وجود

... loading ...

وجود

انصاف کے نام پر!

جمعرات 01 فروری 2024 انصاف کے نام پر!

ماجرا/ محمد طاہر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز میں ہر چیز اُلٹ ہو گئی، دماغ کا کام ہاتھ سے لیا جانے لگا۔ جسد ِ واحد اجزاء میں بٹ کر آمادۂ بغاوت ہے۔ طاقت کی ہیئت پر تشکیل پانے والے سماج میں کچھ یہی ہڑبونگ رہتی ہے۔ ہر چیز اُلٹ پلٹ ہے، ہر چیز اُلٹ پلٹ!!!
اڈیالہ کے قیدی کو فیصلہ سنا دیا گیا، سنا کیا دیا منہ پہ مار کے منہ چھپا لیا گیا۔ یہ مجرم ہوتا ہے جو آنکھیں چراتا ہے، یہاں انصاف اور نظام انصاف ہے جو آنکھیں چرا اور منہ چھپا رہا ہے۔ 30 جنوری کی تاریخ ، کیلنڈر سے ہٹ گئی مگر تاریخ سے کبھی محو نہ ہوگی۔ اب سال گزرتا ہے، 2023 کی اسی تاریخ کو شہر پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ایک زوردار دھماکا ہوا تھا،اندوہناک واقعے میں101 افراداپنے رب سے جاملے تھے، یہاں اگلے روز کا کسی کو پتہ نہیں ، سو حادثے کے220زخمیوں کا کیا بنا ؟کچھ معلوم نہیں کہ اب کس حال میں جیتے یا مرتے ہیں۔ معلوم تو یہ بھی نہیں کہ اس کی تحقیقات کا کیا ہوا؟ ٹھیک ایک سال بعد بھی ایک ایسے ہی زوردار دھماکے میں ہدف مسجد نہیں انصاف کا عمل ہے۔ کسی بھی سماج کی شیرازہ بندی کا سب سے اہم عامل انصاف ہوتا ہے۔ وہ سماج کبھی وحدت نہیں پاسکتا جہاں ”انصاف” ظلم کے حربے کے طور پر آزمایا جاتا ہو۔ اڈیالہ کے قیدی نمبر804 کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ عمران خان انصاف کا ایک” حربے ”کے طور پر سامنا کر رہا ہے۔ اُس کے ماتھے پر ایک ایسا ”فیصلہ” چسپاں کر دیا گیا ہے جس کا ”فیصلہ ” ابھی تاریخ کی عدالت میں ہونا ہے۔ ایک ذرا دیر کے بعد وہ فیصلہ آ رہے گا۔ ٹہر جائیں! ٹہر جائیں، وہ انصاف کیسا ہوگا، تاریخ نے ایک اُصول کے طور پر رہنمائی کی ہے۔ خلیفہ چہارم حضرت علی کا قولِ زریں جھنجھوڑتا ہے”جو ظلم کے ذریعے عزت چاہتا ہے، اللہ اُسے انصاف کے ذریعے ذلیل کرتا ہے”۔ یہی انصاف ہمارا انتظار کررہا ہے۔ وقت کا پہیہ گھوم کر ہمیںوہاں تک کھینچ لے جائے گا۔
سائفر کیس میں عمران خان کو سزا اُن حریت پسندوں کے لیے ایک انعام کی طرح ہے جو امریکی استعمار کی غلامی سے نجات کو 1947ء کی تحریک آزادی کے مثیل سمجھتے ہیں۔ تب انگریز کے سہیم آج امریکا کے مددگاروں جیسے ہیں۔ تاریخ اُن پر اپنا حتمی حکم صادر کرے گی۔ پاکستان میں امریکی مداخلتوں کو دیکھنے کے لیے سائفر کی آنکھ ضروری نہیں۔ یہ برہنہ ہے۔ اندھے کو بھی نظر آتیں ہیں۔ مگر وہ جو غلام ہوئے ، اُن کی ذہنی پستی اندھوں سے بھی زیادہ اندھا کر دینے والی ہے۔ ایک آزاد ذہن کا جویا وہیں سے شکار کیا جارہا ہے، جہاں سے غلامی کا سراغ ملتا ہے۔ اُسے اپنے ہی مقدمے کا سزاوار بنادیا گیا۔
عمران خان نے ایک ایسی عدالت کا سامنا کیا ہے جسے عدالت کہنا بھی کسی انصاف پسند دماغ کے لیے مشکل ہے۔ پھر اس عدالت نے انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے کسی سوال کے اندیشے کو بھی نہیں پالا۔ خصوصی عدالت کی سرعت دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ بس ایک لمحے بعد حضرت اسرافیل کو صور پھونک دینا ہے اور روزِ قیامت اُن سے یہی سوال ہوگا کہ فیصلہ کرنے میں تاخیر کیوں کی تھی؟خصوصی عدالت جیل میں جس طرح کارگزار ہوئی، اس سے لگتا تھا کہ قیدی نمبر 804 نہیں، انصاف اور خود خصوصی عدالت قیدی ہے۔ خصوصی عدالت میں مقدمے کی خفیہ سماعت ، چہرے کے داغوں کو چھپانے کی کوشش جیسا اقدام بن کر عریاں ہوا۔سماعت میں ملزم کا حق ِدفاع ہی دفع کر دیا گیا۔ وکلائے صفائی کے لیے عدالت پہنچنا ناممکن بنا دیا گیا، پھر اِسے ملزمان کے خلاف ہتھیار بنا کر عدالت نے اپنے ہی وکلاء مسلط کر دیے۔ تاکہ مقدمے کی بے شرمی ، سوالات بن کر گواہان کے چہروں پر کالک کی طرح نہ لگ جائے۔اٹھارہ گواہان رات کے رات یوں بھگتائے گئے کہ کندھوں پر بیٹھے فرشتے بھی نامۂ اعمال سے بے خبررہیں۔ ساڑھے تین بجے سہ پہرختم ہونے والی عدالت کو رات بارہ بجے کے بعد بھی ایسے چلایا گیا کہ سورج سوا نیزے پر رہے۔ کچوے کی چال چلنے والی عدالتی مِسلوں کو خرگوش کے پاؤں لگا دیے گئے۔پھر وہ وقت ِ مطلوب بھی آپہنچا کہ جب انصاف کے قتل کا فیصلہ سنایا جانا تھا۔عصرِرواں کے ”نوشیروانِ عادل” نے عمران خان سے سوال کیا کہ سائفر کہاں ہے؟ بس اس سوال پر سرکاری راز افشاء کرنے کا بوجھ بھی تھا، اسی سوال پر سفارتی دستاویز کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی پھبتی بھی تھی،یہی سوال خفیہ مواصلات کو گم کرنے کے خانہ ساز الزام کی مکروہ واردات کا خفی سامان بھی رکھتا تھا، اسی پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کسی پاکستانی سیاست دان کو پہلی مرتبہ سزا سنانے کا امکان بھی منحصر تھا۔ اتنا ہی نہیں اسی سوال پر انتقام کا بوجھ بھی تھا۔اسی سوال پر لندن سے آئے ”بجوکے” کی زندگی کی غلط بازی بھی لگی تھی، اسی سوال پر اقتدار کے سنگھاسن پر پہنچنے کے باطل اندازے بھی تھے، اسی سوال پر 8 فروری کے انتخابات یوں ٹکے تھے جیسے ہندوتوہم پرستی کے بتکدے میں ساتوں زمینوںکا بوجھ گائے کے سینگوں نے اُٹھا رکھا ہے۔ اسی سوال پر” طاقت ، انصاف ہے ”کا مقدمہ تھا، اسی سوال پر مسخ دماغوں کے مختل اعصابوں کی تسکین کا انحصار تھا، اسی سوال پر برہم شکنوںکی ہمواری تھی، اسی سوال پر طاقت کے مراکزاور” انصاف” کے مصادرکے راز ونیاز قائم تھے،یہ سوال نہ تھا، صدیوں سے ذہنوں میں بوئی گئی غلامی کی فصل تھی، طاقت کے آگے دائم سجدہ ریزی کی رقت و رکاکت تھی، ایک ملک کی پوری آزادی کے گروی ہونے کی دلالت تھی، انصاف کی اعلیٰ روایتوں کو جوتوں تلے رکھنے کی مشق تھی۔
سائفر کہاں ہے؟ یہ سوال نہیں جنرل ایوب خان سے لے کر اب تک کی امریکا سے آنکھ مچولی کا پورا لیکھا جوکھا ہے۔ کپتان نے اس کے جواب میں صرف اتنا تو کہا کہ ”سائفر کی حفاظت کی ذمہ داری مجھ پر عائد نہیں ہوتی، یہ جنرل باجوہ کے کہنے پر چوری کیا گیا”۔ سائفر ہی کہاں یہاں کیا کیا نہیں چوری ہوگیا۔ 1947ء کی آزادی چوری ہو گئی، 1971ء کو آدھا ملک چوری ہو گیا۔ نظریۂ پاکستان چوری ہو گیا۔ سچائی کے لیے مرنے کا جذبہ چوری ہو گیا۔ ایمان چوری ہو گیا۔ دلوں کا جذبہ چوری ہو گیا، ایک قوم کا مستقبل پورا چوری ہو گیا۔ آنکھ کی حیا چوری ہوگئی، خواب چوری ہوگئے، آدرش چوری ہو گئے۔ سائفر بھی چوری ہو گیا۔ انصاف بھی چوری ہو گیا۔ جج نے کپتان کا جواب بھی نہ سنا اورعمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس بر س قید ِبا مشقت کی سزا کا فیصلہ سنا دیا۔ اس پورے عمل میں کچھ کم نہیں پورے55 سیکنڈ صرف ہوئے۔ان 55 سیکنڈ کے اندر قومی حیات کی پوری 77سالہ تاریخ کی حرکت موجود ہے۔55 سیکنڈ کے فیصلے کی یہ سزا عمران خان کو نہیں انصاف پر 77سالہ اعتماد کو سنائی گئی۔ اٹھاریویں صدی کے فرانسیسی جج اور سیاسی فلسفی مونٹیسکیو کے الفاظ اڈیالہ جیل کے درودیوار سے ٹکراتے ہیں”تاریخ میں سب سے بڑھ کر ظلم قانون کی آڑ اور انصاف کے نام پرہوئے ”۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر