وجود

... loading ...

وجود

یومِ اُمیدیا۔۔۔؟

بدھ 07 فروری 2024 یومِ اُمیدیا۔۔۔؟

حمیداللہ بھٹی

عوام کے لیے آٹھ فروری یوم اُمید ِ ثابت ہو گا یا نہیں البتہ دوصوبوں میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے باوجود عام انتخابات کے انعقاد میں اب کوئی ابہام نہیں رہا۔دوصوبوں میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن نے دوٹوک عندیہ دیا کہ اعلان کے مطابق آٹھ فروری کوعام انتخابات کرادیں گے اوریہ کہ تاخیر کے حوالے سے گردش کرنے والی قیاس آرائیوں میں کوئی صداقت نہیں مگر افواہیں پھیلانے والے پھر بھی باز نہ رہے۔ کل پاکستانی ووٹرز اپنی رائے کا ظہار کردیں گے کہ کون اکثریت کا پسندیدہ ہے۔ عام انتخابات میں تو کوئی ابہام نہیں رہا مگر کیا ووٹرزآزادانہ مرضی سے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دے سکیں گے اور یہ کہ سب کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے یکساں مواقع ملے ہیں؟ اِس بارے میں رائے دینا اِس لیے مناسب نہیں کہ سابق حکمران جماعت کا مسلسل کہنا ہے کہ اُسے انتخابی عمل سے باہر کرنے کے حیلے کیے جارہے ہیں ملک میں جاری پکڑ دھکڑ سے ایسے الزامات کی تائید ہوتی ہے۔ نہ صرف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو گرفتاریوں کا سامنا ہے بلکہ کارکنان تک عتاب کا شکار ہیں جس سے نگران حکومت کی غیرجانبداری سوالیہ نشان بن چکی ہے بلکہ نتائج کی شفافیت کے حوالے سے بھی خدشات کو تقویت مل رہی ہے جن کا خاتمہ بہرحال غیر جانبداری کے دعویداروں کا امتحان ہے۔
اگر براہ راست منتخب ہونے والے قانون ساز اِداروں کے اراکین یا سربراہ مملکت اپنی معینہ مدت پوری کرلیں یا داخلی انتشار بڑھ جائے تو ازسرِنو عوامی رائے جاننے کے لیے انتخابات کرائے جاتے ہیںتاکہ سیاسی عدمِ استحکام کا خاتمہ ہو سکے۔ پاکستان کے سیاسی استحکام کے لیے حالیہ انتخاب کافی اہمیت کے حامل ہیں ۔اِن سے تازہ دم سیاسی قیادت کو ملکی مسائل حل کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل سکے گا۔ عام انتخابات سے ملک میں سیاسی استحکام آتا ہے ناتواں معیشت بہتر ہوتی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ متوقع حکومت کی کارکردگی دیکھ کر ہی طے کیا جا سکے گا۔ اگر آزمائے ہوئے چہرے ہی دوبارہ اقتدار میں آئے تو شاید ہی توقعات پوری ہو سکیں ۔سیاسی منظر نامے پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو محض اتنی تبدیلی محسوس ہوتی ہے کہ ملک ایک بار پھر دوجماعتی نظام کی طرف جا رہا ہے جس کے لیے تمام توانائیاں صر ف کی جا رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگرملک میںدوبارہ دوجماعتی نظام لانے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنا رہوتی ہیں تو پاکستانی معاشرے کو اِس کا فائدہ بھی ہو گا یا نہیں۔ کچھ حلقے تو ثمرات کی یقین دہانیاں کرانے میں مصروف ہیں۔ دراصل جن کے پاس طاقت ،دولت ،شہرت اور اختیار ہوتا ہے ،اُنھیں عام آدمی کے مسائل کا کچھ خاص علم نہیں ہوتا۔ اسی لیے پاکستان میں عام آدمی کو محض ووٹر سمجھ کرصرف انتخابات میں اہمیت دی جاتی ہے اور ووٹ لینے کے بعد یکسر بھلا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ وقت کے ساتھ اِن میں اضافہ ہورہاہے۔ کل آٹھ فروری کو یہ ووٹروں نے طے کرنا ہے کہ اُنھیں ایک دن کا کھانا کھا کر جلسوں کی رونق بننا عزیزہے یا ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہے جونہ صرف دردمند دل کے مالک اور عام آدمی کے مسائل سے آگاہ ہوں بلکہ اپنی بساط کے مطابق حل کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہوں کل کے انتخابات تبھی یوم ِ اُمید ثابت ہو سکتے ہیں، جب ملکی اور عوام مسائل حل کرنے کا جذبہ رکھنے والی قیادت منتخب ہوکر پارلیمان میں آئے۔
دنیا بدل رہی ہے ہم سے بعدمیں آزاد ہونے والے ممالک معاشی طاقتیں بن چکے ہیں مگر پاکستان قیام کے بعد جس رفتار سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا ،اُسے زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکا اورگزشتہ چار دہائیوں سے مسلسل معاشی بدحالی کا شکار ہوتاجارہا ہے جس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ بارباراقتدار میں آنے والی سیاسی قیادت ہے۔ طاقت کے مراکز بھی باربار اِنھیں ہی ایک کے بعد دوسرے کو آزماتے رہے۔ لیکن کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو یہ سیاسی قیادت نااہل ہی ثابت ہوئی ہے۔ اب ایک بارپھر سیاسی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ عوام کی امیدوں کا محور بنناچاہتی ہے یا تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بننے کی خواہشمندہے ۔اِس کاجواب چاہے سیاسی قیادت دینے سے اجتناب کرے ،اقتدار سنبھالنے والوں کی کارکردگی سے جواب مل جائے گا۔ کیا یہ حیران کُن نہیں کہ بلاول بھٹو جس وزیرِ اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں بطور وزیرِ خارجہ کام کرتے رہے ہیں اُنھیں ہی اب مناظرے کا چیلنج کررہے ہیں ؟سچ یہ ہے کہ اگر شہباز شریف کی قیادت میں ن لیگ کی کارکردگی مثالی نہیںتو اِس جرم سے بلاول بھٹو بھی کسی طور بری الزمہ نہیں۔
پاکستان اِس وقت مسائل کے بھنور میں ہے۔ بدامنی فروغ پارہی ہے اور معاشی حالت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ سالانہ میزانیہ بھی عالمی مالیاتی اِداروں کی ہدایت کے مطابق تیار کرنے پر مجبورہیں۔ جس سے نوجوان نسل مایوسی کا شکار ہے۔ سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت اور موجودہ نگران حکومت کی غلط پالیسیوں نے مسائل میں کمی لانے کی بجائے اضافہ کیا ہے۔ اگر پاکستان بھر میں ایسے افراد کی تلاش کی جائے جو ملکی حالات پرمکمل طورپر مطمئن اور خوش ہیں تو اِس کے لیے کافی محنت کرنا ہوگی۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کو مسائل کے گرداب میں پھنسا دیا ہے۔ کُل پچیس کروڑ آبادی میں سے دس کروڑ لوگ سطح غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بے چینی اور مایوسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ برس دس لاکھ کے قریب لوگ ملک چھوڑ کر رزق کی تلاش میں بیرونِ ملک جا چکے ہیں ۔سیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری رُک چکی ہے۔ ا ب دیکھنا یہ ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کی روشنی میں تشکیل پانے والی حکومت درپیش مسائل حل کر سکے گی؟ بظاہر توانتخابی مُہم کے دوران تمام سیاستدان ہی ایسے ایسے وعدے کرتے پھررہے ہیں جنھیں پوراکرنے کے لیے کمزور نہیں بلکہ ایک توانا معیشت کی ضرورت ہے مگر پاکستان کی مالی حیثیت مستحکم نہیں۔ اسی بنا پرانتخابات میں فتح حاصل کرنے اور حکومت تشکیل دینے والی سیاسی قیادت کی طرف سے وعدے پورے کرنے کے حوالے سے عوام شکوک و شبہات کا شکارہیں جس کے تناظر میں دعاہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ کرے آٹھ فروری کے نتائج عوام میں مایوسی بڑھانے کی بجائے اُمیدوں کے محور ثابت ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر