وجود

... loading ...

وجود

چلیں مچھر چھانتے ،اونٹ نگلتے ہیں!

منگل 13 فروری 2024 چلیں مچھر چھانتے ،اونٹ نگلتے ہیں!

ماجرا/ محمد طاہر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب یہ ایک پامال فقرہ ہے، بار بار دُہرایا گیا۔ مگر بار بار سچ ثابت ہوا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ نوازشریف کے باب میں معاملہ کچھ زیادہ وکھڑا ہے۔ یہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے بلکہ تاریخ کو سبق سکھانے پر تُلے رہتے ہیں۔ چشم ساعت اُن سے روٹھ گئی، مگر وہ دست ِوقت پر بیعت ِشوق کیے ہوئے ہیں۔ بڑھتے بڑھتے اپنا دست ِ ہوس بڑھاتے ہی گئے مگر شاعر کی زبان میں گھٹتے گھٹتے دست ِ دعا رہ گئے ۔ اقتدار کی ہوس ایسی ہے کہ سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ افسوس راندۂ درگاہ ہونے کے باوجود درگاہ کے باہر پڑے ہیں۔ کوئی اُن کے کان میں سرگوشی کرے کہ صفر، صفر کے ساتھ مل کر ہندسہ نہیں بناتے۔ اقتدار کا جادوئی ہندسہ اگر آپ کا اپنا نہ ہوتو مسند ِ اقتدار بھی آپ کی نہیں ہوتی۔ بجوکا میں روح نہیںگھاس پھوس ہوتی ہے۔ یہ دھوکا دینے کے لیے ہوتا ہے ، خود دھوکے میںآنے کے لیے نہیں۔نوازشریف تُلے ہیں کہ اقتدار سنبھالا جائے۔ اعداد وشمار اکٹھے کر لیے گئے ، بھان متی کا کنبہ تیار ہے۔دھوکا تیار ہے، بجوکا سمجھتا ہے کہ وہ گھاس پھوس کانہیں، سمعی بصری فیتوں کی روح سے اپنے آپ میںجان ڈال دے گا۔ حکومت کر لے گا۔
نوامیس ِ فطرت بدلتے نہیں۔ بشری طاقت کتنی ہی بھیانک ہو، قانونِ فطرت سے بڑی نہیں ہوسکتی۔ انسان ،انسان کے لیے خوف پیدا کر سکتا ہے، مگر تاریخ کے جبر کے سامنے وہ منہ کے بل گرتا ہے۔ کیا عجب ماجرا ہے۔ ہر وہ الزام جو عمران خان پر لگایا گیا، وہ غلط ثابت ہوا۔ اور الزام لگانے والے اُسی الزام کے بمصداق ثابت ہوئے۔ سفاکیت دیکھیے! لمحہ موجود میںاپنی کارگزاری کو دوسرے کے خلاف چارج شیٹ بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ نواز لیگ ہمیشہ سے اس میں ماہر تھی۔سموچے اونٹ نگلتے تھے مگر ہمیشہ دوسروں کے مچھر بھی چھانتے تھے۔ اونٹ کے نوالے میں شریک ذرائع ابلاغ جرائم میں بھی اُن کے شراکت دار تھے۔ مگر تحریک انصاف پر الزام تھا کہ وہ پروپیگنڈا کرتے ہیں۔زیادہ وقت نہیں گزرا ۔ یہ ٢٠١٨ کے انتخابات تھے، زرداری کے برخوردار نے عمران خان پر آوازا کسا ”سلیکٹڈ وزیراعظم”۔ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے ”لاڈلے” کی سُر میں” سلیکٹڈ” کی بھنبھناہٹ جاری رکھی۔ شریف برادران کو تو اللہ نے کب توفیق دی کہ کوئی درست بات کرتے مگر صداقت کے الہامی فرمودات سے منبر و محراب گرمائے رکھنے والے اصحاب جبہ و دستار بھی جھوٹ کی دُکان بڑھاتے رہے۔کبھی عمران خان پر دھرنے کا الزام تھا، دھرنا اُس کے خلاف دیا گیا۔ لباس نہیں تب دلائل تبدیل کر لیے گئے ۔ بے شرم ذرائع ابلاغ نے عمران خان کے دھرنے کے خلاف جو شور مچایا وہ عمران خان کے خلاف دھرنے میں قومی مسائل کی موسیقی میں بدل گیا۔ سلیکٹڈ وزیراعظم اور لاڈلے کے الزامات سہنے والا عمران خان جب ایوان وزیراعظم سے نکلا تو کہا: کوئی رہ تو نہیں گیا۔ کوئی نہیں رہا تھا۔ مگر سلیکٹڈ اور لاڈلے کی جگالی کرنے والے ہیر پھیر کے اس چکر میں جب اپنے پرانے منصب ِ دلبری پر بحال ہو ئے تو کسی نے ”سلیکٹڈ اور لاڈلے” کے الفاظ کی جگالی نہیں کی ۔ بے شرم ذرائع ابلاغ کو ایک مرتبہ پھر یاد کریں۔ یہ پی ڈی ایم کی حکومت تھی۔دُہری سلیکٹڈ، دُہری لاڈلی۔ اسے یہاں سے ہی نہیں ، دنیا بھر میں حکومتیں گرانے والے امریکا کی پسندیدگی کی سند بھی میسر تھی۔ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے بے ضمیر دانشور کبھی پاکستان میں امریکی مداخلتوں پر کتابیں لکھا کرتے تھے، دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے دانشوروں اور سیاست دانوں کو امریکا کے طفیلیے کہتے تھے۔ اچانک جی بہلا دینے والی کسی گمراہ کن شب میںنوازشریف کے ہو رہے۔ یہ تمام کے تمام کسی ہچکچاہٹ کی شکار بنت حوا کی مصالحانہ مزاحمت کی کیفیت کے شکار ہوئے۔ نواز شریف کے بیش قیمت مہنگے سیاسی کمبل پر سرمائے کی گوٹا کناری نے طبقات کی بحث سے نکال کر انہیں میٹھی نیند دی۔ یہ بیش قیمت کمبل اوڑھنے والے کسی ایک نظریے کے نہ تھے۔ دائیں بائیں سارے ہی اس کمبل کے نیچے ایک دوسرے کو سازگار ہوئے۔ دائیں بائیں کی بحثیں لپٹ گئیں، ہر چیز نوازشریف کی ”ذات ِوالاصفات ” کے گرد گھومنے لگی۔دربارِ سرمایہ میںجاہ پسنداور راحت پسند اصحاب جبہ و دستار سے لے کر رندانِ خرابات تک سب ہی ایک صف میں کھڑے نظر آئے۔ وہ شخص جسے ڈھنگ کے چار فقرے بھی روانی سے بولنے نہیں آتے ، اس میں سے اچانک ایک مدبر برآمد ہوا۔ کسی کو اس میںسقراط کی جھلک دکھائی دی، کوئی اُن کی سیاسی قلابازیوں پر ابن خلدون کے نظریہ ٔ تاریخ کے زرق برق ورق چڑھاتا رہا۔ کچھ عرصہ قبل عمران خان یوٹرن خان تھا۔ یہ بحث بھی ختم ہوگئی،اِ دھر” استعفیٰ نہیں دوں گا” سے ٹائپسٹ بننے تک، ”اقتدار نہیں اقدار” سے لے کر پی ڈی ایم سرکار تک ،”ووٹ کو عزت دو” سے لے کر گھوڑوں گدھوں کی خرید وفروخت اور چمگاڈروں کے جاگنے کے اوقات میں چپکے چپکے ، چھپ کے چھپ کے ملاقاتوں تک کہیںکسی یوٹرن کا گمان تک پیدا نہیں ہوا۔ دائیں بازو کے منافق اور ریاکار دانشوروں سے لے کر بائیں بازو کے فریبی اور ڈھونگی خرد مندوں تک سب کتاب الحیل کھولے بیٹھے رہے۔ حیلے تراشتے رہے۔ کسی نے ان قلابازیوں کو یوٹرن نہیں کہا۔ عمران خان کے باب سلیکٹڈ سے لے کر یوٹرن تک ہونے والی یہ بحث بھی ختم ہوئی۔
ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ نون لیگی زبانیں دراز تھیں ، لفنگوں کی زبان میں اُن کے دانشورعمران خان کی راتوںکو زیرِلب مسکراہٹوں کے ساتھ ہدف بناتے تھے ۔اُنہیں عمران خان کے باب میں توبہ کی فضیلتیں یاد نہ رہیں، تبدیلی کی آرزو پر یہ نیتوںکے پہرے دار بن گئے ۔ مگر وہ نواز شریف کو ہدف بنانے والے موضوعات میںاُس خاتون گلوکارہ سے لے کر مصنفہ کم بارکر تک سب کچھ فراموش کر بیٹھے تھے، جس پر شرمندگی کا کوئی لفظ تھا، نہ توبہ کی کوئی گواہی۔ بس یہ خدائی فوجدار شریف عورتوں سے لے کر معزز رشتوں تک ہر ایک پہ پِل پڑے تھے۔ لے پالکوں کو چھوڑیں مگر یہ دانشوربھی عمران خان کو ایک سلیبرٹی کے رنگ وروپ میں کسی نشئی کی مانند دیکھتے اور دکھاتے تھے، جس کے متعلق یہ رائے مستحکم کردی گئی کہ صرف ایک رات اِ سے حوالۂ زنداں کر کے دیکھیں، کیسے اس کے اعصاب چٹختے ہیں؟ اس کے لیے عون چودھری کے مجہول حوالے گردش کرتے رہے۔ پروپیگنڈے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جھوٹ کے کاروبار ایسے ہی چلتے ہیں۔ میڈیا کے دانشور گاہے کسبی جتنی حیا بھی نہیں دکھاتے۔ نون لیگ سے تعلق واسطے کی زیادہ سے زیادہ قیمت تو پتہ نہیں کیا دینا پڑتی ہو، مگر اس کی ادنی قیمت کردار کی دِنائی سے اداکی جاتی ہے۔ وہ دی اور دی جاتی رہی، یہاں تک کہ اُسے گرفتار کر لیا گیا۔ مگر یہ کیا سال گزشتہ اگست سے گرفتار عمران خان نئے سال کے ماہ فروری میںداخل ہے، مگر نہ خود ترحمی اور خود ترسی کی فریادیں ہیں۔ نہ بے خودی کی مجبوریوں سے پھوٹنے والی بیمار آوازیں ہیں۔ نہ اعصاب چٹخنے کے دور دور تک آثار ہیں۔ دانشوروں نے عمران خان کو نوازشریف پر قیاس کر لیا تھا۔ چند روز میں بیماری کے بہانے، پلیٹ لیٹس گرنے کا شور شرابہ ، جیل سے نکلنے کی درخواستیں۔ مگر دانشوروں نے نوازشریف کے بیماری کے بہانے لندن فرار کو بھی تقدیس عطا کی اور عمران خان کی جیل میں استقامت کو بھی تحقیر کا ہدف بنائے رکھا۔
عمران خان کو جیل میں ڈال کر مقاصد حاصل کرنے کے دماغ نے بھی 8 فروری کو شکست کھائی۔ ابھی احمقوں نے تجزیہ نہیں کیا کہ طاقت کا مقابلہ طاقت سے نہیں کردار سے کیا جاتا ہے۔ عمران خان نے کردار سے کیا۔ طاقت اپنے استعمال سے خرچ ہو کر ختم ہوتی ہے اور کردار اپنے ظہور سے اعتبار پا کر باعث ِبرکت بنتا ہے۔ اڈیالہ کا قیدی ، قید کہاں ہے؟اُسے حوالۂ زنداں بنا کر انتخابات میںاپنے مقاصد کے خواہاں ناکام رہے۔وہ اپنے ہی پیدا کردہ حالات کے قیدی بن گئے۔ انتخابات میں اگر کسی مہم نے عوام پر اپنا اثر چھوڑا تو وہ قیدی نمبر 804 کی استقامت ہے۔ اب ”بجوکے” حکومت کریں گے۔ چند ہفتے یا چند ماہ۔ دھاندلی مینڈیٹ کا مقابلہ کرے گی، چند ہفتے یا چند ماہ ۔ مگر یہ برقرار نہ رہ پائیں گے۔ جس طرح انتخابات کے منصوبے ناکام ہوئے ، بعد از انتخابات یہ کھیل بھی برباد ہو جائیں گے۔ ابھی یہ فیصلہ بھی ہونا ہے کہ جنہیں ایک پارٹی کے انتخابات میں خرابیاں نظر آئی تھیں ، اُنہیں عام انتخابات میںبھی کچھ نظر آیا ہے یا نہیں؟ ابھی یہ فیصلہ ہونا ہے کہ حضرت عیسیٰ نے جو اپنی قوم کے لیے کہا تھا کہیں ہم وہاں تک تو نہیں پہنچ گئے، انجیل میں حضرت عیسیٰ کا اپنی قوم کی اشرافیہ کے متعلق یہ ارشاد ملتا ہے کہ ”تمہارے اندر خیانت بھری ہے، تم مچھر چھانتے ہو اور سموچے اونٹ نگل لیتے ہو”۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیریوں کی شخصی آزادی بھی چھن گئی وجود منگل 03 دسمبر 2024
کشمیریوں کی شخصی آزادی بھی چھن گئی

دنیا ہماری انگلیوں پر وجود منگل 03 دسمبر 2024
دنیا ہماری انگلیوں پر

مودانی :ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے وجود پیر 02 دسمبر 2024
مودانی :ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی وجود پیر 02 دسمبر 2024
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پائی جانے والی انتہا پسندی

انا کی موت،زندگی کی حقیقت وجود پیر 02 دسمبر 2024
انا کی موت،زندگی کی حقیقت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر