور مسئلہ مخصوص نشستوں کا ہے جس سے وہ اس لئے محروم ہیں کہ ان کا انتخابی نشان ان سے لے لیا گیا ہے اور جونام انہوں نے جمع کرائے تھے۔ اسے الیکشن کمیشن تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں ہے ۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ انہیں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے وہ اپنی نشستیں واپس چاہتے ہیں۔اس سلسلے میں تحریک انصاف نے قانونی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ جمعیت علماء اسلام(ف) کے سر براہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہونا چاہتے ہیں۔انہوں نے نواز شریف کو بھی مشورہ دیا کہ وہ بھی اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھیں۔ بظاہر اس صورت حال پر قابو بھی پالیا جائے اورجبری طریقہ کار سے جوڑ توڑ کی حکومت قائم بھی کرلی جائے، بد ترین طاقت کے استعمال سے سیاست کا انتظام کرلیا جائے، پی ٹی آئی کے تمام کرتا دھرتا لوگوں کو گرفتا کر لیا جائے، اس صورت میں بھی بد ترین تباہی ہوگی ۔موجودہ بحران کے حل کے لیے سپریم کورٹ،الیکشن کمیشن اور نگران حکومت نے کردار ادا نہ کیا تو تاریخ کیا فیصلہ کرے گی سب جانتے ہیں۔