... loading ...
جاوید محمود
امریکہ ،برطانیہ ،یورپی یونین اور آسٹریلیا کی جانب سے بھی پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام اتحاد پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ان ممالک کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ پاکستانی عوام کے انتخاب کے فیصلے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ ان ممالک کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ انتخابات کے روز موبائل سروسز کی بندش اور بعد ازاں انتخابی نتائج میں تاخیر میں انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے۔ ان ممالک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک جمہوری مستحکم اور خوشحال پاکستان کی حمایت کرتے ہیں جو انسانی حقوق میڈیا کی آزادی، آزادی اظہارِ رائے سمیت جمہوری اصولوں کے وعدوں کا پابند ہے۔ پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تاریخ بہت پرانی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا الیکشن ہو جس میں ہارنے والی جماعت نے سیاسی مخالفین یا اداروں پر انتخابی فراڈ میں ملوث ہونے کا الزام نہ لگایا ہو۔ کبھی فوج پر مداخلت کا الزام لگایا جاتا ہے تو کبھی کسی مخصوص جماعت پر ووٹوں کی چوری کا ۔کبھی 35 پنکچر کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ چوری کرنے کی بات کی گئی تو کبھی امیدواروں کے اغوا اور تشدد کی خبریں سامنے آئیں۔غرض ہر الیکشن میں کوئی نہ کوئی سقم ضرور رہ جاتا ہے۔
الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں اور کامیاب ہونے والے امیدواروں کا جوڑ توڑ اس کے علاوہ ہے جب 1990 کے عام انتخابات ہوئے توفوجی جرنیلوں پر الزام لگا کہ انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی مالی مدد کی تھی۔ 1993ء میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ نے الزام لگایا کہ پی پی کے حق میں مبینہ الیکشن دھاندلی ہوئی۔ 1997 ء میں یہی الزام پاکستان مسلم لیگ پر لگا۔ 2002 کے عام انتخابات فوجی جنرل پرویز مشرف کے زیر سایہ ہوئے اور اس وقت جلا وطن نواز شریف اور بے نظیر کی سیاسی جماعتوں پر بہت پابندیاں لگائی گئی تھیں ۔2008 کے انتخابات سب سے زیادہ پرتشدد تھے جن میں بہت سے امیدوار دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہوئے جبکہ 2013کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے الزام لگایا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت بنائی گئی اور عمران خان کی جانب سے 40 حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کیا گیا۔ 2018 میںپی ٹی آئی نے انتخابات جیتے لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا کہ یہ جیت فوجی حمایت کے مرہون منت تھی جس نے کھل کر عمران خان کی مدد کی ہے۔ فوج نے اس نوعیت کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے اور کبھی بھی کسی مخصوص جماعت کو سپورٹ نہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
دنیا کے 60 ممالک میں چار ارب سے زیادہ لوگ رواں برس ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے ۔ماہرین اس خدشہ کے ساتھ کہ جمہوریت خطرے سے دوچار ہے، انتخابی عمل کے مختلف طریقوں کے بارے میںبتاتے ہیںکہ اس میں دھاندلی کیسے ہو سکتی ہے اور اس کا پتہ کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ انتخابی عمل ایک طویل عرصے پرمحیط ایکسرسائز ہے اور ماہرین کہتے ہیں کہ اس عمل کے دوران ووٹوں کے ساتھ ہیرا پھیری کبھی بھی ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر چیئرمین کہتے ہیں کہ صرف انجان لوگ ہی الیکشن کے دن الیکشن میں دھاندلی کرتے ہیں۔ دھاندلی کرنے والے پیشہ ور افراد ایک سال پہلے الیکشن میں ہیرا پھیری شروع کر دیتے ہیںجیسا کہ حکمران جماعت کی طرف سے اپوزیشن کو دھمکانے کے لیے سیکیورٹی فورسز کا استعمال کرنا ،اپوزیشن کی عوام تک رسائی کو روکنے کے لیے میڈیا کو سنسر کرنا اور حکمران جماعتوں کے حق میں انتخابی رجسٹریشن کے عمل کو درست کرنا۔
جیلری کہتے ہیں کہ عام طور پر جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ برسر اقتدار لوگ ایسے ججوں کی تقرری کرتے ہیں جو آزاد نہیں ہوتے۔ اس لیے حتمی نتائج کے خلاف کوئی اپیل قبول نہیں کی جاتی ۔بڑے پیمانے پر خدشات کے باوجود امریکہ میں ایسا نہیں ہوا ۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر سپریم کورٹ کے تین ججوں کو تعینات کیا جس کی وجہ سے کنزرویٹو کوتین چھ کی اکثریت ملی لیکن انہوں نے جو بائیڈن کے خلاف 2020کے صدارتی انتخاب میں میںٹرمپ کی شکست کو چیلنج کرنے والے مقدمات میں ان کے خلاف بھاری اکثریت سے فیصلہ دیا۔ انتخابات میں ہیرا پھیری کرنے کی ایک اور تکنیک گری مینڈرنگز ہے جہاں ووٹنگ کے حلقہ بندیوں کو ایک مخصوص گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے بدلہ جاتا ہے۔ برسر اقتدار جماعتیں یا حکومتیں عوامی پیسے کا استعمال کر کے پسند کی پارٹی کی مہم کو فروغ دے سکتی ہیں ۔غلط معلومات پھیلا سکتی ہیں تاکہ انتخابی عمل کوبد نام کیا جائے یا ووٹ ہی خرید لیے جائیں۔ ڈاکٹر چیئرمین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ووٹر کو دبانے اور غلط معلومات پھیلانے کے بارے میں بڑے خدشات ہیں۔ہم نے پہلے ہی ایک جعلی ڈیجیٹل پیغام دیکھا ہے جس میں امیدوار برائے صدر بائیڈن لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ ووٹ ڈالنے کی زحمت نہ کریں اگرچہ ابھی انتخابی مہم شروع بھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایل سلواڈور، انڈیا اور سری لنکا میں انتخابات کے دوران غلط معلومات، انتخابی ہیرا پھیری اور سیاسی تشدد کا سنگین خطرہ موجود ہے ۔یہ ووٹ ڈالنے کے بعد انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ اس میں پہلے سے بھرے ہوئے بیلٹ پیپرز کو بیلٹ باکس میں رکھا جاتا ہے۔ ووٹ ڈالنے کے بعد تعداد میں تبدیلی یا مختلف ووٹوں کو کالعدم کرنے کے لیے بیلٹ بکس کو ضائع کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ روس میں 2021 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران پولنگ کے تین دن کے دوران بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھے جس میں بیلٹ باکس جعلی ووٹوں سے بھرنا اور انتخابی مبصرین کو دھمکیاں دینا شامل تھا۔بڑے پیمانے پر آن لائن شیئرز کی گئی ویڈیوز میں لوگوں کو بیلٹ باکس میں ووٹ بھرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے ۔تاہم اسی حکومت نے کہا کہ اس نے کوئی خلاف ورزی نہیں دیکھی ۔ڈاکٹر چیئرمین جو کتاب ہاؤ ٹو ریڈ این الیکشن کے شریک مصنف بھی ہیں، کہتے ہیں کہ اگر اپ کا اس عمل پر مکمل کنٹرول ہے تو آپ محض جھوٹ بول سکتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ووٹوں میں دھاندلی کہیں بھی ہو سکتی ہے ،ایک مضبوط انتخابی نظام کے حامل ممالک میں مقامی مبصرین اور سیاسی پارٹیوں کے ایجنٹ عام طور پر اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر موجود ہوتے ہیں تاکہ ووٹوں کو ریکارڈ کیا جا سکے اور ان کے اپنے نتائج کا حساب لگایا جا سکے۔ یورپین یونین کے اہلکار جیلری کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے آپ کو بے وقوف نہیں بنانا چاہیے یہ عالمی سطح پر جمہوریت کے برے دور ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں جمہوری کے ساتھ بازاری رہی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے بننے والے عوامل میں کمزور معیشت اور سازشی نظریات کو پھیلانے میں سوشل میڈیا کا منفی اثرورسوخ شامل ہے۔ جمہوریت کے مستقبل کا انحصار اس سال ہونے والے انتخابات کے نتائج پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر لوگ ایسی جمہوریت میں ہیں جہاں انتخابات میں ہمیشہ دھاندلی ہوتی ہے تو آج نہیں تو کل بیزار ہو جائیں گے ۔ووٹنگ یا سیاست کا کیا فائدہ، اگر نظام ہمیں کبھی بھی حقیقی انتخاب کی اجازت ہی نہیں دیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔