وجود

... loading ...

وجود

عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور اسرائیلی درندگی

جمعرات 01 فروری 2024 عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور اسرائیلی درندگی

حمیداللہ بھٹی

جنوبی افریقہ کی طرف سے غزہ کی پٹی پر ہونے والے اسرائیلی حملوں کے خلاف ہنگامی اقدامات کے لیے عالمی عدالت ِانصاف میں دائرکی جانے والی درخواست پرجمعہ کے روزفیصلہ سناد یا گیاہے۔ سترہ رُکنی عدالت نے حکم دیا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات یقینی بنانے کے ساتھ ایک ماہ کے اندر عدالت کو رپورٹ بھی پیش کی جائے ۔جارح فوج کو مزید پابندکیا گیا ہے کہ نسل کشی کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کے آرٹیکل 2کے مطابق فلسطینیوں کے قتل ،شدید جسمانی یا ذہنی نقصان ،ایذارسانی ،اُن کی مکمل یا جزوی جسمانی تباہی ،جان بوجھ کر اُن کے معمولاتِ زندگی پر اثر انداز ہونے نیز ایسے اقدامات جس سے فلسطینی آبادی کی شرح پیدائش رُک جائے جیسی کوششیں ختم کی جائیں اگر عالمی عدالتِ کے فیصلے پرعملدرآمد ہوجائے تو اسرائیلی مظالم میں کسی حد تک کمی آسکتی ہے مگر ابھی تک ایسے کوئی اشارے نہیں ملے جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ اسرائیل عالمی عدالت ِانصاف کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے نسل کشی کا سلسلہ ختم کرنے پر آمادہ ہے بلکہ ہنوز صیہونی افواج وحشت و درندگی کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اب بھی نہ صرف فضائی حملے جاری ہیں بلکہ ہسپتالوں کا بھی محاصرہ کیاجاچکا ہے جس کی وجہ سے زخمیوں کے آپریشن منسوخ کیے جا چکے ہیں ۔اِس سے غزہ کی پٹی پرفلسطینیوں کی حیات کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔ عالمی عدالت ِ انصاف کے فیصلے میں جوسب سے بڑا سقم نظر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ اسرائیل کو حملے روکنے کا حکم نہیں دیاگیا ۔ اسی لیے دیدہ دلیری سے نرم فیصلہ بھی قبول کرنے پر آمادہ نہیں،بلکہ درندگی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
غزہ میں اسرائیلی درندگی دیکھتے ہوئے بھی ستاون سے زائد مسلم ممالک خاموش ہیں۔ جنوبی افریقہ نے دلیری کا مظاہرہ کیا اور عالمی عدالت ِ انصاف میں درخواست دائر کردی۔ اِس پربھی ابتدا میں اسرائیل اعتراضات کرتے ہوئے عدالت ِانصاف کے سماعت کے دائرہ کارکو ہی چیلنج کردیا مگر عدالت نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے سماعت جاری رکھی اور جارح اسرائیل کوچند احتیاط کرنے کا پابند کردیاہے۔ ابھی عدالت نے نسل کشی کے الزامات کے حوالے سے فیصلہ سنانا ہے جس پر کافی وقت لگ سکتا ہے کیونکہ تحقیقات ہونی اور شواہد جمع کرنے ہیں جنھیں مد ِنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ مگر عدالت کا اسرائیلی کارروائیوں پر تشویش ظاہرکرنا اوریہ قرار دینا کہ جنوبی افریقہ کی طرف سے جو الزامات عائد کیے گئے ہیں اُن میں سے بعض نسل کشی کنونشن کی تعریف کے مطابق ہیں۔ جارح صیہونی ریاست کے خلاف عالمی عدالت میں مضبوط مقدمے کی بنیا د بن سکتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی ہٹ دھرمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف پاس کی جانے والی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی طرح عالمی عدالت ِ انصاف کے فیصلے کو بھی اہمیت دینے اور عمل کرنے کا کوئی اِرادہ نہیں رکھتا کیونکہ نہ صرف غزہ کی آبادی پر حملے جاری ہیں بلکہ ا سکولوں ،ہسپتالوں ،یواین او اورذرائع ابلاغ کے دفاتراور مہاجرکیمپوںپر بھی بلادریغ بم برسائے جارہے ہیںجس سے حماس کاخاتمہ تو شاید نہ ہومگر بوسنیاکے شہر سریبرینیکاکی طرح غزہ سے انسانی آبادی ختم ہونے کا امکان بڑھنے لگا ہے ۔سات اکتوبر سے اب تک حملوں میں تیس ہزارسے زائد معصوم اور بے گناہ فلسطینی نہ صرف جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیںبلکہ زخمی اور معذور ہونے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ کتنے افراد ملبے تلے دب کر جاںبحق ہوئے اور کتنے ابھی تک زخموں سے چورتڑپ رہے ہیں ۔ درست اعداد و شمار کاعلم ہی نہیں کیونکہ فضائی حملوں میں وقفہ ہی نہیں آنے دیاجا رہا۔ رواں برس فلسطین میں طلبا و طالبات کے امتحانات کا انعقاد بھی نہیں ہو سکا کیونکہ امتحان دینے کے لیے کوئی زندہ ہی نہیں بچا۔یہ نسل کشی نہیں تو کیا ہے ؟پانی اور خوراک کی قلت سے الگ انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ بیماروں اور زخمیوں کو علاج معالجے کی سہولیات تک حاصل نہیں۔ لیکن مہذب کہلوانے کی دعویدار عالمی طاقتیں بدستور اسرائیل کی پشت پناہی میں مصروف ہیں جس سے ظاہرہوتاہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کامنظرنامہ اپنی مرضی کے مطابق رکھنا چاہتی ہیں جس کے لیے ایک ناقابلِ شکست اسرائیل ضروری ہے مگر ضرورت اِس امرکی ہے کہ مسلم امہ کی تو کوئی مجبوری نہیں اُسے تو متحد ہوکر مظلوم فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ صیہونی افواج کی درندگی کا سلسلہ ختم ہو ۔
سات اکتوبر2023کی صبح حماس نے اسرائیل پر حملہ سعودیہ و اسرائیل کو تعلقات قائم کرنے سے روکنے کی نیت سے کیاتھا مگر حملے کی حماقت کرتے ہوئے بھلا دیا گیا کہ جنگ کا آغازکرنا سہل مگر جنگ کا خاتمہ کرنا مشکل ہی نہیں کبھی کبھی ناممکن ہوجاتا ہے ۔آج غزہ میں یہی ہورہا ہے۔ ساراعلاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ غزہ کی تمام آبادی کو بے گھر کرانے کے باوجود اسرائیل و سعودیہ کودور نہیں کیا جاسکا۔ وہ اب بھی باہمی تعلقات قائم کرنے پر متفق ہیں ۔اسی لیے حماس کے حملے کو حماقت کہتاہوںکیونکہ نہ تو حملے کے مقاصد حاصل ہوئے بلکہ پوری آبادی کو بے گھر کرانے کے ساتھ ہزاروں اموات و لاکھوں زخمی کرانے جیسے الگ صدمات کادروازہ کھول دیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ فلسطین اسرائیل دشمن ہے مگر جتنی دشمنی حماس نے کی ہے وہ بھی اسرائیل سے کم نہیں۔ حماس کے پشتیبان ایران کی تو یہ حالت ہے کہ وہ مذمتی بیانات جاری کرنے کے سواکچھ نہیں کر رہا ۔اب تواسرائیل کو محفوظ بنانے کی آڑ میں صیہونی افواج لبنان ،عراق ،شام اور اُردن کو بھی نشانہ بنانے لگی ہیں جس سے بدامنی فروغ پانے کا خدشہ ہے۔
اسرائیلی حملوں کے جواب میں حوثی بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں اسرائیل کو سامان کی ترسیل کرنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے لگے ہیں جس کے جواب میں امریکہ اور برطانیہ حوثیوں کے ٹھکانوں پر درجنوں حملے کر چکے ہیں جن میں کافی مالی وجانی نقصان ہو چکاہے۔ یوں ایک اورمحاذپر لڑائی کا آغاز ہوچکاہے ،اِس کی بھی ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اُس کی حماقت نے فلسطین کو وحشت و درندگی کی نذر کیا اب یمن بھی تباہی کی زد میں ہے لیکن بھاری نقصان کے باوجوداب بھی حماس قیادت بڑھک بازی میں مصروف ہے ۔
جنوبی افریقہ کی حکومت نے بین الاقوامی سطح پر قانون کی پاسداری کے لیے فیصلہ کُن برتری سے تعبیر کرتے ہوئے عالمی عدالت ِانصاف کے فیصلے کو فلسطینی عوام کے لیے حصولِ انصاف کا اہم سنگِ میل قرار دیا ہے۔ جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے عالمی عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا اہم فیصلہ ہے جومظلوم فلسطینیوں کو مصائب ومزید نقصان سے بچانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ مگراسرائیل کی طرف سے ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے جس سے ظاہر ہوکہ وہ جنونیت اور وحشت چھوڑ کر امن پسندانہ اقدامات پر رضا مندہے مسلم ممالک کی طرف سے بھی اسرائیلی کارروائیاں بندکرانے کے لیے یکسوئی کا فقدان ہے۔ حالانکہ وہ مسلم ممالک جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد سفارتی اور تجاتی تعلقات قائم کر چکے ہیں، وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اگر موثر کردار ادا کریں تو نہ صرف عالمی عدالت ِانصاف کے فیصلے پر عملدرآمد ممکن ہے بلکہ درندہ صفت صیہونی افواج کی جارحیت کا سلسلہ بھی فوری ختم ہو سکتا ہے۔ افسوس کہ بے حسی کی شکارمسلم دنیا لاتعلق ہے ۔ اسی لیے اسرائیل کسی عالمی قانو ن یا فیصلے کو خاطر میں نہیں لا رہا اور غزہ کی پٹی پرآبادمعصوم اور بے گناہ فلسطینیوں کو نسل کشی کا سامنا ہے کیونکہ غزہ میں جو ہورہا ہے وہ محض تماشائی کی طرح دیکھنے سے مسلم دنیا کی کمزوری اُجاگر ہورہی ہے فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے مسلم امہ جب تک متحرک نہیں ہو گی نہ صرف فلسطینیوں کو نسل کشی کا سامنا رہے گا بلکہ عالمی عدالت ِانصاف کے فیصلے پر عمل ہونا بھی مشکل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر