... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”کچھ نہیں بدلنے والا” اور ”پکچر ابھی باقی ہے” کے درمیان پھنسے عوام کے منہ پر دو فیصلے دو دن میں مار دیے گئے۔پہلے فیصلے میں عمران خان کے شریک ِسیاست شاہ محمود اور دوسرے میں رفیقِ حیات بشریٰ بی بی بھی شراکت دارِ سزا بنائے گئے۔ یہ سیاست، تنگ اور زندگی، اجیرن بنادینے کے ”ہائبرڈماڈل” اشارے ہیں۔ جو طاقت وروں کے آگے نہ جھکنے کی” غلطی” پر معمول کے مطابق دیے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کہہ سکتے ہیں ”کچھ نہیں بدلا”۔کچھ نہیں بدلا کا ایک جامد منظر دوسرا فیصلہ سنانے والے جج بھی پیش کرتے ہیں۔
کچھ نہیں بدلنے والا، کی روح فرسا چھب ان دنوں عدالتوں سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ مگر صرف جسٹس محمد بشیر ہی کو لیتے ہیں، جن کے نام نامی اور اسم گرامی کو اب ایک افسانوی شہرت مل چکی ہے۔ ایک زبردست احتساب برانڈ کا ”ہائبرد انصاف”یہاں نعرہ زن ہے کہ” کچھ نہیں بدلنے والا”۔ جسٹس محمد بشیر 14مارچ کو ریٹا ئر ہو رہے ہیں، جنہوںنے عمران خان کو اُن کی شریک حیات کے ساتھ14 برس کی ہی قید بامشقت کی سزا سنادی ہے۔ جسٹس محمد بشیر کی عدالت میں اب تک ایک سابق صدر اور چھ سابق وزرائے اعظم پیش ہوچکے ہیں۔ اسلام آباد کی اسی عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو جولائی 2018ء میں ایون فیلڈ ریفرنس میں ایون فیلڈ فلیٹ ضبط کرتے ہوئے نواز شریف کو 80لاکھ پاؤنڈاور مریم نواز کو 20لاکھ پاؤنڈ کا جرمانہ کیا تھا۔ جسٹس محمد بشیر احتساب عدالت نمبر ایک میں گزشتہ گیارہ برسوں سے تعینات ہیں۔ جبکہ وزارت قانون کے قواعد کے مطابق نیب ججز کی تقرری صرف تین برس کے لیے ہوتی ہے۔ پاکستان کا ”ہائبرڈ ماڈل کا طرزِ حکمرانی” جن وزرائے اعظم سے ان کی مدت میں توسیع کراتارہا، اُن ہی وزارئے اعظم کو ان کے ہی کٹہرے میں کھڑا بھی کرتا رہا۔ ایک دلچسپ مقدمے کے طور پر اس کھیل کو دیکھا جاسکتا ہے جو ”کچھ نہیں بدلنے والا”کا شک بونے میں کامیاب رہتا ہے۔ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے جسٹس محمد بشیر کو احتساب عدالت میںبطور جج تعینات کیا۔ اسی عدالت میں یوسف رضاگیلانی توشہ خانہ کیس میں ہی پیش ہوتے رہے۔ جسٹس محمد بشیر کی میعاد 2015ء میں اختتام پزیر ہوتی تھی مگر یہی ہائبرڈ ماڈل طرزِ حکمرانی بروئے کار آیا اور ”ووٹ کو عزت دو” کے معروف لندن پلٹ برانڈ نواز شریف نے اُنہیں مزید تین سال کی توسیع دے دی۔ پھر ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ نوازشریف اُن کے کٹہرے میں پیش نہ کیے جاتے۔ چنانچہ ایون فیلڈ کے مشہور زمانہ ریفرنس میں نوازشریف اسی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے کیے گئے اور سزایاب ہوئے۔ اب باری عمران خان کی تھی۔ جو پاکستان کے سیاسی نشیب فراز سے اُبھرے تھے اور جدلیاتی کشمکش کے شکار معاشرے میں جواب دعویٰ (اینٹی تھیسیس) کی سب سے بڑی صلاحیت رکھنے والے ایک اہم عامل کے طور پر ابھی پہچانے نہ گئے تھے۔ اُن پر بھی تب تک روایتی سیاست کے روایتی الزامات تھے، اُنہیں اسی ”ہائبرڈ ماڈل” میںکارگزارباقی سیاسی قوتیں ”سلیکٹڈ” کہہ رہی تھیں، یہ تمام قوتیں ماضی میں سلیکشن کے پنگھوڑے میں ہی جھولتی رہی تھیں،ان کا مسئلہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ”یہ کیوں ، ہم کیوں نہیں”؟جسٹس محمد بشیر کی اس منصب پر مدتِ ملازمت 2021 میں ختم ہوئی تو تب” سلیکٹڈ” کے الزام سے دوچار عمران خان سریر آرائے اقتدار تھے۔ پاکستان کا ہائبرڈ ماڈل طرزِ حکمرانی پوری عریاں حالت میں بروئے کا رتھا۔ تب کے وزیراعظم عمران خان نے بھی اُن کی مدتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی۔ پاکستان میں ”کچھ نہیں بدلنے والا” کا سامنا ہمیں یہاںبھی ہوا، جب عمران خان بھی اُسی کٹہرے میں کھڑے ہو کر سزا کے شکار ہوئے۔ یہ پاکستانی سیاست کی وہی پرانی گھمن گھیری ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک ہی جج کے سامنے ایک کٹہرے میںکھڑے ہونے والے تین جماعتوں کے وزرائے اعظم ایک ہی جیسے انجام سے دوچار ہوتے ہیں، ایک ہی جیسے حالات سے گزرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا ان تینوں جماعتوں کا ردِ عمل بھی یکساں ہے؟
”پکچر ابھی باقی ہے” کہنے والوں کے نزدیک بس یہیں کچھ الگ ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ نون او رپیپلزپارٹی دست ِ وقت پر بیعت ِشوق کرچکی۔ اپنی روایتی عمر پوری کرنے اور بوسیدہ تاریخ کی کِرم خوردہ مخلوق بننے کے قریب ان جماعتوں کے تھکے ہارے ،بوڑھے بکھرے، ہانپتے کانپتے رہنما ”کچھ نہیں بدلنے والا” کی جگالی کر رہے ہیں ۔ اُن کی عملی کوششیں ”سپر لاڈلہ’ ‘ بننے سے عبارت ہے۔دوسری طرف ایک ایسا رہنما ہے جو زنداں میں رہنے والے اب تک کے تمام سیاست دانوں سے الگ ردِ عمل دے رہا ہے۔ بس یہی بات سب کو پریشان کر رہی ہے۔ بس یہیں سے ”پکچر ابھی باقی ہے” کہنے والوں کو تقویت مل رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما جب زندانوں میں گئے تو ”اچھے بچے” بن کر نکلے۔ نوازشریف جیل گئے تو”معافی تلافی” کے علاوہ ”بیماری بیکاری” کی چیخ پکار کرتے پائے گئے۔خود ترسی اور خود ترحمی سے دوچار رہے۔ ردالی عورتوں کی طرح روتے دھوتے رہے۔ بظاہر ”ووٹ کو عزت دو” کا مغالطہ بھی پیدا کرتے رہے، مگر درپردہ مجھے کیوں نکالا کی تکرار میں ”کیا حکم ہے” کی جستجو میں لگے رہے۔ اس کے برعکس عمران خان نے کچھ الگ کر دکھایا۔ خود ترسی اور خود ترحمی کے شکار نہ ہوئے۔ جیل میں مچھروں اور کھٹملوں کی شکایتیں نہ کیں۔ عزیمت کے لمحات میں رخصت کے حیلے نہ تراشے۔ آقاؤں کے زعمِ باطل میں مبتلا مخلوق کے سامنے گڑگڑائے نہیں۔ اگرچہ عمران خان کے خلاف پروپیگنڈے کی ایک دھول اڑائی گئی تھی۔ اسلام آباد اور لاہور میں دھند فضا کو اتنا آلودہ نہیں کرتی جتنے نون لیگی رہنماؤں کے بیانات اور لے پالک ذرائع ابلاغ کے بھونپوؤں نے اپنے شور سے فضاکو کررکھا تھا۔
ذرا یاد تو کیجیے! عمران خان نشہ کرتا ہے، ایک رات جیل میں نہیں گزار سکتا۔ اس نے زندگی میں کبھی کوئی کٹھن وقت نہیں دیکھا، جیل میں کیسے رہے گا؟ ذرا مریم نواز کی تقریریں یاد کیجیے! عمران خان کی گرفتاری کے مطالبات کے ساتھ کیا زبان اختیار کیے رکھتی تھی؟ یہ وہ زبانیں تھیں جو اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ پس پردہ ایک خاموش مفاہمت کے بعد حرکت میں آئی تھیں۔ جو طاقت اپنی نہ ہو، اس پر اینٹھنے والی مخلوق کچھ زیادہ ہی شیخیاں بگھارتی ہے۔ ایسے لوگ”تھوتھا چَنا باجے گَھنا” کی تصویر ہوتے ہیں۔ کیا مریم نوازاور کیا شہباز شریف کسی کی زبان پر ایسے الفاظ نہ تھے جو خود اُن کی اپنی طاقت کے آئینہ دار ہوتے۔ خاموش مفاہمتوںاور حشرات الارض کی طرح رینگتی سازشوں میں عمران خان کا پورا انجام سوچ لیاگیا تھا۔ مگر یہ کیا ہوا؟ باطل پروپیگنڈا دھوپ کی پہلی کرنوںکے گرتے ہی صبح دم کہرے کی مانند کافور ہو گیا۔ عمران خان اپنے ققنس سے جی اُٹھا۔ کوئی فریاد نہیںکی۔ کوئی خجالت آمیز درخواست نہیں کی۔ اپنے قدموں پر پوری قوت سے کھڑا رہا۔ سارے منتر آزما لیے گئے، سارے حربے اختیار کر لیے گئے۔ مریم نواز کے ہاتھ کا گلاس غائب ہو گیا۔ نوازشریف کی تمام خفیہ شرطیں ایک ایک کرکے پوری کر لی گئیں۔ اب تک سیاست دانوں پر جو حربے الگ الگ آزمائے جاتے رہے، وہ ایک ایک کرکے یہاں پورے برت لیے گئے۔ باقیوں کو مشکل وقت میںاپنے بیرونی سرپرستوں کا آسرا رہا۔نوازشریف کے لیے امریکا حرکت میں آیا، لبنان سے رفیق الحریری کے ذریعے معاملات طے ہوئے۔ زرداری کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو دبئی کے محل میں مشرف سے تنہا ملاقات میں مفاہمت کی نوک پلک درست کرتی رہیں۔ مگر عمران خان کے لیے کسی ملک سے کوئی آواز نہیںآئی۔ کہیںکوئی حرکت میں نہیںآیا۔ وہ تن تنہا کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ یہ پورا نظام عریاں ہو گیا۔ اور عوامی شعور پر اپنے گہرے اثرات چھوڑگیا۔ انگریزی محاورہ ہے کہ ” اگر آپ کچھ کھوئیں تو اس کا سبق نہ کھوئیں” ۔ نوازشریف اور زرداری نے یہ سبق کھودیا، مگر عمران خان نے نہیں۔باقیوں نے اپنے جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے نظام کے ہائبرڈماڈل کے بجائے ”عمران خان” کو تختہ مشق بنایا۔ جبکہ اُن کے ساتھ کسی کھیل کی بساط عمران خان نے نہیں بچھائی تھی۔ عمران خان نے اپنا نشانہ درست رکھا اور نظام کے اس ”ہائبرڈ ماڈل”کو توجہ کا مرکز بنائے رکھا۔ چنانچہ کمزور ،ناتواں، ناکام، نامراداور برباد سیاست دانوں کی پوری کھیپ عمران خان کو ہدف بنائے ہوئے ہے۔جبکہ عمران خان اُن کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہا، اصغر گونڈوی نے کیا خوب صورت ترجمانی کی ہے کہ
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
غبارِ قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے
عمران خان کے اسی ردِ عمل نے پاکستان کے ہائبرڈ ماڈل طرزِ حکمرانی کو خطرے میں ڈال دیا ہے جس کے ذیلی وحادثاتی نقصان (collateral damage)کی شکار تمام سیاسی جماعتیں بن رہی ہیں، بیچاری کرم خوردہ مخلوق ، شاعر کی زبان میں خود برباد ہونے والا غبارِقیس ۔یعنی مریم نواز کے ہاتھ کا گلاس، یعنی نوازشریف کا برباد ہوتا ”ووٹ کو عزت دو” کا دھوکا۔ یعنی شہبازشریف کا کھوکھلاپن، یعنی بلاول کی چیخ وپکار، یعنی زرداری کی حب جاہ ومال۔ یعنی اصحاب جبہ ودستار کی کتاب الحیل۔ یعنی جی حضوری مخلوق۔ یعنی ”کچھ نہیں بدلنے والا” کی باسی کڑھی۔۔۔ ایک عمران خان کے ردِ عمل اور پایہ ٔ استقامت نے سوال پیدا کردیا ہے کہ نظام آگے کیسے چلے گا؟ 8 فروری کے انتخابات کا کیا بنے گا؟ اگلی حکومت قائم بھی ہو گئی تو کیسے چلے گی؟یہ سوال ہم کرتے تو کون سنتا، اب یہ سوال تو امریکا سے بھی سنائی دے رہا ہے۔ اگلے پچھلے دنوں کا وہ مہرہ حسین حقانی بھی چیخ رہا ہے کہ تحریک انصاف کو مطمئن نہ کیا گیا تو اگلی کمزور ناقابل اعتبار اور بے ساکھ حکومت عمران خان اور اُن کی جماعت کی مزاحمت کی تاب کیسے لا سکے گی؟ اگر اس سوال کی سنجیدگی کو سمجھنا ہے تو کچھ اور نہیں نواز شریف کا چہرہ دیکھ لیں۔ اسی لیے اس کشمکش کو سمجھنے کا تاریخی شعور رکھنے والے ذرا مزاحیہ انداز میں کہتے ہیں ، پکچر ابھی باقی ہے۔
٭٭٭