... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
گیانواپی مسجد پر منعقد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا محمود مدنی نے فرمایا :‘‘ جس کی لاٹھی ،اس کی بھینس ، جنگل راج کی علامت ہے اور یاد رکھیے کہ لاٹھی اور بھینس کا قانون اگر چلے گا تو لاٹھی ہاتھ بدلتی رہتی ہے ’’۔ اس آفاقی حقیقت کا انکار کرنے والوں کی عقل ٹھکانے لگانے کی خاطر مشیت ان پر لاٹھیاں برساتی ہے ۔ موجودہ صورتحال جنگل راج سے بدتر ہے کیونکہ جنگل میں بھی یہ نہیں ہوتا کہ کچھ جانوروں کو اسلحہ سے لیس کرکے انتظامیہ کی وردی پہنا دی جائے ۔ اقتدار میں آنے یا اسے قائم رکھنے کی خاطر کچھ درندے انتظامیہ کا بیجا استعمال کرنے لگیں اور وہ بے چوں و چرا ان کے آگے دم ہلاتی رہے ۔ایسا کس جنگل میں ہوتا وحشی جانوروں کا کوئی گروہ قلم اور مائک ہاتھ میں لے کر جبرو استبداد کو جائز و مستحب ٹھہرانے میں جٹ جائے اور نام نہاد آزاد عدلیہ قانون اور ضابطے کو طاق پر رکھ کر سرکار کی آلۂ کار بن جائے۔ ایسا تو جمہوری فسطائیت میں ہی ممکن ہے ۔ علامہ اقبال نے مندرجہ ذیل شعر میں جو بات کہی تھی اس کی عملی مثال موجود سرکار پیش کررہی ہے
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
وطن عزیز میں آزادی کے بعدہی سے سومنات کی آڑ میں ہندو مسلم منافرت کی سیاست کا آغاز ہوگیا ۔ پہلے تو صدر مملکت راجندر پرشاد کے وہاں جانے پر تنازع کھڑا ہوا اور آگے چل کر مستقبل کے بھارت رتن لال کرشن اڈوانی نے وہیں سے رام رتھ یاترا شروع کرکے ملک نفرت کی آگ لگادی۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد اب اس کی تپش کاشی اور متھرا تک پھیل گئی ہے ۔ غزنی سے ویراول آکر سومنات پر حملے کی کہانی سنانے والے بھول جاتے ہیں ان کے آبا و اجداد نے گوتم بدھ کے ماننے والوں کا اپنے ہی ملک میں قتل عام کیا۔ ایودھیا بودھوں کا بہت بڑا مرکز ساکیت تھا ۔ بابری مسجد کے نیچے سے اس بودھ مندر کے آثار نکلے جس کو ہندووں نے تباہ تاراج کیا تھا۔ ان لوگوں نے ساکیت میں بدھ مت کے پیروکاروں کی ایسی نسل کشی کی کہ شہر کی گھاگرا کا ندی کا پانی سرخ ہوگیا اور اسے سریو کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ اس تاریخ کو چھپانے کی خاطر یوگی سرکار نے پوری گھاگرا ندی کا نام بدل کر سریو کرنے کی تجویز پیش کی ہے ۔ ان مظالم کے سبب بدھ مت چین،جاپان ، میانمار اور سری لنکا تک تو پھیلا مگر ہندوستان میں ناپید ہوگیا۔ایسی خونریز تاریخ کے حاملین کو مسلمانوں پر کیچڑ اچھالنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے ۔
دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر شمس الاسلام کے مطابق تاریخ کی مستند کتابوں میں بودھوں اور جینوں کی عبادت گاہوں توڑے جانے کی تصدیق کی گئی ہے ۔ معروف ہندو راہب سوامی وویکانند کی تعریف کرنے سے سنگھ پریوار نہیں تھکتا مگریہ نہیں بتاتا ہے کہ انہوں نے مشہور جگناتھ مندر کو ایک پرانا بودھ مندرلکھا ہے ۔ وہ آگے لکھتے ہیں’’ہم نے (یعنی ہندووں نے ) اسے اور اس جیسے دوسرے مندروں کو واپس ہندو مندر بنا دیا۔ ہمیں ابھی اس طرح کے بہت سے کام کرنے ہوں گے‘‘۔آریہ سماج کے بانی مہارشی دیانند سرسوتی نے شنکر آچاریہ کے گن گاتے ہوئے لکھا ہے کہ دس سال تک انہوں (شنکر آچاریہ) نے پورے ملک کا دورہ کیا، جین مت کی تردید اور ویدک (ہندو) مذہب کی وکالت کی۔ وہ تمام ٹوٹی ہوئی تصویریں جو آج کل زمین کی کھدائی کے دوران مل رہی ہیں انہیں جینوں نے توڑے جانے کے خوف سے دفن کر دیا تھا۔اسی طرح مستند ذرائع اور بدھ مت کی تاریخی کتابیں گواہ ہیں کہ 184 قبل مسیح میں موریہ سلطنت پر قابض ہو کر شنگا سلطنت نامی ہندو حکومت قائم کرنے والے پشیہ مترا شنگا نے بڑی تعداد میں بودھوں کی عبادت گاہیں تڑوائیں اور راہبوں کو قتل کروایا۔
معروف تاریخ داں ڈاکٹر عبدالمجید کے مطابق جنوبی ہندوستان میں بودھوں اور جینوں کی عبادت گاہوں کی بھرمار تھی جنھیں توڑا گیا یا ہندو مندروں میں تبدیل کردیا گیا مگر گوں ناگوں وجوہات کی بناء پرکوئی اس کا ذکر نہیں کرتا۔ اس حقیقت کااعتراف خود ہندو شہنشاہوں کی کتابوں میں بھی ملتاہے مثلاً جنوبی ہندوستان میں ہندو چالوکیہ خاندان کے شہنشاہ سومیشورا سوم نے ‘مناسلاسا’ نامی ایک کتاب لکھی تھی۔ اس میں وہ تلقین کرتاہے کہ کسی علاقے کو فتح کرنے والے بادشاہ کو اس علاقے کے شہنشاہ سے منسلک عمارتوں مثلاً محلوں اور عبادت گاہوں کو جلا دینا چاہیے ۔بودھ مت کو ہندوستان سے نکالنے کے بعد بھی یہ لوگ چین سے نہیں بیٹھے بلکہ معروف تاریخ نگار دھماکتی کے مطابق پانڈیان کے حکمران سریمارا سری ولابھا نے 835 عیسوی کے آس پاس سری لنکا پر حملہ کرکے سنہالا بادشاہ، سینا اول کی فوج کو شکست دی تو وہ پہاڑوں کی طرف بھاگ گیا۔ سریمارا نے شاہی خزانے کو لوٹنے کے بعد دیگر اشیاء کے ساتھ پانڈیا گوتم بدھ کا وہ نقرئی مجسمہ بھی اپنے ساتھ لے آیا، جسے تقریباً 50 سال پہلے موتی محل میں نصب کیا گیا تھا۔معروف مؤرخ پروفیسر ڈیوس کے مطابق پانڈیان کی فوج جب واپس چلی گئی، تو اس کے بعد سینا اول لوٹ کر پھر سے اقتدار پر فائز ہوگیا۔ سینا اول کے بعد اس کابھتیجا سینا دوم جانششین ہوااور851-885 عیسوی کے درمیان حکمرانی کی۔ اس نے ایک دن خالی پیڈسٹل کو دیکھ کر اپنے وزراء سے دریافت کیا کہ یہ ایسا کیوں ہے ؟ وزیر نے کہا کہ :، “کیا بادشاہ نہیں جانتا؟ آپ کے چچا کے زمانے میں پانڈیان نے یہاں آکر جزیرے کو ویران کر دیا تھا اور ہمارا سارا قیمتی سازو سامان مع مجسمہ لے کر چلا گیا تھا’’۔ یہ سن کر سینا دوم بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے اپنے وزیر کو فوراً انتقام لینے کی خاطر فوج تیار کرنے کا حکم دیا۔اس وقت تک، پانڈیان کی فوج پالووں کے خلاف تین لڑائیوں کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھی۔ اس لیے لنکا کی فوج نے مدورائی کو تباہ و تاراج کرنے کے بعد گوتم بدھ کے سونے کا مجسمہ واپس لے جاکر اسے دوبارہ موتی محل میں نصب کردیا ۔ کیااٹھتے بیٹھتے رام اور راون کی فرضی داستان سنانے والوں کو اس تاریخی حقیقت کا ذکر نہیں کرنا چاہیے ؟ لیکن کیسے کریں شرم آتی ہے ۔
اندرون ملک ہندو راجاوں کے ذریعہ مندروں کی تباہی کا تاریخ مسلمانوں کی آمد سے قدیم ہے ۔ 642 عیسوی کے اوائل میں ، پالوا حکمران نرسمہورمن اول نے چلوکیوں کو فتح کیا، ان کے دارالحکومت واٹاپی کو برخاست کر دیا، نیز گنیش کی مورتی کو تامل ناڈو میں لاکر اپنی بادشاہی میں لگادیا۔ اس مجسمہ نے وتاپی گنپتی کے نام سے شہرت حاصل کی۔اس زمانے میں مورتیوں کو لوٹنے کے بعد اس لیے فخر سے نصب
کیا جاتا تھا کیونکہ ان پر پچھلے مالکان کا نام کھدا ہوتا تھا ۔اس سے وہ اپنے ماضی کی فتوحات کو یاد کرتے تھے ۔ اس طرح کے معاملات صرف جنوبی ہند تک محدود نہیں تھے بلکہ شمالی ہندوستان میں ، 950 عیسوی کے اندر چندیلا کے حکمران یشوورمن نے کھجوراہو میں وشنو ویکنتھ کے لیے سونے کا لکشمن مندر تعمیر کیا۔ اس کے لیے اڑیسہ کا ساہی راجہ کیلاش پربت سے تبت کے بادشاہ کو شکست دے کر مورتی لایا تھا ۔ پرتیہارا حکمران ہیرمباپال نے ساہیوں کو شکست دے کر وہ مورتی اس سے چھین لی۔ اس کے بعد یشوورمن نے ہیرامبا پالا کے بیٹے دیو پال کو مغلوب کر دیا اور اس مجسمہ کو کھجوراہو لے گیا۔ تاریخ کے اوراق میں مورتیوں کی یہ لوٹ مار ہندو بادشاہوں کے نام پر درج ہے لیکن اسے اپنی سہولت کے لیے بھلا دیا گیا ہے ۔
بابر اور اورنگ زیب کی جھوٹی سچی کہانیا ں سننے والے ہندووں کو ان تاریخی حقائق پر یقین نہیں آئے گا مگر وزیر اعظم نریندر مودی کے اپنے حلقہ انتخاب میں کاشی کاریڈور کا مشاہدہ تو سبھی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ اس سیاحتی مندر کی تعمیر کے لیے نہ جانے کتنے قدیم ہندو مندروں کو توڑا گیا۔ اس کے خلاف کچھ ہندو تنظیموں نے صدائے احتجاج بھی بلند کیا مگر گودی میڈیا کے نقار خانے میں طوطی کی آواز کچل دی گئی۔ ایک تحقیق کے مطابق اس کاریڈور کی تعمیر میں جملہ 286 شیولنگ اپنی جگہ سے ہٹا دیے گئے ۔ ان میں 140 کہاں گئے کوئی نہیں جانتا مگر 146 تو وارانسی کے لنکا تھانے میں موجود ہیں ۔ وہاں پر روز ان کی پوجا پاٹھ کی جاتی ہے ۔ گیان واپی محلے میں واقع جامع مسجد کے تہہ خانے پوجا پاٹھ کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ بھی پولیس تھانے میں جاکر اتنے سارے مجسموں کے ساتھ جو من میں آئے کریں مگر مسلمانوں کی مسجد میں آکرخرافات نہ کریں۔ عوام اس طرح کی ناٹک بازی سے بیزار ہو چکے ہیں اور اس کے چکر میں پھنس کر بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے ۔ گیانواپی مسجد کے معاملے میں ضلعی عدالت کے جج کا آخری دن ایک نامعقول فیصلہ اور اس پر تیزی کے ساتھ عمل درآمد انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کا غماز ہے ۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کا اسے ہائی کورٹ میں لوٹا دینا اور اگلی تاریخ دینے کے بعد ہائی کورٹ کا پوجا پر روک نہیں لگانا یہ بتاتا ہے کہ ’یہ اندر کی بات ہے عدالت ہمارے ساتھ ہے ‘۔ایسے میں مولانا ارشد مدنی کا یہ سوال درست معلوم ہوتا ہے کہ ’اگر قانون کا کوئی دخل ہی نہیں ہے تو پھر قانون کی کتابوں میں آگ لگا دیں‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔