... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
یہ دورِ تضاد ہے ۔ اس میں جنگ و جدال کے خلاف امن اور عدم تشدد پر گفتگو تو خوب ہوتی ہے مگر ویتنام سے لے کر افغانستان تک اور یوکرین سے فلسطین تک بے دریغ خون ناحق بہتا ہے ۔ ایسے میں جب کوئی ساحر لدھیانوی کو یاد کرکے کہتا ہے ‘گر جنگ لازمی ہے تو جنگ ہی سہی ‘تو بہت سارے دانشور بے چین ہوجاتے ہیں مگر قضیہ فلسطین نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ‘اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی’۔
غزہ کی حالیہ کشمکش میں109ویں روز اسرائیل فوج کے ترجمان دانیال ہاگری نے یہ اعتراف کیا کہ غزہ میں شدید لڑائی کے دوران ایک ہی دن میں 21 اسرائیلی فوجی مارے گئے اور پھر مزید تین لوگوں کے ہلاکت کی خبر آگئی اس طرح یہ تعداد بڑھ کر 24ہوگئی۔ سات اکتوبر 2023 کے بعد سے کسی ایک دن میں اسرائیلی فوج کا یہ سب سے بڑا نقصان ہے ۔ ساڑھے تین ماہ قبل کسے گمان تھا کہ اس طویل میں مجاہدین فلسطین اسرائیل کی ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے والی فوج کا یہ حشر کریں گے کہ اسرائیل کے اندر غم کے بادل چھا جائیں ؟ موت سے بے تحاشہ ڈرنے والی یہودی قوم میں اتنے سارے فوجیوں کے ایک ہی دن مارے جانے سے پھر ایک بار صفِ ماتم بچھ گئی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سعادت سے ان لوگوں کو بہرہ ور کیا جن کا بلند حوصلہ اس شعر کی مصداق ہے
مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
مجاہدین فلسطین کے حملے سے ظالم حکمرانوں کا غرور کس طرح پاش پاش ہوگیا اس کا اندازہ اسرائیلی حکام کے ردعمل سے کیا جاسکتا ہے ۔ اسرائیل کے پریشان حال وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے تسلیم کیا کہ 24 فوجیوں کی ہلاکتیں جنگ شروع ہونے کے بعد کا مشکل ترین دن ہے ۔اس کے باوجود اکڑ نہیں گئی اورکہا ہم غزہ میں نہیں رکیں گے اور مکمل فتح تک لڑتے رہیں گے ۔ یہی ضد اسرائیل اور اس کے فوجیوں کی خاطر سوہانِ جان بنی ہوئی ہے ۔ نیتن یاہو فوج کے ذریعہ حملے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کرتے ہیں لیکن کیا اس سے ہلاک ہونے والے فوجی واپس آجائیں گے ؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ مجاہدینِ فلسطین نے راکٹ سے چلنے والے دستی بموں سے ایک ٹینک کو نشانہ بنایا۔ اس سے ایک ثانوی دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں فوجیوں پر دو عمارتیں گر گئیں جن میں ایک مکمل بٹالین موجود تھی۔ اوسطاً ایک بٹالین میں پانچ سو فوجی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی میڈیا مرنے والوں کی تعداد50 سے 123 تک بتاتا ہے ۔اسرائیلی فوجی ترجمان کے مطابق ان میں سے زیادہ تر فوجی اس وقت ہلاک ہوئے جب راکٹ لانچر سے چلنے والے بم (آر پی جی) نے ایک ٹینک اور عمارت کو اڑانے کی کوشش کی۔’ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اسرائیل کے فوجیوں کی خاطر اب غزہ کے اندر اسپتالوں اور تعلیم گاہوں پر قبضہ کرکے اس میں ڈیرہ ڈال دینا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوگیا ہے ۔ ان کے ٹینک انہیں حفاظت فراہم کرنے کے بجائے تباہی کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔7 اکتوبر 2023 کو حماس کا اسرائیل پر حملہ اسی جارحیت کا فطری ردعمل تھا۔ اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے غمزدہ ہو کر چوبیس فوجیوں کی ہلاکت کو ‘ناقابل برداشت مشکل صبح’ قرار دیا، کیوں کہ اتنے سارے بہترین صہیونی بیٹوں کے نام قبروں کے کتبوں میں شامل کیے گئے ۔ اسرائیلی صدر نے غزہ کو ‘انتہائی مشکل جگہ’ بھی بتایا۔ سوال یہ ہے کہ اس کو عدم تحفظ کا شکار کس نے کیا؟ اور وہاں یہودی فوجیوں کو ترنوالہ بنانے کے لیے کس نے روانہ کیا؟ہرزوگ کو اگر غزہ کے اندر بمباری سے شہید ہونے والے بے قصور عورتوں اور بچوں کی تاریک رات کا احساس ہوتا تو یہ صبح نمودار نہیں ہوتی ۔
اسرائیلی قومی سلامتی کے انتہائی شدت پسند وزیر ایتمار بن گویر نے فوج کی ہلاکتوں پر آپے سے باہر ہو کر فلسطینی مزاحمت کو ‘نازی دشمن’ قرار دے دیا حالانکہ ساری دنیا اسرائیل کو نازیوں کے باپ کا لقب دے رہی ہے ۔ بن گوئر کے مطابق حماس کو شکست دینا پہلے سے زیادہ اہم ہو گیا ہے ۔ انہیں جلد یا بہ دیر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ہدف لاکھ اہم سہی مگر ناممکن ہے ۔ بن گوئر نے کہا ایک ہی دن میں 24 فوجیوں کی ہلاکت سے یہ بات اب پہلے سے زیادہ واضح ہو گئی ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں آپریشن بند نہیں کرنا چاہیے ، اسرائیل کو غزہ میں نازی دشمن کو اپنی پوری طاقت سے زیر کرنا، کچلنا اور نابود کرنا جاری رکھنا چاہیے ۔بن گوئر جیسے لوگوں کی یہی ہٹ دھرمی اسرائیلی فوجیوں کو موت کے منہ میں ڈکھیلتی رہے گی اور بار بار انہیں اس طرح کے صدمہ سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اسے ”ایک عظیم آفت” قرار دیا لیکن اسے اعتراف کرنا چاہیے تھا کہ یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔اسرائیلی جنگی کابینہ نے بھی اس کو تمام اسرائیل کے لیے ایک مشکل صبح بتایا اور وزیر توانائی کے پاس اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں تھے ۔ وہ بولے “الفاظ کافی نہیں ہیں۔ یہ گیدڑ بھبکی اب کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ اسرائیل کی تمام تر سفاکی کے باوجود مجاہدین فلسطین کو پسپا کرنے میں ناکام ہوگیا ہے ۔اسرائیلی وزیر توانائی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا سا بقہ ان لوگوں سے پڑا ہے جو ساحر کے اس شعرکی مصداق ہیں
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
اسرائیلی ترجمان نے فوجیوں کی ہلاکت کوتو تسلیم کیا مگر زخمی فوجیوں کی تفصیلات نہیں بتائی حالانکہ زخمیوں کی تعداد مرنے والوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔غزہ پر اسرائیلی جارحیت میں اب تک اسرائیل کو ناقابلِ تلافی عسکری اور معاشی نقصان ہو چکا ہے ۔ اسرائیلی حکومت دو سو سے زیادہ فوجیوں کی موت کا اعتراف کرچکی ہے ۔ معروف عبرانی اخبار یدیوت اہرونوٹ سے وابستہ عسکری امور کے نامہ نگار یوسی یہوشوا کے مطابق اب تک جنگ کے سبب معذور ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 12 ہزار تک ہو سکتی ہے ۔ مجاہدین کی یہ کامیابی اس امریکی رپورٹ کی تائید کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے ‘طویل جنگ کے باوجود حماس کی جنگی صلاحیت کو برقرار ہے ‘۔ غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے ۔ پچھلے ماہ 13 دسمبر کو غزہ کی جنگ میں 20 اسرائیلی فوجیوں کے ہلاک ہونے کی خبر آئی تھی ۔ اس واقعہ کی
خاص بات یہ تھی کہ ان فوجیوں کو مجاہدین غزہ نے نہیں مارا تھا بلکہ وہ خود اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے یعنی یہ دنیا کی سب سے زیادہ تربیت یافتہ آئی ڈی ایف کا سیلف گول تھا۔
تل ابیب میں موجود اسرائیلی میڈیا کے مطابق فوج نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ فرینڈلی فائر اور آپریشنل حادثات میں 20 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے ۔ان ہلاک شدگان میں 13 فوجی فرینڈلی فائرنگ میں مارے گئے ، کچھ اپنے ہی ڈرونز اور ہیلی کاپٹر کی فائرنگ کے زد میں آگئے تھے اور کچھ اسرائیلی فوجی ٹینک کے فائر سے مارے گئے تھے ۔ اس عجیب و غریب معاملہ کی وجہ ایک ہفتہ بعد اس طرح سامنے آئی کہ غزہ سے واپس آنے والے ایک اسرائیلی فوجی نے کنیسٹ کے اجلاس سے پہلے چونکا دینے والے اعترافات کر کے ساری دنیا کے سامنے صہیونوں کی پول کھول دی ۔غزہ کی لڑائیوں سے دستبردار ہونے والے سپاہی اویچائی لیوی نے کہا کہ وہ اب بھی تصور کرتا ہے گویا اس کے سر پر آر پی جی کے گولے اڑ رہے ہیں۔ وہ خود کو بلڈوزر کے اندر لڑائی کے درمیان محسوس کررہاہے اور لاشوں کی بو سونگھ رہا ہے ۔اس نے اعتراف کیا واپس آنے بعد بھی ڈر کے مارے نیند میں بستر کے اندر وہ پیشاب کردیتا ہے ۔ شراب کی بوتل کے بغیر وہ خوف کے مارے سو نہیں پاتا۔
اسرائیلی فوجی اویچائی لیوی نے الزام لگایا تھا کہ اس کے اور ساتھیوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار اسرائیلی حکومت ہے ۔ اس حکومت نے ہی انہیں جنگ میں ڈھکیلا ہے ۔لیوی نے پرجوش انداز میں کہا تھا وہ زخمیوں کو پکار رہا ہے ،”تم کہاں ہو؟ تم نئے معذوروں کی بات کر رہے ہو، جب کہ یہاں معذور لوگ ہیں۔ ان میں سے درجنوں ہیں جن کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔ میں اپنے لیے بھی بول رہا ہوں، مجھے بھی چھوڑ دیا گیا ہے ”۔اس نے شکایت کی کہ اسے نفسیاتی علاج کیس ہولت سے محروم رکھا جارہا ہے ۔ اسرائیلی فوجی نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھاکہ اس نے سرکار کے لیے اپنے ہاتھوں سے 40 سے زیادہ لوگوں کو مارا ہے ۔وہ اس کے ڈراؤنے خوابوں میں آتے ہیں اور پوچھتے ہیں تم نے ہمیں کیوں مارا؟ مشیت کے اس عذاب میں مبتلا اسرائیلی فوجی اپنے ساتھیوں کو ہلاک کر دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس 25 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود مجاہدین کاحوصلہ بلند ہے کیونکہ ان کے لیے
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے
جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے گی صبح امن لہو رنگ ہی سہی
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی