... loading ...
حمیداللہ بھٹی
عوام کے لیے آٹھ فروری یوم اُمید ِ ثابت ہو گا یا نہیں البتہ دوصوبوں میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے باوجود عام انتخابات کے انعقاد میں اب کوئی ابہام نہیں رہا۔دوصوبوں میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن نے دوٹوک عندیہ دیا کہ اعلان کے مطابق آٹھ فروری کوعام انتخابات کرادیں گے اوریہ کہ تاخیر کے حوالے سے گردش کرنے والی قیاس آرائیوں میں کوئی صداقت نہیں مگر افواہیں پھیلانے والے پھر بھی باز نہ رہے۔ کل پاکستانی ووٹرز اپنی رائے کا ظہار کردیں گے کہ کون اکثریت کا پسندیدہ ہے۔ عام انتخابات میں تو کوئی ابہام نہیں رہا مگر کیا ووٹرزآزادانہ مرضی سے اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دے سکیں گے اور یہ کہ سب کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے یکساں مواقع ملے ہیں؟ اِس بارے میں رائے دینا اِس لیے مناسب نہیں کہ سابق حکمران جماعت کا مسلسل کہنا ہے کہ اُسے انتخابی عمل سے باہر کرنے کے حیلے کیے جارہے ہیں ملک میں جاری پکڑ دھکڑ سے ایسے الزامات کی تائید ہوتی ہے۔ نہ صرف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو گرفتاریوں کا سامنا ہے بلکہ کارکنان تک عتاب کا شکار ہیں جس سے نگران حکومت کی غیرجانبداری سوالیہ نشان بن چکی ہے بلکہ نتائج کی شفافیت کے حوالے سے بھی خدشات کو تقویت مل رہی ہے جن کا خاتمہ بہرحال غیر جانبداری کے دعویداروں کا امتحان ہے۔
اگر براہ راست منتخب ہونے والے قانون ساز اِداروں کے اراکین یا سربراہ مملکت اپنی معینہ مدت پوری کرلیں یا داخلی انتشار بڑھ جائے تو ازسرِنو عوامی رائے جاننے کے لیے انتخابات کرائے جاتے ہیںتاکہ سیاسی عدمِ استحکام کا خاتمہ ہو سکے۔ پاکستان کے سیاسی استحکام کے لیے حالیہ انتخاب کافی اہمیت کے حامل ہیں ۔اِن سے تازہ دم سیاسی قیادت کو ملکی مسائل حل کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل سکے گا۔ عام انتخابات سے ملک میں سیاسی استحکام آتا ہے ناتواں معیشت بہتر ہوتی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یہ متوقع حکومت کی کارکردگی دیکھ کر ہی طے کیا جا سکے گا۔ اگر آزمائے ہوئے چہرے ہی دوبارہ اقتدار میں آئے تو شاید ہی توقعات پوری ہو سکیں ۔سیاسی منظر نامے پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو محض اتنی تبدیلی محسوس ہوتی ہے کہ ملک ایک بار پھر دوجماعتی نظام کی طرف جا رہا ہے جس کے لیے تمام توانائیاں صر ف کی جا رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگرملک میںدوبارہ دوجماعتی نظام لانے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنا رہوتی ہیں تو پاکستانی معاشرے کو اِس کا فائدہ بھی ہو گا یا نہیں۔ کچھ حلقے تو ثمرات کی یقین دہانیاں کرانے میں مصروف ہیں۔ دراصل جن کے پاس طاقت ،دولت ،شہرت اور اختیار ہوتا ہے ،اُنھیں عام آدمی کے مسائل کا کچھ خاص علم نہیں ہوتا۔ اسی لیے پاکستان میں عام آدمی کو محض ووٹر سمجھ کرصرف انتخابات میں اہمیت دی جاتی ہے اور ووٹ لینے کے بعد یکسر بھلا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ وقت کے ساتھ اِن میں اضافہ ہورہاہے۔ کل آٹھ فروری کو یہ ووٹروں نے طے کرنا ہے کہ اُنھیں ایک دن کا کھانا کھا کر جلسوں کی رونق بننا عزیزہے یا ایسے نمائندوں کا انتخاب کرنا ہے جونہ صرف دردمند دل کے مالک اور عام آدمی کے مسائل سے آگاہ ہوں بلکہ اپنی بساط کے مطابق حل کرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہوں کل کے انتخابات تبھی یوم ِ اُمید ثابت ہو سکتے ہیں، جب ملکی اور عوام مسائل حل کرنے کا جذبہ رکھنے والی قیادت منتخب ہوکر پارلیمان میں آئے۔
دنیا بدل رہی ہے ہم سے بعدمیں آزاد ہونے والے ممالک معاشی طاقتیں بن چکے ہیں مگر پاکستان قیام کے بعد جس رفتار سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا ،اُسے زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکا اورگزشتہ چار دہائیوں سے مسلسل معاشی بدحالی کا شکار ہوتاجارہا ہے جس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ بارباراقتدار میں آنے والی سیاسی قیادت ہے۔ طاقت کے مراکز بھی باربار اِنھیں ہی ایک کے بعد دوسرے کو آزماتے رہے۔ لیکن کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو یہ سیاسی قیادت نااہل ہی ثابت ہوئی ہے۔ اب ایک بارپھر سیاسی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ عوام کی امیدوں کا محور بنناچاہتی ہے یا تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بننے کی خواہشمندہے ۔اِس کاجواب چاہے سیاسی قیادت دینے سے اجتناب کرے ،اقتدار سنبھالنے والوں کی کارکردگی سے جواب مل جائے گا۔ کیا یہ حیران کُن نہیں کہ بلاول بھٹو جس وزیرِ اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں بطور وزیرِ خارجہ کام کرتے رہے ہیں اُنھیں ہی اب مناظرے کا چیلنج کررہے ہیں ؟سچ یہ ہے کہ اگر شہباز شریف کی قیادت میں ن لیگ کی کارکردگی مثالی نہیںتو اِس جرم سے بلاول بھٹو بھی کسی طور بری الزمہ نہیں۔
پاکستان اِس وقت مسائل کے بھنور میں ہے۔ بدامنی فروغ پارہی ہے اور معاشی حالت اتنی خراب ہوچکی ہے کہ سالانہ میزانیہ بھی عالمی مالیاتی اِداروں کی ہدایت کے مطابق تیار کرنے پر مجبورہیں۔ جس سے نوجوان نسل مایوسی کا شکار ہے۔ سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت اور موجودہ نگران حکومت کی غلط پالیسیوں نے مسائل میں کمی لانے کی بجائے اضافہ کیا ہے۔ اگر پاکستان بھر میں ایسے افراد کی تلاش کی جائے جو ملکی حالات پرمکمل طورپر مطمئن اور خوش ہیں تو اِس کے لیے کافی محنت کرنا ہوگی۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عام آدمی کو مسائل کے گرداب میں پھنسا دیا ہے۔ کُل پچیس کروڑ آبادی میں سے دس کروڑ لوگ سطح غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بے چینی اور مایوسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ برس دس لاکھ کے قریب لوگ ملک چھوڑ کر رزق کی تلاش میں بیرونِ ملک جا چکے ہیں ۔سیاسی عدمِ استحکام کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری رُک چکی ہے۔ ا ب دیکھنا یہ ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کی روشنی میں تشکیل پانے والی حکومت درپیش مسائل حل کر سکے گی؟ بظاہر توانتخابی مُہم کے دوران تمام سیاستدان ہی ایسے ایسے وعدے کرتے پھررہے ہیں جنھیں پوراکرنے کے لیے کمزور نہیں بلکہ ایک توانا معیشت کی ضرورت ہے مگر پاکستان کی مالی حیثیت مستحکم نہیں۔ اسی بنا پرانتخابات میں فتح حاصل کرنے اور حکومت تشکیل دینے والی سیاسی قیادت کی طرف سے وعدے پورے کرنے کے حوالے سے عوام شکوک و شبہات کا شکارہیں جس کے تناظر میں دعاہی کی جا سکتی ہے کہ اللہ کرے آٹھ فروری کے نتائج عوام میں مایوسی بڑھانے کی بجائے اُمیدوں کے محور ثابت ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔